ہمارا دل

مکمل کتاب : قوس و قزح

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8239

ہمارے ایک دوست کی بہن بیمار ہو گئیں۔ جب چھوٹے معالجین سے علاج ممکن نہیں ہوا تو بڑے ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ ہزاروں روپے ٹیسٹ رپورٹوں پر خرچ ہونے کے بعد عقدہ کھلا کہ گُردے سکڑ گئے ہیں اور اس کا علاج مشینوں کے ذریعے گردوں کو دھونا اور خون پورے جسم سے نکال کر دوبارہ شریانوں میں ڈالنا ہے۔میڈیکل ٹیکنالوجی میں اس کا نام Dialysis ہے۔ ہفتے میں دو بار گردوں کو صاف خون ترسیل کر نے کے لئے جتنا خرچ ہوتا ہے، وہ سالانہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپے بنتے ہیں۔ جب یہ علاج بھی کارگر نہ ہوا تو گردوں کا Transplantعمل میں آیا۔ بڑی بہن نے چھوٹی بہن کو ایک گردہ منتقل کر دیا۔ گردے کی تبدیلی کے بعد ہر روز لازماً جو دوا کھانی پڑتی ہے اس کی عام قیمت ساڑھے تین ہزار اور بلیک میں (اور جو اکثر بلیک میں ہی ملتی ہے) پانچ ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔ اتنی قیمتی دوا کا Reactionبھی ہوتا ہے۔ اس کے لئے علیحدہ سے دوائیاں تجویز کی جاتی ہیں۔ اتنا زیادہ خرچ کرنے کے بعد بھی مریض نارمل انسان کی طرح زندگی نہیں گزارتا۔ سر کے بال اُڑ جاتے ہیں، ہاتھ پیروں میں اکثر سوجن رہتی ہے۔
گردوں کا خاص کام یہ ہے کہ وہ جسم کا کثیف پانی خون کے اندر سے نکال دیتا ہے اگر یہ کثیف پانی صاف نہ ہو تو جسم میں زہر پھیل جاتا ہے۔ قدرت نے گردوں کو اتنی سمجھ دی ہے کہ وہ نہایت ہوشیاری سے اچھی اور بری چیز کو پہچان کر صرف نقصان پہنچانے والے بیکار مادوں کو خون میں سے باہر کھینچ لاتے ہیں۔ مفید اور قیمتی پروٹین کو خون کے اندر ہی رہنے دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر گردوں کی کارکردگی بیان کی جائے تو کہا جائے گا۔
’’گردے چھاننے اور نتھارنے (Filter) کا عمل کرتے ہیں اس لئے کہ خون کی صفائی تندرستی کے لئے لازمی ہے۔‘‘
جب تک گردے صحتمند رہتے ہیں یہ عمل انسان کے ارادے اور اختیار کے بغیر ہوتا رہتا ہے اور جب انسان کی غلطیوں بد پرہیزی کے ساتھ گردوں کا عمل متاثر ہوتا ہے تو ہمیں گردوں کی خدمات حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
یہی حال ہمارے ہر ہر عضو کا ہے۔
مثلاً دل ہمارے سارے بدن میں خون پہنچانے کے لئے ایک آلہ ہے جو ایک منٹ میں ستر بہتر بار سکڑتا پھیلتا ہے اور دل کی یہ خدمت عمر بھر جاری رہتی ہے۔
قدرت کی فیاضی دیکھئے!
ہمارا دل چھ سیر خون متواتر پمپ کرتا ہے۔ اگر آدمی پچاس سال زندہ رہے تو دل اس مدت میں تقریباً بارہ ہزار ٹن خون پمپ کر دیتا ہے۔
اگر دل خراب ہو جائے یا شاعروں کی زبان میں روٹھ جائے تو اسے منانے اور خدمت پر مستعد کرنے کے لئے پندرہ ہزار پونڈ یا سات لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں پھر بھی نارمل انسان کے دل کی طرح دل خدمت نہیں کرتا اس کے لئے بھی ہمیں تا حیات قیمتی ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے اور ہماری کارکردگی یقیناً متاثر ہوتی ہے۔
