تخلیقی سانچے
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8848
نسلی سلسلے کے بارے میں یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ پیدائش میں انسان، کتّے اور بلّی یکساں نوعیت کے حامل ہیں۔
ایک مائع لُعاب (Sperms) جب دوسرے لُعاب (Ova) میں مل کر تحلیل ہو جاتاہے اور تخلیقی سا نچے میں ٹھہر جاتا ہے تو ایک خا ص پروسیس (Process) کے تحت اس کی نشوونما شروع ہو جاتی ہے۔ پہلی رات یہ محلول مٹر کے دانے کے برابر ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ بڑھ کر ایک جیتی جا گتی، دیکھتی ہنستی، سنّتی محسوس کرتی تصویر بن جاتی ہے۔ اس تصویر میں دس سوراخ ہوتے ہیں اور یہ دس سوراخ پوری زندگی پر محیط ہیں۔ ان ہی دس سوراخوں پر آدمی کی صلاحیّتوں کا دارومدار ہے۔ بولنا، سننا، سونگھنا جسم کے اندر زہریلے اور فاسد مادّوں کو خارج کرکے جسم کو صاف ستھرا کرنا اور مادّی زندگی کی حفاظت کرنا ہی ان دس سُوراخوں پر قائم ہے ان دس سوراخوں میں سے ایک سوراخ بھی اپنی ڈیو ٹی پوری نہ کرے یا یہ سُوراخ کسی بھی معنی میں سوراخ نہ رہے تو اُسی مُناسبت سے انسانی زندگی میں خلاء واقع ہو جاتا ہے اور وہ بے کار، کم صلاحیّت یا عضوِ معطّل بن جاتا ہے۔ ان دس سُوراخوں کی تقسیم اس طرح ہے۔
• کا نوں کے دو سوراخ آدم زاد کے اندر قوّت سامعہ ہیں۔
• آنکھوں کے دو سوراخ با صِرہ (Vision)، یعنی یہ با ہرکے عکس کو دماغ کی اسکرین پر منتقل کرکے کسی چیز کے ہونے کا علم فراہم کرتے ہیں اور یہ علم مختلف مراحل سے گزرکر لامِسہ بن جاتا ہے۔
• ناک کے دو سوراخ ہمیں قوّت شامّہ عطا کرتے ہیں۔
• منہ اور حلق کے دو سُوراخ ہمیں غذائی معاملات میں خود کفیل کرتے ہیں۔ ایک طرف ہماری تمام غذائی ضروریات کا دارو مدار اس سُوراخ پر ہے، دوسری طرف یہ سُوراخ قوّت گویا ئی عطا کرتے ہیں۔
• نواں سُوراخ جہاں کثافت کو دور کرنے کا ذریعہ ہے، وہ اَفزائشِ نسل کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
• غذامیں سے توانائی حاصِل کرنے کے بعد جو فضلہ باقی رہ جاتاہے، دسواں سوراخ ان کے اخراج کا ذریعہ ہے۔
یہ ایک نظام ہے جو تواتر کے ساتھ قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔
ہمیں بیج کے پُھوٹنے پر تین چیزوں کا اِدراک ہوتا ہے:
• ایک تنا…۔ اور
• دو پتے….
اس تخلیقی عمَل سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ہر چیزاور ہر وُجود دو رُخوں پر قائم ہے اور پھر یہ دو رُخ تقسیم ہو کر کئی رُخ بن جاتے ہیں۔
آدمی بھی دو رُخوں سے مرکّب ایک تصویر ہے۔ آدمی کے اندر دو دماغ ہوتے ہیں۔ ایک دا ئیں طرف اور دوسرا بائیں طرف۔ دو آنکھیں ہوتی ہیں ناک کے دو نتھنے ہوتے ہیں حلق بظاہر ایک نظر آتا ہے، مگر حلق کے اندر گوشت کا لوتھڑا (Uvula) یا کوّا لٹکا رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے حلق دو حصّوں پر تقسیم ہو جاتا ہے۔ دو ہاتھ ہوتے ہیں۔ دو ٹانگیں ہوتی ہیں۔ دو پَیر ہوتے ہیں۔ دو گردے ہوتے ہیں، دو جگر ہوتے ہیں۔ دل کو اگر تقسیم کیا جائے تو وہ ایک پردے (Septum) کے ذریعے بنیادی طور پر دو حصّوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھیپھڑے دو ہیں۔ علیٰ ھٰذا القِیاس مادّی جسم کا جب تجزیہ کیا جاتا ہے تو ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ انسان کی تخلیق دو رُخوں پر قائم ہے۔ مزید سوچ بچار اور چھان بین کی جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں نَوعِ انسانی اور تمام نَوعیں بھی دو رُخوں پر قائم ہے۔ ایک مذکر (Male) اور ایک مؤنّث (Female) …. ایک مَرد اور ایک عورت… ایک باپ اور ایک ماں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 16 تا 18
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