استغنا کی تعریف
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19056
قانون یہ ہے کہ استغنا یقین کے بغیر پیدا نہیں ہوتا اور یقین کی تکمیل مشاہدے کے بغیر نہیں ہوتی اور جس آدمی کے اندر استغنا نہیں ہوتا اس کا تعلق مادی دنیا (اسفل) سے زیادہ رہتا ہے۔
اور جس بندے کے اندر استغنا نہیں ہوتا اس کا ذہن بے یقینی اور وسوسوں میں گھرا رہتا ہے اس کے اوپر مستقبل کا خوف طاری ہوتا ہے جو نعمتیں اسے ماضی میں حاصل ہوتی رہی ہیں ان کی طرف ذہن جاتا ہی نہیں۔
مثال:
ایک بچہ پیدا ہوا وہ اس حالت میں ہے کہ وہ کروٹ بدل سکتا ہے نہ ہاتھ سے کوئی چیز پکڑ سکتا ہے اور نہ پیروں سے چلتا ہے۔ اس کا ہر کام دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ دودھ ماں پلاتی ہے، صفائی ستھرائی ماں کرتی ہے، کپڑے ماں تبدیل کرتی ہے۔ اس طرح بچہ گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے زمانے کو عبور کرتا ہوا لڑکپن میں داخل ہوتا ہے۔ لڑکپن سے جوانی کا آغاز ہوتا ہے۔
پڑھتا لکھتا ہے۔ محنت مزدوری کرتا ہے۔ کاروبار کرتا ہے۔ ایک دن کا بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کی شادی ہو جاتی ہے، شادی کے بعد بچے ہوتے ہیں۔ بچوں کے بچوں کی تقریبات کرتا ہے۔ بوڑھا ہو جاتا ہے۔
لیکن جب وہ مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے تو فکر مندی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ ایک دن کی عمر سے ساٹھ سال یعنی اکیس ہزار نو سو دن تک اسے ہر آسائش مہیا کی گئی ہے۔ مزید عمر میں وہ اللہ کی نعمتوں سے کیسے محروم ہو سکتا ہے۔
استغنا کے حامل افراد کے یقین میں یہ بات مستحکم ہوتی ہے کہ آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ حالات کھلونے میں جس طرح چابی بھر دیتے ہیں آدمی اسی طرح چلنے پر مجبور ہے اور کھلونے کی چابی کا رکھوالا، محافظ اور مطلق حاکم اللہ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 179 تا 180
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