نماز مومن کی معراج ہے

مکمل کتاب : قوس و قزح

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8787

حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘
معراج دراصل غیبی دنیا کے انکشاف کا متبادل نام ہے۔ سیدنا حضورﷺ کی معراج کے حالات جب ہم پڑھتے ہیں تو ان تمام سوالات سے ہمیں غیب میں بسنے والی دنیا کا شعوری طور پر عرفان حاصل ہوتا ہے۔ حضورﷺ مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ وہاں موجود انبیاء نے حضورﷺ کی امامت میں نماز ادا کی پھر آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ پہلا آسمان ، دوسرا آسمان، تیسرا آسمان ، چوتھا آسمان ، پانچواں آسمان ، چھٹا آسمان ، ساتواں آسمان اور پھر عرش پر قیام فرمایا۔ آسمانوں میں مقیم حضرات سے ملاقات کی جنت و دوزخ کے حالات حضورﷺ کے سامنے آئے۔ فرشتوں سے گفتگو ہوئی اور پھر حضورﷺ کو معراج میں ایسا مقام عطا ہوا کہ جہاں اللہ تعالیٰ اور حضورﷺ کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم۔ اللہ تعالیٰ نے جو چاہا اپنے بندے سے راز و نیاز کی باتیں کیں۔ معراج کے اس لطیف اور پر انوار واقعہ سے یہ بات سند کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے کہ معراج کے معنی اور مفہوم غیب کی دنیا سے روشناسی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی امت کے لئے نماز کو معراج فرمایا ہے یعنی جب کوئی مومن نماز میں قیام کرتا ہے تو اس کے دماغ میں وہ دریچہ کھل جاتا ہے جس میں سے وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر وہاں کے حالات سے واقف ہو جاتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ حضورﷺ کی معراج ایک ایسا اعلیٰ مقام ہے جو صرف حضورﷺ کے لئے مخصوص ہے۔ البتہ مومن پر غیب کی دنیا منکشف ہو جاتی ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ کا عمل تھا کہ جب نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو ہم سے ایسے لا تعلق ہو جاتے تھے کہ جیسے کوئی شناسائی نہ ہو۔
حضورﷺ اپنی نماز میں اس قدر قیام فرماتے تھے کہ آپﷺ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے۔
کتب حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ صبح کی نماز کے لئے آپﷺ دیر سے تشریف لائے۔ نماز کے بعد لوگوں کو اشارہ کیا کہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں پھر فرمایا کہ آج شب جب میں نے اتنی رکعتیں ادا کیں جتنی میرے لئے مقدار تھیں تو میں غنودگی کے عالم میں چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ جمالِ الٰہی بے پردہ میرے سامنے ہے۔ خطاب ہوا ’’یا محمدﷺ! تم جانتے ہو فرشتگان خاص کس امر میں گفتگو کر رہے ہیں؟‘‘ عرض کیا۔ ’’ہاں، اے میرے رب! ان اعمال کی نسبت گفتگو کر رہے ہیں جو گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔‘‘ پوچھا۔’’وہ کیا ہیں؟ عرض کیا۔ ’’صلوٰۃ باجماعت کے لئے قدم اٹھانا اور اس کے بعد مسجد میں ٹھہر جانا اور ناگواری کے باوجود وضو کرنا جو ایسا کرے گا اس کی زندگی اور موت دونوں میں خیر ہے۔‘‘
نماز دراصل ایسا نظام ہے جو انسان کو اپنی روح سے قریب کر دیتا ہے اور جب کوئی بندہ اپنی روح کو جان لیتا ہے تو اس کے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ خود اللہ اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اب آپ اس بات کا اندازہ لگایئے کہ آپ کی ہستی اس وقت کیا ہوتی ہے اور آپ اللہ کے کتنے قریب ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس طرز عمل میں ہماری ہر تحریک اللہ کی تحریک پر مبنی ہوتی ہے۔
مگر جب مسلمانوں نے نماز کو نماز کی طرح ادا کرنا چھوڑ دیا اور اس مقدس کیمیا اثر عبادت کو ایک رسم بنا لیا تو قدرت نے اس پاداش میں ہم سے ہر قسم کی سرداری اور حاکمیت چھین لی۔ ہماری روح میں حرارت باقی نہ رہی سوز و گداز عجز و انکسار حلم و علم فہم و عقل اور فکر سلیم سے ہم تہی دامن ہو گئے۔ نماز میں ارتکاز توجہ روح کا عرفان دل کا گداز اور اللہ سے دوستی نہ ہو تو ایسی نماز اس جسم کی طرح ہے ، جس میں روح نہیں ہے۔ اگر ہم اپنی نمازیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر ادا کرتے ہیں تو پھر ہماری نمازیں نمازیں کیوں نہیں ہیں ہم ان برکات و انعامات سے کیوں بے بہرہ ہیں جن سے ہمارے اسلاف مالا مال تھے؟
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ بدترین چوری کرنے والا وہ شخص ہے جو نماز میں چوری کرے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ‘‘یا رسول اللہﷺ! نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟’’
فرمایا۔‘‘نماز میں اچھی طرح رکوع و سجدہ نہ کرنا نماز میں چوری ہے۔‘‘
21.2 وضو کی سائنس
سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نباتات و جمادات حیوانات اور انسانی زندگی ایک برقی نظام کے تحت رواں دواں ہے۔ انسانی جسم سے حاصل ہونے والی بجلی کی طاقت ایک ٹارچ یا جیبی ریڈیو چلانے کے لئے کافی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کسی درخت کے پتے پر مکھی بیٹھ کر اس کے ریشوں کو حرکت دیتی ہے تو اس پتے میں برقی رو دوڑنے لگتی ہے۔
تار پیڈو(Torpedo) مچھلی اپنی برقی قوت سے انسان کو چونکا سکتی ہے۔ اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے ریت میں چھپ جاتی ہے اور جب مچھلیاں پاس آتی ہیں تو اپنے اندر کام کرنے والی برقی رو سے انہیں بیہوش کر دیتی ہے۔
افریقہ کے مشہور سیاح کا بیان ہے کہ انہوں نے غصہ میں ایک نیگرو کو مارنا شروع کر دیا تو دیکھا کہ جہاں جہاں کوڑا اس کے جسم پر لگا تو وہاں وہاں سے بجلی کے شرارے نکلے۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کے جسم میں سوئی چبھونے اور گرم و سرد پانی میں بھگونے سے ایک ہلکی برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ معمولی آواز روشنی ذائقہ اور بو کے احساسات سے بھی انسانی جسم میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔
قدرت کا یہ عجیب سربستہ راز ہے کہ انسان کے اندر بجلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور پورے جسم میں سے دوڑ کر پیروں کے ذریعے ارتھ ہو جاتی ہے۔
نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہے اس کی وجہ یہ یہ کہ جب کوئی بندہ وضو کی نیت کرتا ہے تو روشنیوں کا بہاؤ ایک عام ڈگر سے ہٹ کر اپنی راہ تبدیل کر لیتا ہے۔ وضو کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے اعضاء میں سے برقیے نکلتے رہتے ہیں اور اس عمل سے اعضائے جسمانی کو ایک نئی طاقت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔
جب ہم وضو کرنے کے لئے ہاتھوں کو دھوتے ہیں تو انگلیوں کے پوروں میں سے نکلنے والی شعاعیں ایک ایسا حلقہ بنا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے اندر دور کرنے والا برقی نظام تیز ہو جاتا ہے اور برقی رو ایک حد تک ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے۔ اس عمل سے ہاتھ خوبصورت ہو جاتے ہیں۔ صحیح طریقہ پر وضو کرنے سے انگلیوں میں ایسی لچک پیدا ہو جاتی ہے جس سے آدمی کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو کاغذ یا کینوس پر منتقل کرنے کی خفتہ صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
ہاتھ دھونے کے بعد ہم کلی کرتے ہیں۔ کلی کرنے سے جہاں منہ کی صفائی ہوتی ہے وہاں دانتوں کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔ جبڑے مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں میں چمک دمک پیدا ہو جاتی ہے۔ قوت ذائقہ بڑھ جاتی ہے اور آدمی ٹانسلز کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔
وضو کرتے وقت حضورﷺ نے مسواک کی تاکید فرمائی ہے۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ:
’’مسواک منہ کو صاف اور بینائی کو تیز کرتی ہے۔ مسواک آدمی کے اندر فصاحت پیدا کرتی ہے۔‘‘
کلی کرنے کے بعد ناک میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ ناک انسانی جسم میں ایک نہایت اہم اور قابل توجہ عضو ہے۔ ناک کی زبردست صلاحیت یہ ہ یکہ آواز میں گہرائی اور سہانا پن پیدا کرتی ہے۔ناک کے اندر پردے آواز کی خوبصورتی میں ایک مخصوص کردار ادا کرتے ہیں۔ کاسہ سر کو روشنی فراہم کرتے ہیں۔ ناک کے خاص فرائض میں صفائی کے کام کو بڑا دخل ہے۔ یہ پھیپھڑوں کے لئے ہوا کو صاف مرطوب گرم اور موزوں بناتی ہے۔ ہر آدمی کے اندر روزانہ تقریباً پانچ سو مکعب فٹ ہوا ناک کے ذریعے داخل ہوتی ہے۔ ہوا کی اتنی بڑی مقدار سے ایک بڑا کمرہ بھرا جا سکتا ہے۔ برف باری کے موسم میں منجمد اور خشک دن آپ برف پوش میدان میں اسکیٹنگ (Skating) شروع کردیں لیکن آپ کے پھیپھڑے خشک ہوا سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اس کی ایک رمق قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ انہیں اس وقت بھی ایسی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو گرم اور مرطوب فضا میں ملتی ہے یعنی وہ ہوا جس میں اسی فیصد رطوبت ہو اور جس کا درجہ حرارت نوے درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو۔
پھیپھڑے جراثیم سے پاک، دھوئیں یا گرد و غبار اور آلودگیوں سے مصفا ہوا طلب کرتے ہیں۔ ایسی ہوا فراہم کرنے والا معمولی ائیر کنڈیشنر(Air Conditioner) ایک چھوٹے ٹرنک کے برابر ہوتا ہے لیکن ناک کے اندر نظام قدرت نے اس کو اتنا مختصر اور مجتمع (Integrated) کر دیا ہے کہ وہ صرف چند انچ لمبا ہے۔
