مسلم قیدیوں کی نیلامی

مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=392

جماعتِ قریش نے ہر طرف یہ منادی کرائی کہ مسلمانوں کو زندہ پکڑ لانے پر انعام دیا جائے گا۔ ایک مسلمان قیدی کے لئے اتنا زیادہ انعام مقرر کیا گیا کہ مشرکین مسلمانوں کی کھوج میں لگ گئے۔

تیس (۳۰) افراد پر مشتمل ایک جماعت تبلیغِ دین کے لئے جاتے ہوئے ان لوگوں کے نرغے میں اۤگئی۔ اغوا کرنے والوں نے مسلمانوں کو زندہ پکڑنا چاہا لیکن دو بدو جنگ ہوئی۔تیس افراد میں سے تین افراد زندہ بچے۔ بدوی لٹیرے ان تینوں کو گرفتار کرکے مکہ لے جانے لگے تو ان میں سے ایک کسی طرح بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ صحرائی لٹیروں نے اس کا تعاقب کیا اور دوبارہ پکڑنا چاہا لیکن جب زندہ پکڑنے میں ناکام ہوگئے تو ان سفاک ظالموں نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے صحرا میں پھینک دیا۔ یہ لٹیرے باقی دو مسلمانوں کو باندھ کر مکہ لے اۤئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ مکہ سے سارے اشراف ان دونوں کو حاصل کرنے کے لئے اتنے بیقرار ہیں کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ صحرائی لٹیروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انعام لینے کے بجائے دونوں مسلمانوں کو نیلام کرنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم مل جائے۔ سب سے زیادہ بولی لگانے والا شخص صفوان بن امیہ تھا۔ جو ابوسفیان کے بعد مکہ کا سب سے بڑا سردار مانا جاتا تھا۔ اس نے ایک مسلمان حضرت عمر بن ثابت کو خرید لیا۔ جبکہ دوسرے مسلمان کو مکہ کے ایک اور سرکردہ شخص نے بھاری قیمت دے کر خرید لیا۔ اہلِ مکہ نے یہ دیکھا کہ دو مالدار لوگ دو مسلمانوں کو خرید کر اپنے طور پر قتل کرکے انتقام کی اۤگ بجھانا چاہتے ہیں تو انہوں نے احتجاج کیا کہ ہم نے بھی مسلمانوں کے ہاتھوں اذیت اٹھائی ہے۔بدر و احد میں ہمارے عزیز و اقرباء بھی قتل ہوئے ہیں ۔ ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ان دو مسلمانوں کو مرتے اور تڑپتے دیکھیں۔ تجویز پیش کی گئی کہ ان دونوں کو مکہ کے بڑے میدان میں قتل کیاجائے۔ صفوان بن امیہ نے کہا کہ میں نے اس مسلمان کے لئے بھاری رقم ادا کی ہے ۔ لہذا مرنے کے بعد اس کے سر کی بولی لگاؤں گا تاکہ جو بھی چاہے اس کے سر کو خرید لے اور اس کا سۂ سر کو پانی پینے کے لئے استعمال کرے۔جس شخص نے سب سے زیادہ قیمت لگائی تھی جب وہ سر تن سے جدا کرنے کے لئے جنازے کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ حضرت عمیر شہید کے جسم پر سنہرے رنگ کی بے شمار بھڑیں جمع ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دوسری بھڑیں جنازے کے اردگرد منڈلارہی ہیں۔ حضرت عمیرؓ کا سر خریدنے والا سنہری بھڑوں کی فوج دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا اس نے اپنے دل میں کہا کہ رات کو یہ بھڑیں چلی جائیں گی تو سر کاٹ کر لے جاؤں گا۔ لیکن غروب اۤفتاب کے بعد سیاہی پھیلی اور موسلادھار بارش برسنے لگی۔ بارش اتنی زیادہ برسی کہ سیلاب اۤگیا۔ نہیں معلوم کس مقام پر پانی حضرت عمیرؓ کی لاش کو بہا کر لے گیا۔

اس وقت کے سنگدل اہل مکہ دوسرے مسلمان کو شہر سے باہر لے گئے اور اسے مصلوب کردیا۔

سن۶۲۵ عیسوی جون کے مہینے ( ۳ھجری) میں چالیس افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک دستہ مدینہ سے تبلیغ دین کے لئے روانہ ہوا اور ”معونہ” نامہ کنویں کے پاس کفار نے ان پر حملہ کردیا۔ مسلمانوں نے اۤخری دم تک مزاحمت کی اور سب کے سب شہید ہوگئے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 131 تا 133

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)