حروف مقطعات
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=24736
سوال: میں نے حروف مقطعات کی تفسیر و توجیہہ کے سلسلے میں جب مختلف مفسرین اور علماء کی تشریحات کی طرف رجوع کیا تو مجھے تسلی و تشفی نہیں ہوئی۔ مثلاً ایک مشہور عالم دین اور مفسر نے لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے شعراء اپنے شعروں میں عجیب و غریب الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جن کے کوئی معانی نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے اس قسم کے الفاظ(حروف مقطعات) بعض سورتوں کے شروع میں استعمال کئے ہیں۔ ان الفاظ کے کوئی معانی نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کیونکہ ان الفاظ کی تفہیم سے اور ان الفاظ کو سمجھنے سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے یا ان الفاظ کے معانی سمجھنے یا نہ سمجھنے سے ہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لئے ان پر غور کرنا بے کار ہے۔
یہ پڑھ کر میں مطمئن نہیں ہوا ،اس لئے کہ اس سے قرآن پاک کی عظمت پر حرف آتا ہے۔ حروف مقطعات کو عرب شعراء کے کلام کا جواب کہہ کر نعوذ باللہ قرآن پاک کو ایک شعری مجموعہ کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک کا خود کہنا ہے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو شاعری نہیں سکھائی۔ دوسرے یہ خیال کہ حروف مقطعات کے کوئی معانی نہیں اور ہمیں ان پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے گویا قرآن پاک کے ایک حصے کو بے معنی سمجھنا ہے۔ براہ کرم آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ حروف مقطعات کیا ہیں؟
جواب: حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنی تصنیف ’’لوح و قلم‘‘میں بتایا ہے کہ حروف مقطعات دراصل نوری تحریر کی مختصر شکلیں ہیں۔ جب علم ربی کا کوئی عالم حروف مقطعات پر اپنا ذہن مرکوز کرتا ہے یا اس کو پڑھتا ہے تو پوری تفصیل اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ جس کی یہ مختصر شکل ہے مثلاً وہ الم پڑھتا ہے تو اس وقت کو درمیان میں لائے بغیر وہ تمام اسرار و رموز منکشف ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں بیان فرمائے ہیں۔ اور اس کو ڈھائی پارے میں پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
اگر اس بات کو موجودہ علمی ذہن کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حروف مقطعات میں سے ہر حرف ایک مائیکروفلم کی طرح ہے جس میں ہزار ہا تصاویر اور ذیلی تفصیلات جمع کر دی جاتی ہیں اور ٹائم اسپیس کی ایک بہت بڑی فصل کو سمیٹ کر ایک ننھے سے نقطے میں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔
اس طرح حروف مقطعات کے خول میں بھی اسرار و رموز کی ایک پوری فلم بند کر دی گئی ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے علم لدنی عطا کرتے ہیں وہ ان کے مفہوم کو جانتا ہے اور اس علم کو دیکھ اور پڑھ سکتا ہے۔
کائنات میں دو علوم رائج ہیں۔
- رشد و ہدایت اور برائی اور بھلائی کا علم اور اس پر عمل کر کے اپنے لئے منزل کا تعین کرنا۔
- تکوین۔ ان قاعدوں اور ضابطوں کا علم جنکے اوپر یہ دنیا اور دوسرے کہکشانی نظام چل رہے ہیں۔ انتظامی امور میں جو بندے کام کرتے ہیں۔ ان کے ذہن کی رفتار عام ذہن سے تقریباً ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے بندوں کو جب انتظامی امور میں قرآن پاک سے ہدایت لینا ہوتی ہے تو وہ حروف مقطعات سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 134 تا 135
روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