ناک ہوا کو مرطوب بنانے کے لئے تقریباً چوتھائی گیلن نمی روزانہ پیدا کرتی ہے۔ صفائی اور دوسرے سخت کام نتھوں کے بال سر انجام دیتے ہیں۔ ناک کے اندر ایک خوردبینی جھاڑو ہے اس جھاڑو کے اندر غیر مرئی روئیں ہوتے ہیں جو ہوا کے ذریعے معدہ کے اندر پہنچنے والے مضر جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ جراثیم کو اپنے مشینی انداز میں پکڑنے کے علاوہ ان غیر مرئی روؤں کے پاس ایک اور دفاعی ذریعہ ہے جسے انگریزی میں Lysozlumکہتے ہیں۔ اس دفاعی ذریعہ سے ناک آنکھوں کو Infectionسے بچاتی ہے۔
جب کوئی نمازی وضو کرتے وقت ناک کے اندر پانی ڈالتا ہے تو پانی کے اندر کام کرنے والی برقی رو ان غیر مرئی روؤں کی کارکردگی کو تقویت پہنچاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ بے شمار پیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
چہرہ دھونے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے عضلات میں لچک اور چہرہ کی جلد میں نرمی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے۔ گرد و غبار سے بند مسامات کھل جاتے ہیں چہرہ با رونق پر کشش اور بارعب ہو جاتا ہے۔ دوران خون کم یا زیادہ ہو تو اس کے اندر اعتدال پیدا ہو جاتا ہے۔ منہ دھوتے وقت جب پانی آنکھوں میں جاتا ہے تو اس سے آنکھوں کے عضلات کو تقویت پہنچتی ہے ڈھیلے میں سفیدی اور پتلی میں چمک غالب آ جاتی ہے۔ وضو کرنے والے بندے کی آنکھیں پرکشش خوبصورت اور پرخمار ہو جاتی ہیں۔ چہرہ پر تین بار ہاتھ پھیرنے سے دماغ پر سکون ہو جاتا ہے۔
کہنیوں تک ہاتھ دھونے میں یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ اس عمل سے آدمی کا تعلق براہ راست سینے کے اندر ذخیرہ شدہ روشنیوں سے قائم ہو جاتا ہے اور روشنیوں کا ہجوم ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس عمل سے ہاتھوں کے عضلات مضبوط اور طاقت ور ہو جاتے ہیں۔
کاسہ سر کے اوپر بال آدمی کے اندر انٹینا (Antenna)کا کام کرتے ہیں۔ یہ بات ہر با شعور شخص جانتا ہے کہ آدمی اطلاعات کے ذخیرے کا نام ہے۔ جب تک اسے کسی عمل کے بارے میں اطلاع نہ ملے وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ مثلاً کھانا ہم اس وقت کھاتے ہیں جب ہمیں بھوک لگتی ہے‘ پانی اس وقت پیتے ہیں جب ہمارے اندر پیاس کا تقاضاہوتا ہے‘ سونے کے لئے بستر پر اس وقت لیٹتے ہیں جب ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ اب ہمارے اعصاب کو آرام کی ضرورت ہے۔ خوشی کے جذبات و احساسات ہمارے اوپر اس وقت مظہر بنتے ہیں جب ہمیں خوشی سے متعلق کوئی اطلاع فراہم کی جاتی ہے۔ اسی طرح غیظ و غضب کی حالت کا انحصار بھی اطلاع پر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ‘‘میں تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہوں’’یہ رگ جان (حبل الورید) سر اور گردن کے درمیان میں واقع ہے۔ جس کا تعلق ریڑھ کے اندر حرام مغز اور تمام جسمانی جوڑوں سے ہے۔ جب کوئی نمازی گردن کا مسح کرتا ہے تو ہاتھوں کے ذریعے برقی رو نکل کر ریڑھ کی ہڈی کو اپنی گزرگاہ بناتے ہوئے جسم کے پورے اعصابی نظام میں پھیل جاتی ہے جس کے ذریعے اعصابی نظام کو توانائی ملتی ہے۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ دماغ اطلاعات قبول کرتا ہے اور یہ اطلاعات لہروں کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں اطلاع کی ہر لہر ایک وجود رکھتی ہے۔ وجود کا مطلب متحرک رہنا ہے۔ قانون یہ ہے کہ روشنی ہو یا پانی اس کے لئے بہاؤ ضروری ہے اور بہاؤ کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی مظہر بنے اور وہ خرچ ہو۔ جب کوئی بندہ پیر دھوتا ہے تو زائد روشنیوں کا ہجوم (Poison) پیروں کے ذریعے ارتھ(Earth) ہو جاتا ہے اور جسم انسانی زہریلے مادوں سے محفوظ رہتا ہے۔
نیت باندھنا
دماغ میں کھربوں خلیے کام کرتے ہیں اور خلیوں میں برقی رو دوڑتی رہتی ہے۔ اس برقی رو کے ذریعے خیالات شعور اور تحت الشعور سے گزرتے ہیں‘ اس سے بہت زیادہ لاشعور میں۔ دماغ میں کھربوں خلیوں کی طرح کھربوں خانے بھی ہوتے ہیں۔ دماغ کا ایک خانہ وہ ہے جس میں برقی رو فوٹو لیتی رہتی ہے اور تقسیم کرتی رہتی ہے۔ یہ فوٹو بہت ہی زیادہ تاریک ہوتا ہے یا بہت زیادہ چمکدار۔ ایک دوسرا خانہ ہے جس میں کچھ اہم باتیں ہوتی ہیں ان اہم باتوں میں وہ باتیں بھی ہوتی ہیں جن کو شعور نے نظر انداز کر دیا ہے اور جن کو ہم روحانی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں۔ نمازی جب ہاتھ اٹھا کر سر کے دونوں طرف کانوں کی جڑمیں انگوٹھے رکھ کر نیت باندھتا ہے تو ایک مخصوص برقی رو نہایت باریک رگ کو اپنا کنڈنسر بنا کر دماغ میں لے جاتی ہے اور دماغ کے اندر اس خانے کے خلیوں(Cells) کو چارج کر دیتی ہے جس کو شعور نے نظر انداز کر دیا تھا۔ یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں روشنی کا ایک جھماکا ہوتا ہے اور اس جھماکے سے تمام اعصاب متاثر ہو کر اس خانے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جس میں روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہاتھ کے اندر ایک تیز برقی رو دماغ میں سے منتقل ہو جاتی ہے جب کانوں سے ہاتھ ہٹا کر ناف کے اوپر اللہ اکبر کہہ کر باندھے جاتے ہیں تو ہاتھوں کے کنڈنسر سے ناف(ذیلی جنریٹر) میں بجلی کا ذخیرہ ہو جاتا ہے۔
