یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

کشف القبور

مکمل کتاب : مراقبہ

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12457

مرنے کے بعدآدمی کی مادّی دنیا، ملکوتی دنیا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ زندگی ایک نئے Dimensionمیں جاری رہتی ہے اور انا دوسری دنیا میں بھی زندگی کے شب و روز پورے کرتی ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی کو اعراف کی زندگی کہتے ہیں، اس زندگی کا دارومدار دنیا کے اعمال پر ہے۔ اگر انتقال کے وقت کوئی شخص سکون سے لبریز اور ذہنی پراگندگی اور کثافت سے آزاد ہے تو اعراف کی کیفیات میں بھی سکون اور اطمینان قلبی کا غلبہ ہو گا لیکن اگر کوئی شخص اس دنیا سے بے سکونی، ضمیر کی خلش اور ذہنی گھٹن لے کر اعراف میں منتقل ہوتا ہے تو وہاں بھی یہی کیفیات اس کا استقبال کرتی ہیں۔

کشف القبور کا مراقبہ اس شخص کی قبر پر کیا جاتا ہے جس سے اعراف میں ملاقات کرنا مقصود ہو۔ مراقبہ کشف القبور کے ذریعے مرحوم یا مرحومہ سے نہ صرف ملاقات ہو سکتی ہے۔ بلکہ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس حال میں ہے۔

جب کشف القبور کا مراقبہ کسی بزرگ یا ولی اللہ کے مزار پر کیا جاتا ہے تو اس سے مقصد بزرگ کی زیارت اور روحانی فیض کا حصول ہوتا ہے۔

مراقبہ کشف القبور کا طریقہ یہ ہے:

  • قبر کے پائنتی کی طرف بیٹھ جائیں۔
  • ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں اور جب سینہ بھر جائے تو روکے بغیر آہستگی سے باہر نکال دیں۔ یہ عمل گیارہ مرتبہ کریں۔
  • اس کے بعد آنکھیں بند کر کے تصور کو قبر کے اندر مرکوز کر دیں۔
  • کچھ دیر بعد ذہن کو قبر کے اندر گہرائی کی طرف لے جائیں گویا قبر ایک گہرائی ہے اور آپ کی توجہ اس میں اترتی جا رہی
    ہے۔ اس تصور کو مسلسل قائم رکھیں۔
  • باطنی نگاہ متحرک ہو جائے گی اور مرحوم شخص کی روح سامنے آ جائے گی۔ ذہنی سکت اور قوت کی مناسبت سے مسلسل مشق اور کوشش کے بعد کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

 

کشف القبور کی صلاحیت کو زیادہ تر اولیاء اللہ کے مزارات پر ان کی زیارت اور فیض کے حصول کے لئے استعمال کریں۔ جاوبے جا اس صلاحیت کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔

قبر شریف کے پیروں کی جانب مراقبہ کیا تو دیکھا کہ میرے اندر سے روح کا ایک پرت نکلا اور قبر کے اندر اتر گیا۔ دیکھا کہ لعل شہبازقلندرؒ تشریف فرما ہیں۔ قبر بڑے وسیع و عریض کمرے کی مانند ہے۔ قبر کے بائیں طرف دیوار میں ایک کھڑکی یا چھوٹا دروازہ ہے۔ قلندر لعل شہبازؒ نے فرمایا۔ ’’جاؤ!   یہ دروازہ کھول کر اندر کی سیر کرو تم بالکل آزاد ہو۔‘‘

دروازہ کھول کر دیکھا تو ایک باغ نظر آیا۔ اتنا خوبصورت اور دیدہ زیب باغ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی اس میں کیا کچھ نہیں ہے۔ سب ہی کچھ تو موجود ہے۔ ایسے پرندے دیکھے جن کے پروں سے روشنی نکل رہی ہے۔ ایسے پھول دیکھے جن کا تصور نوع انسان کے شعور سے ماوراء ہے۔ پھولوں میں ایک خاص اور عجیب بات نظر آئی کہ ایک ایک پھول میں کئی کئی سو رنگوں کا امتزاج اور یہ رنگ محض رنگ نہیں بلکہ ہر رنگ روشنی کا ایک قمقمہ بنا ہوا ۔ جب ہوا چلتی ہے تو یہ رنگ آمیز روشنیوں سے مرکب پھول ایسا سماں پیدا کرتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں روشنیوں کے رنگ برنگ قمقمے درختوں اور پودوں کے جھولوں پر جیسے جھول رہے ہوں۔ درختوں میں ایک خاص بات نظر آئی کہ ہر درخت کا تنا اور شاخیں، پتے، پھل اور پھول بالکل ایک دائرے میں تخلیق کئے گئے ہیں۔ جس طرح برسات میں سانپ کی چھتری زمین میں سے اگتی ہے۔ اسی طرح گول اور بالکل سیدھے تنے کے ساتھ یہاں کے درخت ہیں۔ ہوا جب درختوں اور پتوں سے ٹکراتی ہے تو ساز بجنے لگتے ہیں ان سازوں میں اتنا کیف ہوتا ہے کہ آدمی کا دل وجدان سے معمور ہو جاتا ہے۔ اس باغ میں انگور کی بیلیں بھی ہیں۔ انگوروں کا رنگ گہرا گلابی یا گہرا نیلا ہے۔ بڑے بڑے خوشوں میں ایک ایک انگور اس فانی دنیا کے بڑے سیب کے برابر ہے۔ اس باغ میں آبشار اور صاف شفاف دودھ جیسے پانی کے چشمے بھی ہیں۔

