کفار اور رفقائے محمدؐ

مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=329

سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کفّار مکہ کی کارستانیاں اپنے عروج پر تھیں باوجود اس کے کے اۤپؐ کے اعلیٰ کردار اور کریمانہ اخلاق کے مشرکین معترف تھے اور اۤپؐ کے معزز چچا ابو طالب کی حمایت اور حفاظت اۤپؐ کو حاصل تھی۔ دیگر مسلمانوں خصوصاً کمزور افراد کی ایذاء رسانی کی کاروائیوں کی تفصیل کچھ زیادہ ہی سنگین اور تلخ ہے۔

ابوجہل نے یہ وطیرہ اپنا رکھا تھا کہ جب کسی معزز اور طاقتور اۤدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا بھلا کہتا۔ ذلیل و رسوا کرتا اور مال و جاہ کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور اۤدمی مسلمان ہوتا تو اسے مارتا اور دوسروں کو بھی برانگیختہ کرتا۔

حضرت عثمان بن عفّانؓ جب مسلمان ہوئے تو ان کا چچا انہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے سے دھواں دیتا۔

حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی بڑے نازونعم میں پلے تھے۔ ان کے قبولِ اسلام کی خبر جب ان کے گھر والوں کو ملی تو گھر والوں نے ان کا دانہ پانی بند کردیا اور انہیں گھر سے نکال دیا۔ حالات کی شدت سے دوچار ہوئے تو کھال اس طرح ادھڑ گئی جیسے سانپ کینچلی چھوڑتا ہے۔

حضرت عمار بن یاسرؓ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو کفّار نے اس قدر ظلم کیا کہ وہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سخت دھوپ کے وقت انہیں پتھریلی زمین پر لٹا کر سینے پر سرخ پتھر رکھ دیتے تھے اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا۔ مشرکین ان سے مطالبہ کرتے کہ جب تک محمدؐ کو برا بھلا نہیں کہو گے یا لات و عزیٰ کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت عمارؓ ان کی بات ماننے پر مجبور ہوگئے اور روتے ہوئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو یہ اۤیت نازل ہوئی:

ترجمہ: ”جو کوئی منکر ہو اللہ سے یقین لائے پیچھے مگر وہ نہیں جس پر زبردستی کی اور اس کا دل برقرار رہے ایمان پر، لیکن جو کوئی دل کھول کر منکر ہوا سو ان پر غضب ہے اللہ کا اور ان کو بری مار ہے۔ ” (النحل۔۱۰۶ )

حضرت عمارؓنے اسی ظلم و ستم کے نتیجے میں شہادت پائی۔ ان کی والدہ حضرت سمیّہؓ اسلام کی پہلی شہید خاتون تھیں جن کو ابوجہل نے نیزہ مار کر شہید کردیا تھا۔

حضرت خباب بن ارتؓ امِ انمار کے غلام تھے۔ ان کی مالکہ قبیلہ خزاء سے تعلق رکھتی تھی۔ قبیلہ والوں نے حضرت خبابؓ کو سزا دینے کا یہ طریقہ استعمال کیا کہ دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا کر ان کے اوپر پتھر رکھ دیتے تھے۔ ان کے بال نوچے جاتے اور گردن تکلیف دہ حد تک مروڑتے تھے۔

حضرت فکیہہؓ جن کا نام افلح تھا، بنی عبدالدّار کے غلام تھے۔ ان کے پاؤں رسی سے باندھ دیئے جاتے اور زمین پر گھسیٹا جاتا۔

حضرت عمرؓ قبیلہ بنی عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ قبیلہ کے خانوادہ بنی مؤمل کی خادمہ مسلمان ہوگئیں تو حضرت عمرؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، انہیں اس قدر مارتے تھے کہ مارتے مارتے خود تھک جاتے اور کہتے تھے کہ میں نے تجھے تھک جانے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔

مشرکین بعض صحابہ کو اونٹ اور گائے کی کچی کھال میں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتے تھے۔ بعض صحابہ کو لوہے کی زرہ پہناکر جلتے ہوئے انگاروں یا پتھر پر لٹا دیتے تھے۔