خواتین نیت کے بعد جب سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں تو دل کے اندر صحت بخش حرارت منتقل ہوتی ہے اور وہ غدود نشوونما پاتے ہیں جن کے اوپر بچوں کی غذا کا انحصار ہے۔ نماز قائم کرنے والی ماؤں کے دودھ میں یہ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے کہ بچوں کے اندر براہ راست انوار کا ذخیرہ ہوتا رہتا ہے جس سے ان کے اندر ایسا پیٹرن(Pattern) بن جاتا ہے جو بچوں کے شعور کو خوش رہنے کی عادت ڈالتی ہے۔ نمازی ماؤں کے بچوں کے اندر گہرائی میں تفکر کرنے اور لطیف سے لطیف تر معانی پہنانے اور سمجھ بوجھ کی صلاحیتیں روشن ہو جاتی ہیں۔
نمازی جب رکوع میں جھکتا ہے تو حسیں(Senses) بنانے کا فارمولا الٹ جاتا ہے یعنی حواس براہ راست دماغ کے اندر رخ کے تابع ہو جاتے ہیں اور دماغ یک سو ہر کر ایک نقطہ پر اپنی لہریں منعکس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ رکوع کے بعد جب نمازی قیام کرتا ہے تو دماغ کے اندر کی روشنیاں دوبارہ پورے اعصاب میں تقسیم ہو جاتی ہیں جس سے انسان سراپا نور بن جاتا ہے۔
رکوع میں اس قدر جھکیں کہ سر اور ریڑھ کی ہڈی متوازی رہے، نگاہیں پیر کے انگوٹھوں کے ناخن پر مرکوز رہیں، ہاتھ دونوں گھٹنوں پر اس طرح رکھیں کہ ٹانگوں میں تناؤ رہے۔ سبحان ربی العظیم تین بار‘ پانچ بار یا سات بار کہہ کر اس طرح کھڑے ہوں جیسے کوئی فوجی اٹینشن(Attention) ہوتا ہے۔
رکوع میں نمازی ہاتھ کی انگلیوں سے جب گھٹنوں کو پکڑتا ہے تو ہتھیلیوں اور انگلیوں کے اندر کام کرنے والی بجلی گھنٹوں میں جذب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے گھٹنوں کے اندر صحت مند لعاب برقرار رہتا ہے اور ایسے لوگ گھٹنوں اور جوڑوں کے درد سے محفوظ رہتے ہیں۔
روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی(186282) میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور زمین کے گرد ایک سیکنڈ میں آٹھ دفعہ گھوم جاتی ہے۔ جب نمازی سجدہ کی حالت میں زمین پر سر رکھتا ہے تو اس کے دماغ کے اندر کی روشنیوں کا تعلق زمین سے مل جاتا ہے اور ذہن کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ ہو جاتی ہے۔ دوسری صورت یہ واقع ہوتی ہے کہ دماغ کے اندر زائد خیالات پیدا کرنے والی بجلی براہ راست زمین میں جذب(earth) ہو جاتی ہے اور بندہ لاشعوری طور پر کشش ثقل (Gravity) سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس کا براہ راست تعلق خالق کائنات سے ہو جاتا ہے۔ روحانی قوتیں اس حد تک بحال ہو جاتی ہیں کہ آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ کر اس کے سامنے غیب کی دنیاآجاتی ہے۔
جب نمازی فضا اور ہوا کے اندر سے روشنیاں لیتا ہوا سر ناک گھٹنوں ہاتھوں اور پیروں کی بیس انگلیاں قبلہ رخ زمین سے ملا دیتا ہے یعنی سجدے میں چلا جاتا ہے تو جسم اعلیٰ کا خون دماغ میں آ جاتا ہے اور دماغ کو تغذیہ فراہم کرتا ہے۔ کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہو کر انتقال خیال (Telepathy) کی صلاحیتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔
دعا
نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم میں سے جس شخص کو دعا مانگنے کی توفیق مل گئی تو یوں سمجھو گویا اس کے اوپر رحمت کے دروازے کھل گئے۔‘‘
’’دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کے فیصلے میں ترمیم نہیں کراسکتی اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر کو نہیں بڑھاتی۔‘‘
’’دعا عبادت کا مغز ہے‘ مومن کا ہتھیار ہے‘ دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے۔‘‘
نماز کے بعد دعا کرتے وقت اس بات کا مراقبہ(تصور قائم) کریں کہ میں عرش کے نیچے اپنے خالق کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں جو اتنا بڑا اور عظیم ہے کہ اگر اس سے روزانہ ایک لاکھ خواہشیں بھی کی جائیں تو وہ انہیں پوری کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ دعاؤں کو بار بار دہرانے سے دل میں گداز پیدا ہوتا ہے‘ ایسا گداز جو آنکھوں کے راستے بہہ نکلتا ہے اور اللہ رب العزت کو اپنے بندوں کے آنسو بہت عزیز ہیں۔

