نورانی پیکر

مکمل کتاب : قوس و قزح

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8795

سمندر کی اونچی اونچی لہریں زور و شور سے جھاگ اڑاتی کنارے پر آئیں تو یوں لگا جیسے ریت کے ننھے ننھے ذرات میں تحلیل ہو گئیں اور ان چاندی ملے ذرات نے جب مدافعت کی تو وہ خود بھی لہروں کے ساتھ سمندر میں جا ملے۔ دم توڑتی لہریں واپس ہونے لگیں تو سمندر کی سطح پر حد نظر تک بل کھاتی ہوئی لکیریں بن گئیں۔ محسوس ہوا کہ سمندر کروٹ بدل رہا ہے جیسے جیسے سکون سمندر میں منتقل ہوتا رہا موجوں میں طغیانی آتی رہی اور سمندر طوفان بن کر ساحل کی طرف رواں دواں ہوتا رہا۔ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے اور کب تک چلتا رہے گا کسی کو معلوم نہیں!
نو منزلہ برطانوی جہاز کی آٹھویں منزل پر جب میں نے نظر دوڑائی تو جہاز کی تعمیر میں ہر جگہ لوہا نظر آیا۔ دیواریں لوہے کی، فرش لوہے کے، مستول لوہے کا، حفاظتی کشتیوں میں لوہا، دروازے لوہے کے، سیڑھیاں لوہے کی، لوہے سے بنی ہوئی اس عظیم الشان کاریگری کو دیکھ کر ورائے شعور میں خالق کائنات کی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’اور ہم نے لوہا نازل کیا اور اس میں انسانوں کے لئے بے شمار فائدے ہیں۔‘‘ (الحدید – 25)
یہ نو منزلہ لوہے کی عمارت سمندر میں تیر رہی تھی۔ پہلی دوسری اور تیسری منزل میں ٹرک اور کاریں تھیں۔ چوتھی پانچویں چھٹی منزلیں مسافروں کے لئے تھیں۔ ساتویں منزل پر ہوٹل، ڈیوٹی فری شاپ اور کیسینو وغیرہ تھے۔ دو اور چار مسافروں کے لئے دو ہزار کیبنیں تھیں۔ ہر کیبن ایک مکمل گھر تھا۔ کپڑے رکھنے کے لئے کافی بڑی الماری، سنگھار دان، کھانے کی میز، ٹھنڈے گرم پانی کا غسل خانہ، نہایت آرام دہ برتھ، برتھ کے سرہانے مطالعہ کے لئے روشنی کا انتظام، دھلے ہوئے تو لئے، پانی پینے کے لئے گلاس غرض اس کمرے میں ہر وہ چیز موجود تھی جس کی سفر میں ضرورت ہو سکتی ہے۔ آٹھویں منزل پرآڈیٹوریم، نویں منزل پر کانفرنس روم اور دھوپ سیکنے کے لئے عرشہ پر بڑے بڑے صحن جس میں نہایت سلیقے سے جہاز کے رنگ سے مناسبت رکھتی ہوئی سفید کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔
اللہ کی آواز آئی۔
’’اے میرے بندے دیکھ اس قوم نے ہماری آیت پر غور و فکر کیا۔‘‘
’’ہم نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کر دیا تا کہ تم اس میں کشتیاں چلاؤ۔‘‘ الجاثیہ – 13
اور ہم نے اس تفکر کو قبول کر کے ان کے اندر ایجادات کی صلاحیت کو بیدار کر دیا۔
میری آنکھوں سے نور کے موتی رخساروں سے گزرتے ہوئے جب لوہے کے فرش سے ٹکرائے تو میں نے دیکھا کہ اس نو منزلہ فائیو اسٹار ہوٹل کے من میں آگ بھڑک اٹھی۔ جہاز نے ایک آہ بھری اور یہ آگ دھواں بن کر چمنی کے راستے آسمان کی طرف بلند ہوئی اور فضا میں پھیل گئی۔ فضا میں نورانی فرشتوں کی ٹولی کو یہ کہتے سنا۔
اللہ نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا۔
’’ اور دھویں کو حکم دیا کہ داخل ہو جا مرضی سے یا مرضی کے بغیر دھوئیں (دخان) نے کہا میں تو آپ کا تابعدار ہوں۔‘‘
دھواں دھواں دل بھیگی بھیگی پلکوں، عرشہ پر کھڑا میں یہ سب دیکھتا رہا بھونچال میں جہاز ڈولنے لگا تو دماغ میں بھی بھونچال آ گیا۔ اندر کی آنکھ نے اندر ایک مورتی دیکھی۔ من میں میل نہ ہو تو دل آئینہ کی طرح ہو جاتا ہے۔ باہر اندر یہاں وہاں اوپر نیچے ہر سمت اللہ ہی تو ہے۔ دل نے اپنے اندر بہتر ہزار ٹائم اسپیس کی گہرائی کے وقفوں میں نورانی پیکر سے پوچھا۔
سمندر کی موجوں میں یہ بے قراری کیوں ہے؟
نورانی پیکر بولا۔
’’سمندر کی موجیں اپنے مرکز سے جدا ہو گئی ہیں۔ یہ بے قراری اس لئے ہے کہ وہ دوبارہ اپنے مرکز سے گلے ملنا چاہتی ہیں۔ سمندر سے موجیں ساحل کی طرف بڑھتی ہیں۔ ساحل پر جبیں سائی کرتی ہیں تو مرکز سے دور ہو جاتی ہیں۔ یوں سارا زور سارا طوفانی ولولہ ور انرجی ساحل پر منتشر ہو جاتی ہے۔ موجیں دوبارہ سمندر کے مرکز میں بانہوں میں بانہیں ملانے کے لئے واپس ہوتی ہیں۔ روح کی بے قراری کے ساتھ موج کی روح مرکز میں جذب ہونا چاہتی ہے۔ یہی حال کائنات کی اصل روح کا بھی ہے۔‘‘
ازل میں خالق سے جو دوری واقع ہوئی تھی۔ روح اس دوری کو ختم کرنے، اپنے محبوب سے دوبارہ ہم آغوش ہونے کے لئے سمندر کی موجوں کی طرح بے قراری کے عالم میں صعود سے نزول کر کے جب زمین کی چھاتی سے ٹکراتی ہے تو بکھر کر ٹوٹ کر نئے نئے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ روح چاہتی ہے کہ جیسے بھی ہو نئی تصویروں میں جلوہ گر ہو کر دوبارہ خالق کائنات کی گود میں سمٹ جائے۔ اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے وہ اصل جو ازل سے ابد تک ہے اور ہمیشہ رہے گی اور جس کو کبھی زوال نہیں۔ جس طرح زندگی بولتی ہے ، سنتی ہے، محسوس کرتی ہے۔
اس طرح روح بھی سنتی ہے، محسوس کرتی ہے اور بولتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 178 تا 181

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)