یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

نظریہ توحید

مکمل کتاب : مراقبہ

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12153

ضمیر نور باطن ہے۔ نور باطن سے استفادہ کرنے کے لئے اللہ نے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں ہم جب شریعت پر غور کرتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر فکر کر کے کوئی نتیجہ اخذکرتے ہیں تو ایک ہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ نوع انسانی کی تخلیق کا اجمالی پہلو یہ ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے۔ اللہ کو ایک جاننے کو توحید کہا گیا ہے، توحید یا اللہ کو ایک ماننا اور اللہ کو بحیثیت خالق کے ایک جاننا انبیاء علیہم السلام پر وحی کے ذریعے منکشف ہوا۔ چونکہ انبیاء کو یہ کشف وحی کے ذریعے ہوتا ہے اس لیے وہ جوکچھ کہتے ہیں ان فرمودات میں قیاس کو دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس انبیاء کے نہ ماننے والے فرقے توحید کو اپنے قیاس میں تلاش کرتے ہیں۔ جب سے آدم زاد برادری کا مادی وجود ظاہر ہوا ہے اس ہی وقت سے انسان کسی ایک طاقت کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لئے قیاس سے راہنمائی چاہتا ہے۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے ہمیشہ توحید کو اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ ان کے قیاس نے غلط راہنمائی کر کے توحید کو غیر توحیدی نظریات بنا کر پیش کیا اور یہ نظریات کہیں کہیں دوسرے فرقوں سے متصادم ہوتے رہے۔ قیاس اور مفروضہ (Fiction) کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریے کا چند قدم تو ساتھ دے سکتا ہے لیکن ناکام ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ خود قیاس کردہ نظریہ ہے۔ اس کو ماننے کے لئے کوئی حقیقت سامنے نہیں ہے۔ جب کہ انبیاء کا اعلان کردہ توحید کا نظریہ قیاس پر مبنی نہیں ہے۔ ہم جب نوع انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں اور نوع انسانی کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اس طرف توجہ دینی پڑے گی کہ نوع انسانی ایک کنبہ ہے۔ اس کنبہ کا ایک ایسا سرپرست ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

اس نظریہ پر نوع انسانی کو اکٹھا کرنے کے لئے ایک مکتبہ فکر پر جمع ہونا ضروری ہے۔ وہ نقطہ فکر یہ ہے کہ اللہ ایک ایسی ہے جو نوع انسانی کی سرپرست ہے۔ جتنے بھی انبیاء ابتدائے آفرینش سے آخری نبی محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام تک مبعوث ہوئے ان سب نے توحید کا ہی درس دیا ہے۔ کسی نبی کی تعلیم ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہے۔ اگر نوع انسانی ایک نقطے پر مرکوز ہو کر فلاح چاہتی ہے تو اسے انبیاء کی بتائی ہوئی توحید پر عمل کرنا ہو گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انبیاء کی توحید کے نظریہ کے علاوہ آج تک جتنے بھی نظامہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظام فکر فنا ہو چکے ہیں ۔ یا رد و بدل کے ساتھ فنا کے راستے پر سرگرم عمل ہیں۔

آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا کہ نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت اس نقطہ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ جس نقطہ توحید کو انبیاء نے متعارف کرایا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ممالک اور قوموں میں زندگی کی طرزیں مختلف ہیں، لباس الگ اور جسمانی وظائف جداگانہ ہیں یہ بات کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ ہم جب جسمانی وظیفے سے ہٹ کر اپنے اندر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ جسمانی وظائف الگ الگ ہونے کے باوجود نوع انسانی کے تمام افراد کا روحانی وظائف میں باہم اشتراک ہے۔ باہمی اشتراک یہ ہے کہ مخلوق ایک ہے اور مخلوق کی ضروریات پورا کرنے والا بھی ایک اللہ ہے۔ ذرا سا سوچنے پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ نوع انسانی کی جتنی ترقیاں ہیں، جتنے علوم کے مدارج ہیں ان سب کا تعلق اسی ایک ذات سے ہے ۔ کوئی علم اس وقت تک علم نہیں بن سکتا جب تک کوئی ذات ان علوم کو انسانی دماغ پر انسپائر(Inspire) نہ کرے۔ کوئی ترقی ممکن نہیں ہے جب تک اس دنیا میں کسی شئے کے اندر تفکر نہ کیا جائے۔ کوئی شئے موجود ہو گی تو ترقی ہو گی، موجود نہیں ہو گی تو ترقی نہیں ہو گی۔ نوع انسانی موجود ہو گی تو ارتقاء ہو گا ورنہ ارتقاء نہیں ہو گا۔ نوع انسانی کے دماغ میں کچھ کرنے اور بنانے کا خیال وارد نہ ہو تو کوئی ایجاد نہیں ہو سکتی۔ یہ وہ باہمی ربط ہے جو روحانی اعتبار سے تمام نوعوں میں اور تمام افراد میں ہمہ وقت متحرک ہے اور اس کا مخزن توحید اور صرف توحید ہے۔ دنیا کے مفکرین کو چاہئے کہ وہ جدوجہد کر کے غلط تعبیروں کو درست کریں۔ یہی وہ یقینی عمل ہے جس سے اقوام عالم کو ایک روحانی دائرے میں اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ یہ روحانی دائرہ آسمانی کتابوں اور قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ قرآن پاک کی بیان کردہ توحید میں داخل ہونے اور اس توحید کو اپنے اوپر جاری و ساری کرنے کے لئے تعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ تفرقوں سے آزاد ہونا ہو گا۔ وہ وقت دور نہیں ہے کہ نوع انسانی مستقبل کے خوفناک تصادم سے وہ معاشی ہو یا نظریاتی مجبور ہو کر بقا کی تلاش کرے گی اور بقا کے ذرائع توحید کے سوا کسی نظام حکمت سے نہیں مل سکتے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 78 تا 81

یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

مراقبہ کے مضامین :

انتساب 1 - انفس و آفاق 2 - ارتکاز توجہ 3 - روحانی دماغ 4 - خیالات کی لہریں 5 - تیسری آنکھ 6 - فلم اور اسکرین 7 - روح کی حرکت 8.1 - برقی نظام 8.2 - تین کرنٹ 9.1 - تین پرت 9.2 - نظر کا قانون 10 - كائنات کا قلب 11 - نظریہ توحید 12.1 - مراقبہ اور مذہب 12.2 - تفکر 12.3 - حضرت ابراہیم ؑ 12.4 - حضرت موسیٰ ؑ 12.5 - حضرت مریم ؑ 12.6 - حضرت عیسیٰ ؑ 12.7 - غار حرا 12.8 - توجہ الی اللہ 12.9 - نماز اور مراقبہ 12.10 - ذکر و فکر 12.11 - مذاہب عالم 13.1 - مراقبہ کے فوائد 13.2 - شیزو فرینیا 13.3 - مینیا 14.1 - مدارج 14.2 - غنود 14.3 - رنگین خواب 14.4 - بیماریوں سے متعلق خواب 14.5 - مشورے 14.6 - نشاندہی 14.7 - مستقبل سے متعلق خواب 15.1 - لطیف احساسات 15.2 - ادراک 15.3 - ورود 15.4 - الہام 15.5 - وحی کی حقیقت 15.6 - کشف 16 - سیر 17 - فتح 18.1 - مراقبہ کی اقسام 18.2 - وضاحت 18.3 - عملی پروگرام 18.4 - اندازِ نشست 18.5 - جگہ اور اوقات 18.6 - مادی امداد 18.7 - تصور 18.8 - گریز 18.9 - مراقبہ اور نیند 18.10 - توانائی کا ذخیرہ 19.1 - معاون مشقیں 19.2 - سانس 19.3 - استغراق 20.1 - چار مہینے 20.2 - قوتِ مدافعت 20.3 - دماغی کمزوری 21 - روحانی نظریہ علاج 22.1 - رنگ روشنی کا مراقبہ 22.2 - نیلی روشنی 22.3 - زرد روشنی 22.4 - نارنجی روشنی 22.5 - سبز روشنی 22.6 - سرخ روشنی 22.7 - جامنی روشنی 22.8 - گلابی روشنی 23 - مرتبہ احسان 24 - غیب کی دنیا 25.1 - مراقبہ موت 25.2 - اعراف 25.3 - عظیم الشان شہر 25.4 - کاروبار 25.5 - علمائے سوء 25.6 - لگائی بجھائی 25.7 - غیبت 25.8 - اونچی اونچی بلڈنگیں 25.9 - ملک الموت 25.10 - مراقبہ نور 26.1 - کشف القبور 26.2 - شاہ عبدالعزیز دہلویؒ 27 - روح کا لباس 28.1 - ہاتف غیبی 28.2 - تفہیم 28.3 - روحانی سیر 28.4 - مراقبہ قلب 28.5 - مراقبہ وحدت 28.6 - ’’لا‘‘ کا مراقبہ 28.7 - مراقبہ عدم 28.8 - فنا کا مراقبہ 28.9 - مراقبہ، اللہ کے نام 28.10 - اسم ذات 29 - تصورشیخ 30 - تصور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام 31 - ذات الٰہی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)