پہلے غلام جو حضرت زیدؓ کے بعد حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے وہ حضرت بلال حبشیؓ تھے۔ جزیرۃ العرب میں تین چیزیں کسی انسان کے لئے مکمل تیرہ بختی کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ ایک اجنبی یا بیگانہ ہونا، دوسرے غلام ہونا اور تیسرے سیاہ فام ہونا اور حضرت بلالؓ میں یہ تینوں چیزیں موجود تھیں۔ جب ان کے مالک کو یہ اطلاع ملی کہ بلالؓ مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ انہیں مکہ سے باہر لے گیا اور ان کے کپڑے اترواکر انہیں دہکتے ہوئے سورج کے نیچے تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔ ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے اور سینہ پر بھاری پتھر رکھوادیا اور ان سے کہا کہ یا تو اسلام کو چھوڑ دے یا تپتی ہوئی ریت پر پڑا رہ یہاں تک کہ تیری جان نکل جائے۔ حضرت بلالؓ یہ جانتے تھے کہ ان کا مالک اپنے کئے پر عمل کرے گا اور ان کے ہاتھ پیر نہیں کھولے گا لیکن انہوں نے دینِ حنیف سے دستبردار ہونے کے بجائے موت سے ہم اۤغوش ہونا گوارا کرلیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ لیکن اسی دوران عبداللہ بن عثمان جو حضرت ابو بکرؓ کے نام سے مشہور تھے حضرت بلالؓ کو نجات دلانے کی غرض سے ان کے مالک کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے حضرت بلالؓ کو خریدنے کی تجویز پیش کردی۔ حضرت بلالؓ کے مالک نے جب یہ دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ اس کے غلام کو بہت مناسب قیمت پر خرید رہے ہیں تو اس نے انہیں بیچنے پر رضامندی ظاہر کردی اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خریدنے کے بعد اۤزاد کردیا۔

دو عورتیں جو حضرت عمرؓ کی خادمہ تھیں حلقۂ اسلام میں داخل ہوگئیں۔ ان میں سے ایک کا نام ”لبنیہ” اور دوسری کا نام ”زنیرہ” تھا۔ عمرؓ حضرت بلالؓ کے مالک کی طرح شقی القلب نہ تھے کہ ان کنیزوں کو بندھواکر تپتی ہوئی زمین پر پھینک دیں بلکہ انہوں نے ان دونوں کو کوڑوں کی سزا کا مستحق سمجھا اور ان سے کہا کہ میں اس وقت تک تم پر کوڑے برساتا رہوں گا جب تک دو باتوں میں سے ایک پوری نہ ہوگی۔ تم محمدؐ کے دین کو چھوڑ دو یا تمہاری جان نکل جائے۔ اگرچہ ان دونوں کنیزوں کا بدن لہو لہان ہوچکا تھا لیکن انہوں نے محمدؐ کے دین کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔ یہاں ایک بار پھر حضرت ابوبکرؓ ان کنیزوں کی مدد کو اۤگے بڑھے اور عمرؓ سے کہا کہ وہ ان کنیزوں کو ان کے ہاتھ فروخت کردیں۔ عمرؓ نے دونوں کنیزوں کو حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھوں فروخت کردیا اور انہوں نے دونوں کو اۤزاد کردیا۔

چوتھی عورت جو اسلام لائی وہ صحرا میں رہنے والی ایک خاتون تھی جس کا نام غزیہؓ تھا۔ غزیہؓ کنیز نہیں تھی۔ وہ مکہ اۤنے کے بعد مسلمان ہوگئی اور پھر کھلے عام لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگی۔ صحرا نشین عورتیں بھی بدوی مردوں کی طرح بہت بے باک اور نڈر ہوتی تھیں لہٰذا وہ خاتون بھی اہلِ قریش کے ڈرانے دھمکانے سے قطعاً خوف زدہ نہ ہوئی۔ قبیلۂ قریش کے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت غزیہؓ کسی طور بھی اسلام کی تبلیغ سے دستبردار نہیں ہوتیں تو انہیں اغوا کرکے مکہ سے باہر جانے والے ایک قافلے کے پاس لے گئے اور ایک اونٹ پر بٹھا کر مضبوطی سے رسیوں سے باندھ دیا اور قافلہ والوں کے سپرد کرتے ہوئے بولے کہ اس عورت کو پانی اور غذأ بالکل نہ دینا تاکہ یہ بھوک اور پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے اور جب تمہیں یہ یقین حاصل ہوجائے کہ یہ مر چکی ہے تو اس کی لاش کو اونٹ سے اتار کر صحرا میں پھینک دینا تاکہ صحرائی جانوروں کا لقمہ بن جائے اور اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ ایک روایت کے مطابق غزیہؓ کہتی ہیں کہ تین دن بھوک اور پیاس نے مجھے نڈھال کردیاتھا۔ لیکن چوتھے دن مجھے اپنے ہونٹوں پر ٹھنڈے پانی کی نمی محسوس ہوئی اور میں نے بے اختیار ہوکر پانی پینا شروع کردیا اور اتنا پیا کہ میری پیاس بجھ گئی۔ اگلے دن قافلہ والوں نے جو یہ تصوّر کر رہے تھے کہ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے ہلاک ہوچکی ہوں جب مجھے ہشاش بشاش دیکھا تو انہیں حیرت ہوئی اور جب میں نے انہیں گذشتہ رات کا واقعہ سنایا تو وہ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور انہوں نے میری رسّیاں کھول دیں اور مجھ سے بڑی عزّت و احترام کے ساتھ پیش اۤئے۔