گردن سے رانوں کے اوپر تک ہمارا جسم ایک صندوق کی طرح ہے۔ اس صندوق کی دیواروں کے درمیان (پسلیوں کے نیچے) دو پھیپھڑے ہیں۔ پھیپھڑے دھوکنی کی طرح سکڑتے اور پھیلتے رہتے ہیں۔ سانس اندر جانے اور باہر نکلنے کا دارومدار پھیپھڑوں کے پھیلنے اور سکڑنے پر ہے۔ آدمی ایک منٹ میں سولہ یا سترہ بار سانس لیتا اور نکالتا ہے۔ سولہ مرتبہ سانس کے حساب سے پچاس سال کی عمر تک ہر ایک انسان نو کروڑ ستانوے لاکھ بیس ہزار مرتبہ سانس لیتا اور نکالتا ہے اور انسان سانس اسی وقت لے سکتا ہے جب خلا میں ہوا اور آکسیجن موجود ہوں۔ آکسیجن کا ایک سلنڈر جو چند روز چلتا ہے ساڑھے سات ہزار روپے کا ملتا ہے۔ اس پر مصنوعی سانس کے دباؤ کی تکلیف اضافی ہے جس کی ہم سِکوں(Currency) میں قیمت نہیں لگا سکتے۔
اسی طرح جسمانی سسٹم کو برقرار رکھنے کے لئے پوری مشینری کے کل پرزے ہیں۔ سِکوں پر جینے والا انسان سکِے بھی اسی وقت خرچ کرتا ہے جب اس کے ہاتھ پیر اور دماغ کام کرتا ہو۔
انسان بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس انمول مشین کو لئے پھرتا ہے ۔ جس کا حساب کتاب قیمت میں نہیں لگایا جا سکتا۔ عمر کا بڑا حصہ تندرستی میں گزار دیتا ہے مگر جسمانی مشین میں فٹ اعضاء رئیسہ شریفہ کا اسے خیال ہی نہیں آتا اور جب اعضاء پر اضمحلال طاری ہوتا ہے اور بدن کی ایک ایک چول ہل جاتی ہے تو زندگی کی جمع پونجی ڈاکٹروں، حکیموں کی نظر کر دیتا ہے۔ نادان یہ سمجھتا ہی نہیں کہ بیماری اور پریشانی ہی تو اسے رب کائنات کی عطا کی طرف متوجہ کرتی ہے اور شکر گزاری کے جذبات و احساسات سے باخبر ہوتی ہے۔
ہمیں اپنے دماغ کو بھی استعمال کرنا نہیں آتا۔ جو خیالات ہمیں خوشی بخشتے ہیں ہماراذہن انہیں قبول نہیں کرتا اور جو خیالات پریشانی اور بے سکونی کی تصویریں بناتے ہیں ہمارے نزدیک ان کی قدر و قیمت بہت ہے۔ ہم پریشان ہو کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم خوشی سے واقف ہی نہیں ہیں۔
مفکر کائنات عظیم المرتبت روحانی سائنسدان میرے مرشد کریم‘ حضور قلندر بابا اولیاءؒ اپنی رباعی میں فرماتے ہیں:
آدم کا کوئی نقش نہیں ہے بیکار
اس خاک کی تخلیق میں جلوے ہیں ہزار
دستہ جو ہے کوزے کو اٹھانے کے لئے
یہ ساعد سیمیں سے بناتا ہے کمہار
آدمی کی تخلیق میں اللہ پاک کی بیشمار صفات اور روشنیاں کام کر رہی ہیں۔ ہر روشنی آدم کے لئے آئینہ ہے۔ اندر باہر نگاہ کے سامنے آنے والا ہر نقش خالق کی صفات و کمالات کا آئینہ دار ہے۔ آدم جلوؤں اور رنگوں کے ساتھ خالق کائنات کا شاہکار ہے۔ روح جس نے خاکی جسم کو اٹھا رکھا ہے ساری عمر اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہے۔ روح نور ہے۔ نور جو لطافت میں خاک سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتا مگر خالقیت کی انوکھی شان ہے کہ لطیف نور نے کثیف مٹی کو اپنے دوش پر اٹھایا ہوا ہے اور نور انرجی میں منتقل ہو کر ہمارے اندر ہر ہر عضو کو فیڈ کر رہا ہے۔
اس فیڈنگ کی کوئی فیس نہیں ہے اور نہ کوئی بل آتا ہے۔ انسان اتنا ظالم اور بے انصاف ہے کہ مفت میسر آنے والی ہر چیز کی قیمت وصول کر رہا ہے۔
قلندر باباؒ فرماتے ہیں۔
’’اپنے اندر کا کھوج لگاؤ۔‘‘
دل شکر کے جذبات سے معمور ہو جائے گا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 22 تا 27

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)