نماز میں اوقات کی حکمت
فجر کی نماز:
پس اللہ کی تسبیح بیان کرو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے اور رات ہونے پر اور دن کے کناروں پر۔(سورۃ ہود – ، 130، سورۃ الروم – 18-17)
فجر کی نماز ادا کرنے والا بندہ دوسری تمام مخلوق کے ساتھ جب عبادت اور تسبیح میں مشغول ہوتا ہے تو دنیا کا پورا ماحول مصفی، مجلی اور پر انوار ہو جاتا ہے اور ماحول کی اس پاکیزگی سے انسان کو روحانی اور جسمانی صحت نصیب ہوتی ہے۔

ظہر کی نماز:
صبح سے دوپہر تک آدمی اپنی معاش کے حصول یا زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خورد و نوش کے انتظام میں لگا رہتا ہے۔ اعصاب تھک جاتے ہیں اور جسم نڈھال ہو جاتا ہے۔ جسمانی تقاضوں کے لئے کام پورا کرنے کے بعد جب آدمی وضو کرتا ہے تو اس کے اوپر سے تھکن دور ہو جاتی ہے اور پھر جب وہ نماز قائم کرتا ہے تو اس کو روحانی غذا فراہم ہوتی ہے اور اس کے اوپر سرور و کیف کی ایک دنیا روشن ہو جاتی ہے۔
سورج کی تمازت ختم ہو کر جب زوال شروع ہوتا ہے تو زمین کے اندر سے ایک گیس خارج ہوتی ہے۔ یہ گیس اس قدر زہریلی ہوتی ہے کہ اگر آدمی کے اوپر اثر انداز ہو جائے تو وہ قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دماغی نظام اس حد تک درہم برہم ہو سکتا ہے کہ اس کے اوپر ایک پاگل آدمی کا گمان ہوتا ہے۔ جب کوئی بندہ ذہنی طور پر عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس نماز کی نورانی لہریں اس زہرناک گیس سے محفوظ رکھتی ہیں ان نورانی لہروں سے یہ زہریلی گیس بے اثر ہو جاتی ہے۔

عصر کی نماز:
زمین دو طرح چل رہی ہے ایک گردش ہے محوری اور دوسری طولانی۔ زوال کے بعد زمین کی گردش میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ گردش کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عصر کے وقت تک یہ گردش اتنی کم ہو جاتی ہے کہ حواس کے اوپر دباؤ پڑنے لگتا ہے۔ انسان، حیوان، چرند و پرند سب کے اوپر دن کے حواس کے بجائے رات کے حواس کا دروازہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے اور شعور مغلوب ہونے لگتا ہے۔
ہر ذی فہم انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ عصر کے وقت اس کے اوپر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جس کو وہ تکاگن اور اضمحلال کا نام دیتا ہے۔ یہ تکاان اور اضمحلال شعوری حواس پر لاشعوری حواس کی گرفت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عصر کی نماز شعور کو اس حد تک مضمحل ہونے سے روک دیتی ہے جس سے دماغ پر خراب اثرات مرتب ہوں۔ وضو اور عصر کی نماز قائم کرنے والے بندے کے شعور میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ لاشعوری نظام کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور اپنی روح سے قریب ہو جاتا ہے۔ دماغ روحانی تحریکات قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