بڑے بڑے حوضوں میں سینکڑوں قسم کے کنول کے پھول گردن اٹھائے کسی کی آمد کے منتظر نظر آتے ہیں۔ باغ میں ایسا سماں ہے جیسے صبح صادق کے وقت ہوتا ہے یا بارش تھمنے کے بعد، سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے ہوتا ہے۔ اس باغ میں پرندے، طیور تو ہزاروں قسم کے ہیں مگر چوپائے کہیں نظر نہیں آئے۔

بہت خوبصورت درخت پر بیٹھے ہوئے ایک طوطے سے میں نے پوچھا کہ یہ باغ کہاں واقع ہے اس طوطے نے انسانوں کی بولی میں جواب دیا۔’’یہ جنت الخلد ہے۔ یہ اللہ کے دوست لعل شہباز قلندرؒ کا باغ ہے‘‘۔ اور حمد و ثنا کے ترانے گاتا ہوا اڑ گیا۔ المختصر میں نے جو کچھ دیکھا زبان الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ انگوروں کا ایک خوشہ توڑ کر واپس اسی جنت کی کھڑکی سے حضور لعل شہبازؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ حضور نے فرمایا۔’’ہمارا باغ دیکھا، پسند آیا تمہیں‘‘۔

میں نے عرض کیا۔ ’’حضور! ایسا باغ نہ تو کسی نے دیکھا اور نہ سنا ہے۔ میں تو اس کی تعریف کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا‘‘۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 287 تا 290

یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

مراقبہ کے مضامین :

انتساب 1 - انفس و آفاق 2 - ارتکاز توجہ 3 - روحانی دماغ 4 - خیالات کی لہریں 5 - تیسری آنکھ 6 - فلم اور اسکرین 7 - روح کی حرکت 8.1 - برقی نظام 8.2 - تین کرنٹ 9.1 - تین پرت 9.2 - نظر کا قانون 10 - كائنات کا قلب 11 - نظریہ توحید 12.1 - مراقبہ اور مذہب 12.2 - تفکر 12.3 - حضرت ابراہیم ؑ 12.4 - حضرت موسیٰ ؑ 12.5 - حضرت مریم ؑ 12.6 - حضرت عیسیٰ ؑ 12.7 - غار حرا 12.8 - توجہ الی اللہ 12.9 - نماز اور مراقبہ 12.10 - ذکر و فکر 12.11 - مذاہب عالم 13.1 - مراقبہ کے فوائد 13.2 - شیزو فرینیا 13.3 - مینیا 14.1 - مدارج 14.2 - غنود 14.3 - رنگین خواب 14.4 - بیماریوں سے متعلق خواب 14.5 - مشورے 14.6 - نشاندہی 14.7 - مستقبل سے متعلق خواب 15.1 - لطیف احساسات 15.2 - ادراک 15.3 - ورود 15.4 - الہام 15.5 - وحی کی حقیقت 15.6 - کشف 16 - سیر 17 - فتح 18.1 - مراقبہ کی اقسام 18.2 - وضاحت 18.3 - عملی پروگرام 18.4 - اندازِ نشست 18.5 - جگہ اور اوقات 18.6 - مادی امداد 18.7 - تصور 18.8 - گریز 18.9 - مراقبہ اور نیند 18.10 - توانائی کا ذخیرہ 19.1 - معاون مشقیں 19.2 - سانس 19.3 - استغراق 20.1 - چار مہینے 20.2 - قوتِ مدافعت 20.3 - دماغی کمزوری 21 - روحانی نظریہ علاج 22.1 - رنگ روشنی کا مراقبہ 22.2 - نیلی روشنی 22.3 - زرد روشنی 22.4 - نارنجی روشنی 22.5 - سبز روشنی 22.6 - سرخ روشنی 22.7 - جامنی روشنی 22.8 - گلابی روشنی 23 - مرتبہ احسان 24 - غیب کی دنیا 25.1 - مراقبہ موت 25.2 - اعراف 25.3 - عظیم الشان شہر 25.4 - کاروبار 25.5 - علمائے سوء 25.6 - لگائی بجھائی 25.7 - غیبت 25.8 - اونچی اونچی بلڈنگیں 25.9 - ملک الموت 25.10 - مراقبہ نور 26.1 - کشف القبور 26.2 - شاہ عبدالعزیز دہلویؒ 27 - روح کا لباس 28.1 - ہاتف غیبی 28.2 - تفہیم 28.3 - روحانی سیر 28.4 - مراقبہ قلب 28.5 - مراقبہ وحدت 28.6 - ’’لا‘‘ کا مراقبہ 28.7 - مراقبہ عدم 28.8 - فنا کا مراقبہ 28.9 - مراقبہ، اللہ کے نام 28.10 - اسم ذات 29 - تصورشیخ 30 - تصور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام 31 - ذات الٰہی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)