ابوجہل کی ایک کنیز جس کا نام سمیّہؓ تھا مسلمان ہوگئی تو ابوجہل نے انہیں بلایا اور یہ حکم دیا کہ فوری طور پر نئے دین سے دستبردار ہوجاؤ۔ سمیّہؓ نے جواب میں کہا کہ میں محمدؐ کے دین کو نہیں چھوڑ سکتی ابوجہل نے طیش میں اۤکر اپنی ناتواں کنیز پر تازیانے برسانے شروع کر دیئے اور انہیں اتنا مارا کہ وہ نڈھال ہوکر زمین پر گر گئیں۔ حضرت ابوبکرؓ اس واقعہ سے مطلع ہوگئے وہ ابوجہل کے گھر پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ سمیّہؓ بے جان زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے ابوجہل سے کہا کہ میں اس کنیز کو خریدنا چاہتا ہوں ابوجہل بولا کہ میں اسے نہیں بیچنا چاہتا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے ابوجہل اگر تو سمیّہؓ کو فروخت کرنے پر رضامند ہوجائے تو میں تجھے ایک سو دینار ادا کرنے پر تیار ہوں۔ ابوجہل غرّایا کہ میں اسے نہیں بیچوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے قیمت بڑھادی اور بولے کہ میں تمہیں سمیّہؓ کے بدلے ڈیڑھ سو دینار دینے کو تیار ہوں۔ لیکن ابوجہل کی ضد برقرار رہی اور وہ بولا کہ میں سمیّہؓ کو فروخت نہیں کروں گا۔ حضرت ابوبکرؓ قیمت بڑھاتے رہے لیکن ہربار ابوجہل کا جواب وہی تھا کہ اپنی لونڈی کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جو اپنی ساری دولت اسلام کی راہ پر خرچ کرچکے تھے جب یہ دیکھا کہ ابوجہل کسی طور بھی سمیّہؓ کو فروخت کرنے پر تیار نہیں تو انہوں نے ایک نئی تجویز پیش کی اور ابوجہل سے کہا کہ اگر تو سمیّہؓ کو میرے ہاتھوں فروخت کرنے پر راضی ہوجائے تو میں تجھے ”ابلِ قاضیہ” دینے کو تیار ہوں۔ ”ابلِ قاضیہ” بادیہ نشین عربوں کی مخصوص اصطلاح کا نام تھا۔ اس کا اطلاق دراصل ان اونٹوں پر ہوتا تھا جو کسی کے قتل کے بدلے میں اس کے لواحقین کو دئیے جاتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ”ابلِ قاضیہ” اس خون بہا کا نام تھا جو مقتول کے ورثاء کو ادا کیا جاتا تھا اور اس عنوان سے منہ مانگی رقم طلب کی جاسکتی تھی۔ ابوجہل کے دل میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اتنی کدورت اور عداوت موجود تھی کہ وہ منہ مانگی قیمت پر بھی اپنی کنیز کو حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھوں فروخت کرنے پر رضا مند نہ ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس دن تک چھہ بردوں کو خرید کر اۤزاد کردیا تھا جن میں دو مرد اور چار عورتیں شامل تھیں۔ لیکن اس بار وہ سمیّہؓ کو رہائی دلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جب قریش کی عورتوں نے یہ سنا کہ سمیّہؓ ہر روز ابوجہل کے گھر میں تازیانے کھاتی ہے لیکن اسلام کو چھوڑنے پر تیار نہیں تو وہ ابوجہل کے پاس سفارش لے کر گئیں اور اس سے درخواست کی کہ وہ اس عورت کو تازیانے مارنا بند کردے جس نے قریش کی بے شمار عورتوں کی مدد کی ہے۔ لیکن ابوجہل نے ان کی درخواست کو بھی ٹھکرا دیا۔ ابوجہل نے سمیّہؓ پر اتنے کوڑے برسائے کہ ان کا سارا بدن خون ہوگیا اور ان میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی لیکن وہ اس کے باوجود یہی کہتی رہیں کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے روگردانی نہیں کرسکتی۔ جب ابوجہل اپنی کنیز کے ایمان کو بدلنے میں ناکام ہوگیا تو اسے قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک دن حضرت سمیّہؓ کو خانہ کعبہ کے سامنے لاکر کھڑا کردیا اور جب اہلِ مکہ وہاں جمع ہوگئے تو ابوجہل نے اتمام حجت کے طور پر حضرت سمیّہؓ سے پوچھا کے اۤیا تو اب بھی محمدؐ کے دین کو چھوڑنے پر تیار نہیں؟ حضرت سمیّہؓ نے جواب دیا ”میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین کو ہر گز نہیں چھوڑوں گی”۔ ابوجہل نے جھلا کر کہا پھر میں تجھے یہیں اور اس ہی وقت موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔ اس کے بعد ابوجہل نے اہلِ مکہ کی اۤنکھوں کے سامنے اپنا نیزہ اتنی قوت سے حضرت سمیّہؓ کے سینے میں گھونپ دیا کہ نیزے کا سرا اس ناتواں عورت کی پیٹھ سے باہر نکل اۤیا۔ حضرت سمیّہؓ اسلام کی راہ میں شہید ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔ روایت ہے کہ جب حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت سمیّہؓ کی رہائی کے سلسلے میں حضرت ابوبکرؓ کی جدوجہد سے اۤگاہ ہوئے تو انہوں نے ابوبکرؓ کے حق میں دعا کی کہ ”خدا تیرے چہرے کی درخشندگی کو برقرار رکھے”۔