مغرب کی نماز:
آدمی بالفعل اس بات کا شکر ادا کرتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے رزق عطا فرمایا۔ ایسا گھر اور بہترین رفیقہ حیات عطا کی جس نے اس کی اور اس کے بچوں کی غذائی ضروریات پوری کیں۔ شکر کے جذبات سے وہ مسرور اور خوش و خرم اور پرکیف ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر خالق کائنات کی وہ صفات متحرک ہو جاتی ہیں جن کے ذریعے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ پرسکون ذہن سے محو گفتگو ہوتا ہے تو اس کے اندر کی روشنیاں بچوں میں براہ راست منتقل ہوتی ہیں اور ان روشنیوں سے اولاد کے دل میں ماں باپ کا احترام اور وقار قائم ہو جاتا ہے۔ بچے غیر ارادی طور پر ماں باپ کی عادتوں کو تیزی کے ساتھ اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور ان کے اندر ماں باپ کی حمیت و عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب کی نماز صحیح طور پر اور پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے بندے کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے اور ماں باپ کی خدمت کرتی ہے۔

عشاء کی نماز:
عشاء کی نماز غیب سے متعارف ہونے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کا ایک خصوصی پروگرام ہے کیونکہ عشاء کے وقت آدمی رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی تعلیم و تربیت کے اسباق اور اوراد و وظائف عشاء کی نماز کے بعد پورے کئے جاتے ہیں اس لئے کہ جب آدمی رات کے حواس میں ہوتا ہے تو وہ لاشعوری اور روحانی طور پر غیب کی دنیا سے قریب اور بہت قریب ہو جاتا ہے اور اس کی دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں۔ عشاء کی نمازاس نعمت کا شکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بیداری کے حواس سے نجات عطا فرما کر وہ زندگی عطا فرما دی ہے جو نافرمانی کے ارتکاب سے پہلے جنت میں حضرت آدمؑ کو حاصل تھی یہی وہ حواس ہیں جن میں آدمی خواب دیکھتا ہے اور خواب کے ذریعے اس کے اوپر مسائل، مشکلات اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا انکشاف ہوتا ہے۔ خواب کی تعبیر سے وہ مستقبل میں پیش آنے والی مصیبتوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سونے والے بندے کی پوری رات لا شعوری طور پر عبادت میں گزرتی ہے اور اس کے اوپر اللہ کی رحمت نازل ہوتی رہتی ہے ایسے بندے کے خواب سچے اور بشارت پر مبنی ہوتے ہیں۔

تہجد کی نماز:
کچھ وقفہ نیند لینے کے بعد آدمی بیدار ہو جائے تو اس کا شعور اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ غیبی تحریکات کو آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ فجر کی نماز اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی پہلی سیڑھی ہے اور تہجد کی نماز خالق کائنات سے قریب ہونے کی آخری سیڑھی ہے۔ یہی صورت الصلوٰۃ معراج المومنین ہے۔ تہجد کی نفلیں ادا کرنے والا بندہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ فرشتوں اور جنات کی دنیا میں اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ تہجد کی نماز ایک پروگرام ہے اس بات کے لئے کہ انسان اپنے خالق کو جان لے پہچان لے اور اس کے قریب ہو جائے۔

نماز جمعہ:
جمعہ کی نماز ایک اجتماعی پروگرام ہے تا کہ مسلمان اجتماعی طور پر آپس میں بھائی چارہ قائم کر کے ایک دوسرے کے کام آ سکیں اور اجتماعی مسائل سے واقفیت حاصل کر کے ان کے تدارک کی کوشش کریں۔ بڑوں کو دیکھ کر بچوں کے اوپر یہ تاثر قائم ہو کہ ہر مسلمان اگرچہ شکل و صورت کے اعتبار سے الگ الگ نظر آتا ہے لیکن فی الواقع سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں اور اسلام ایک مضبوط رسی ہے۔ جس کو متحد اور باہم مل کر ہم سب پکڑے ہوئے ہیں۔ ہم کندھے سے کندھا ملا کر ایک ہی صف میں اس لئے کھڑے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
نماز میں خیالات اور وسوسوں سے محفوظ رہنے کے لئے وضو کرنے کے بعد آرام دہ نشست سے قبلہ رخ بیٹھ کر تین دفعہ درود شریف‘ تین بار استغفار پڑھیں اور ایک منٹ سے پانچ منٹ تک جتنا وقت ہو آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ:
’’اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس کے بعد نیت کر کے نماز قائم کریں۔

نماز اور جسمانی صحت
ورزشیں نہ صرف اندرونی اعضاء مثلاً دل گردے جگر پھیپھڑے دماغ آنتوں معدہ ریڑھ کی ہڈی گردن سینہ اور تمام اقسام کے غدود () کی نشوونما کرتی ہیں بلکہ جسم کو بھی سڈول اور خوبصورت بناتی ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ ورزشیں ایسی بھی ہیں جن سے عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی ورزشیں بھی ہیں جن کے ذریعے آدمی غیر معمولی طاقت کا مالک بن جاتا ہے اور ایسی بھی ہیں جن سے چہرے کے نقش و نگار خوبصورت اور حسین نظر آنے لگتے ہیں۔ بڑی عمر کا آدمی ہر ورزش نہیں کر سکتا لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جس پر ہر بندہ آسانی کے ساتھ عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ آدمی کی وریدیں (Veins) شریانیں(Arteries) اور عضلات کی طاقت کم ہو جاتی ہے اور ان کے اندر ایسے مادے پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے بیشمار امراض لاحق ہونے لگتے ہیں مثلاً گھٹیا عرق النساء امراض قلب ہائی بلڈ پریشر اور بیشمار دوسرے دماغی امراض۔ ان بیشمار بیماریوں سے نجات پانے کے لئے نماز ہمارے لئے قدرت کا ایک بہترین علاج ہے۔
ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے نماز ادا کرنے کے طریقے میں وہ سب سمو دیا ہے جس کی امت مسلمہ اور نوع انسانی کو ضرورت ہے۔ خواہ وہ ذہنی یکسوئی ہو آلام و مصائب سے نجات پانا ہو غیب کی دنیا میں سفر ہو اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنا ہو یا جسمانی صحت ہو نماز مجموعہ اوصاف و کمال ہے۔ آیئے تلاش کریں کہ نماز اور ہماری صحت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

ہائی بلڈ پریشر کا علاج:
صلوٰۃ قائم کرنے کے لئے ہم سب سے پہلے وضو کا اہتمام کرتے ہیں۔ وضو کے دوران جب ہم اپنا چہرہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھوتے ہیں‘ پیروں اور سرکا مسح کرتے ہیں تو ہمارے اندر دوڑنے والے خون کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ جس سے ہمیں سکون ملتا ہے اس تسکین سے ہمارا سارا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ پرسکون اعصاب سے دماغ کو سکون ملتا ہے‘ اعضائے رئیسہ سر پھیپھڑے دل اور جگر وغیرہ کی کارکردگی بحال ہوتی ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کم ہو کر نارمل ہو جاتا ہے۔ چہرے پر رونق اور ہاتھوں میں رعنائی اور خوبصورتی آ جاتی ہے۔ وضو کرنے سے اعصاب کا ڈھیلا پن ختم ہو جاتا ہے۔ آنکھیں پر کشش ہو جاتی ہیں۔ سستی اور کاہلی دور ہو جاتی ہے۔ آپ کبھی بھی تجربہ کر سکتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر کے مریض کو وضو کرائیں بلڈ پریشر کم ہو جائے گا۔
گھٹیا کا علاج:
جب ہم وضو کرنے کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو پہلے ہمارا جسم ڈھیلا ہوتا ہے لیکن جب نماز کی نیت کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو قدرتی طور پر جسم میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں آدمی کے اوپر سے سفلی جذبات کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ سیدھے کھڑے ہونے میں ام الدماغ سے روشنیاں چل کر ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی پورے اعصاب میں پھیل جاتی ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جسمانی صحت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے اور عمدہ صحت کا دارومدار ریڑھ کی ہڈی کی لچک پر ہے۔
نماز میں قیام کرنا گھٹنوں ٹخنوں اور پیروں سے اوپر پنڈلیوں پنجوں اور ہاتھ کے جوڑوں کو قوی کرتا ہے۔ گھٹیا کے درد کو ختم کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جسم سیدھا رہے اور ٹانگوں میں خم واقع نہ ہو۔

جگر کے امراض:
جھک کر رکوع میں دونوں ہاتھ اس طرح گھٹنوں پر رکھے جائیں کہ کمر بالکل سیدھی رہے اور گھٹنے جھکے ہوئے نہ ہوں۔ اس عمل سے معدے کو قوت پہنچتی ہے نظام ہضم درست ہوتا ہے قبض دور ہوتا ہے۔ معدے کی دوسری خرابیاں نیز آنتوں اور پیٹ کے عضلات کا ڈھیلا پن ختم ہو جاتا ہے۔ رکوع کا عمل جگر اور گردوں کے افعال کو درست کرتا ہے۔ اس عمل سے کمر اور پیٹ کی چربی کم ہوجاتی ہے۔ خون کا دوران تیز ہو جاتا ہے چونکہ دل اور سر ایک سیدھ میں ہو جاتے ہیں اس لئے دل کے لئے خون کو سر کی طرف پمپ (Pump) کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے اور اس طرح دل کا کام کم ہو جاتا ہے اور اسے آرام ہے جس سے دماغی صلاحیتیں اجاگر ہونے لگتی ہیں۔
اگر تسبیح سبحان ربی العظیم پر غور کر کے تین سے سات بار تک پڑھی جائے تو مراقبہ کی سی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ دوران رکوع ہاتھ چونکہ نیچے کی طرف ہوتے ہیں اس لئے کندھوں سے لے کر ہاتھ کی انگلیوں تک پورے حصے کی ورزش ہو جاتی ہے جس سے بازو کے پٹھے (Muscles) طاقتور ہو جاتے ہیں اور جو فاسد مادے بڑھاپے کی وجہ سے جوڑوں میں جمع ہوتے ہیں، از خود خارج ہو جاتے ہیں۔