سمیّہؓ کے قتل کے بعد قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے چار افراد نے جن میں ابوسفیان، ابولہب اور اسکی بیوی امِ جمیل بھی شامل تھی، یہ پابندی لگادی کہ مکہ کا رہنے والا کوئی شخص اۤج کے بعد اپنا کوئی غلام یا کنیز ابوبکرؓ کے ہاتھوں فروخت نہیں کرے گا۔ وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ اسلام کو غریب طبقہ اور خاص طور پر غلاموں میں تیزی سے مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور جو غلام بھی مسلمان ہوجاتا ہے ابوبکرؓ اسے خرید کر اۤزاد کر دیتے ہیں۔

کچھ صاحبِ حیثیت لوگ جن میں عثمان بن عفّانؓ جو عبد المطلب کے بھتیجے تھے، عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ حضرت اۤمنہؓ کے بھتیجے اور طلحٰہ بن عبید اللہؓ اور سعد بن عمروؓ شامل تھے جب مسلمان ہوگئے اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو قبیلۂ قریش میں دہشت اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ نو مسلمانوں کا شمار مکہ کے جانے پہچانے اور ممتاز لوگوں میں ہوتا تھا۔ لہٰذا قریش نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایذاء پہنچانے اور پریشان کرنے کے لئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئیے۔

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ جانے کے لئے جب بھی اپنے گھر سے باہر نکلتے تو اۤپ کی جان خطرے میں ہوتی تھی۔ اوباش لوگ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ میں کمین لگا کر بیٹھ جاتے اور جیسے ہی اۤپؐ خانہ کعبہ جانے کے لئے اپنے گھر سے باہر قدم نکالتے یا کہیں اور جانے کا ارادہ کرتے تو وہ لوگ ان پر پتھر برساتے اور ان کے لباس کو گندگی سے اۤلودہ کردیتے تھے۔ قبیلۂ قریش کے لوگ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دشمنی میں اتنے اۤگے نکل گئے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کا احترام بھی پسِ پشت ڈال دیا۔ دونوں مرتبہ جب حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر قاتلانہ حملہ ہوا وہ خانہ کعبہ میں ہوا اور پہلا مسلمان مرد جو اسلام کی راہ میں شہید ہوا وہ بھی خانہ کعبہ ہی میں قتل کیا گیا۔

ایک دن حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ سے اپنے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے تو قریش کے افراد نے اس شدت سے ان پر پتھراؤ کیا کہ جب وہ گھر پہنچے تو نڈھال ہوکر گر پڑے اور شدید زخمی ہوجانے کے باعث اگلے دن خانہ کعبہ نہ جاسکے۔ اس روز جب دوسرے مسلمان عبادت کی غرض سے خانہ کعبہ پہنچے تو انہیں پتا چلا کہ اۤج حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ نہیں اۤسکتے لہٰذا انہوں نے اپنے طور سے عبادت شروع کردی اور جب وہ سجدے میں گئے تو ان پر اچانک حملہ کردیا گیا۔ اس حملے کے نتیجے میں کئی مسلمان شدید زخمی ہوگئے اور حضرت حارثؓ جو حضرت خدیجہؓ کے فرزند اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ستیلے بیٹے تھے بیت اللہ میں شہید کردئیے گئے۔ اس واقعہ کے بعد قبیلۂ قریش کے افراد شب و روز خانہ کعبہ کی نگرانی کرنے لگے تاکہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے پیروکاروں کو خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے روک سکیں۔

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ دیکھا کہ اب وہ اپنے اصحاب کے ساتھ خانہ کعبہ میں عبادت نہیں کرسکتے تو انہوں نے مکہ سے باہر ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو اطراف کی زمینوں سے گہرائی میں تھی۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دن میں دو بار نماز قائم کرنے کے لئے حضورؐ وہاں جانے لگے۔

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرنے والوں میں سے ایک شخص ایسا تھا جو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے انتہا درجے کی دشمنی رکھتا تھا۔ وہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا رضاعی بھائی ابوسفیان تھا۔ ابوسفیان کا کہنا تھا کہ قریش کو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو خطرہ لاحق ہے وہ صرف اسی صورت میں ٹل سکتا ہے کہ انہیں جان سے ماردیا جائے۔

حضرت ابوذرغفّاریؓ جلیل القدر صحابی اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانثار ساتھی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ غفّار سے تھا۔ یہ قبیلہ مکہ کے شمال میں سکونت پزیر تھا۔ بادیہ نشین عربوں کی رسم کے مطابق سال میں چار مہینے کے لئے غارت گری اور ڈکیتی حرام ہوتی تھی اور ان مہینوں کو ماہِ حرام کہتے تھے۔ اسی طرح مکہ کی زیارت پر جانے والے افراد پر حملہ کرنے کی ممانعت بھی تھی لیکن قبیلہ غفّار مذکورہ رسومات اور قوانین کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ وہ ماہِ حرام میں کافلوں پر لوٹ مار کے غرض سے حملہ کرتے اور مکہ کی زیارت پر جانے والوں کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ذیقعد کے مہینے میں قبیلہ والوں نے اپنی حدود سے گزرنے والے ایک قافلے پر حملہ کرکے قافلہ کا مال اسباب لوٹ لیا اور قافلے میں شامل مرد، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا۔ حضرت ابوذرغفّاریؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہیں شدید ندامت اور پریشانی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنا قبیلہ چھوڑ دیا۔ کئی ماہ صحرا نوردی کرنے کے بعد مکہ پہنچ گئے۔ یہاں ابوذرغفّاریؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام سنا اور یہ جانا کہ وہ لوگوں کو یکتا خدا کی طرف بلاتے ہیں اور انہیں برے کاموں سے پرہیز کرنے اور شرک کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ابوذرغفّاریؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک راہگیر سے پوچھا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا گھر کہاں ہے۔ اس شخص نے تعجب خیز نگاہوں سے ابوذر غفّاریؓ کی طرف دیکھا اور پھر اونچی اۤواز سے چلانے لگا۔ ”اے لوگو! ادھر اۤؤ اسے پکڑو اور مار ڈالو کیونکہ یہ ایک مسلمان ہے جو اۤج ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے۔ ” پلک جھپکتےہی لوگوں نے ابوذرغفّاریؓ پر حملہ کردیا اور وہ بوکھلا کر اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑے ہوئے لیکن قریش نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور ان پر پتھروں کی بارش کردی۔ اتنے پتھر برسائے گئےکہ وہ نڈھال ہوکر زمین پر گر گئے اور مکہ والوں نے مردہ سمجھ کر انہیں وہیں چھوڑ دیا۔ کسی مسلمان کے سنگسار کئے جانے کی اطلاع حضرت ابوبکرؓ کو مل گئی تھی لہٰذا وہ رات کی تاریکی میں اۤئے اور ایک دوسرے مسلمان کی مدد سے ابوذرغفّاریؓ کو اٹھا کر لے گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ ابوذرغفّاریؓ مسلمان نہیں بلکہ وہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے دن ابوذر غفّاریؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کی۔ بعد میں ابوذر غفّاریؓ کا شمار اسلام کے نامور مسلمانوں میں ہونے لگا اور انہوں نے اپنے پورے قبیلے کو مسلمان کرلیا۔ ان کا قبیلہ جو صرف لوٹ مار کے ذریعے زندگی گزارتا تھا اپنے نفرت انگیز اعمال سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہوگیا۔ اس واقعہ سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مکہ کے باشندے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی میں اتنے بڑھ گئے تھے کہ اگر کوئی ان کے گھر کا پتہ پوچھتا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ پتہ پوچھنے والا یا تو کوئی مسلمان ہے یا پھر مسلمان ہونا چاہتا ہے لہٰذا اس پر سنگ باری شروع کردیتے تھے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 54 تا 68

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)