پیٹ کم کرنے کے لئے:
رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہو کر ہم سجدے میں جاتے ہیں۔ سجدے میں جانے سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جاتے ہیں، یہ عمل ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط اور لچک دار بناتا ہے اور خواتین کے اندرونی اعصاب کو تقویت بخشتا ہے۔ اگر رکوع کے بعد سجدے میں جانے کی حالت میں جلدی نہ کی جائے تو یہ اندرونی جسمانی اعضاء کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ورزش ثابت ہوتی ہے۔
سجدہ کی حالت ایک ورزش ہے جو رانوں کے زائد گوشت کو گھٹاتی ہے اور جو جوڑوں کو کھولتی ہے۔ اگر کولہوں کے جوڑوں میں خشکی آ جائے یا چکنائی کم ہو جائے تو اس عمل سے یہ کمی پوری ہو جاتی ہے اور بڑھا ہوا پیٹ کم ہو جاتا ہے۔ متناسب پیٹ سے جسم سڈول اور خوبصورت لگتا ہے۔

السر کا علاج:
جن لوگوں کے معدے میں جلن رہتی ہے اور زخم (Ulcer) ہوتا ہے۔ صحیح سجدے کے عمل سے یہ مرض ختم ہو جاتا ہے۔ سجدہ میں پیشانی زمین پر رکھی جاتی ہے اس عمل سے دماغ زمین کے اندر دوڑنے والی برقی رو سے براہ راست ہم رشتہ ہو جاتا ہے اور دماغ کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

جملہ دماغی امراض:
خشوع و خضوع کے ساتھ دیر تک سجدہ کرنا دماغی امراض کا علاج ہے۔ دماغ اپنی ضرورت کے مطابق خون سے ضروری اجزاء حاصل کر کے فاسد مادوں کو خون کے ذریعے گردوں کو واپس بھیج دیتا ہے تا کہ گردے انہیں پیشاب کی شکل میں باہر نکال دیں۔ سجدہ سے اٹھتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ سر جھکا ہوا اور بازو سیدھے رہیں اور ان میں قدرے تناؤ ہو۔ اٹھتے وقت ران پر ہتھیلیاں بھی رکھیں، کمر کو کُب کی طرح اوپر اٹھائیں اور آہستہ سے کھڑے ہو جائیں یا بیٹھ جائیں۔

چہرہ پر جھریاں:
ریڑھ کی ہڈی میں حرام مغز بجلی کا ایک ایسا تار ہے جس کے ذریعے پورے جسم کو حیات ملتی ہے۔ سجدہ کرنے سے خون کا بہاؤ جسم کے اوپری حصوں کی طرف ہو جاتا ہے جس سے آنکھیں دانت اور پورا چہرہ سیراب ہوتا رہتا ہے اور رخساروں پر سے جھریاں دور ہو جاتی ہیں یاداشت صحیح کام کرتی ہے فہم و فراست میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آدمی کے اند رتفکر کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ بڑھاپا دیر تک نہیں آتا۔ سو سال کی عمر تک بھی آدمی چلتا پھرتا رہتا ہے اور اس کے اندر ایک برقی رو دوڑتی رہتی ہے جو اعصاب کو تقویت پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ صحیح طریقہ پر سجدہ کرنے سے بند نزلہ ثقل سماعت اور سر درد جیسی تکلیفوں سے نجات مل جاتی ہے۔

جنسی امراض:
دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا(جلسہ) گھٹنوں اور پنڈلیوں کو مضبوط بناتا ہے۔ اس کے علاوہ رانوں میں جو پٹھے اللہ تعالیٰ نے نسل کشی کے لئے بنائے ہیں ان کو ایک خاص وقت عطا کرتا ہے جس سے مردانہ اور زنانہ کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں تا کہ انسان کی نسلیں دماغی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند پیدا ہوں۔

سینہ کے امراض:
نماز کے اختتام پر ہم سلام پھیرتے ہیں۔ گردن پھیرنے کے عمل سے گردن کے عضلات کو طاقت ملتی ہے اور وہ امراض جن کا تعلق ان عضلات سے ہے لاحق نہیں ہوتے اور انسان ہشاش بشاش اور توانا رہتا ہے نیز سینہ اور ہنسلی کا ڈھیلا پن ختم ہو جاتا ہے۔ سینہ چوڑا اور بڑا ہو جاتا ہے۔ ان سب ورزشوں کا فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب ہم پوری توجہ اور دل جمعی اور اس کے پورے آداب کے ساتھ نماز قائم کریں اور جلد بازی سے کام نہ لیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 147 تا 170

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)