مساجد

مکمل کتاب : قوس و قزح

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8769

سن ایک ہجری تک اسلامی حکومت مدینہ منورہ کے چند محلوں تک محدود تھی۔ فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو رسول اللہﷺ کی زندگی میں دس سال کے قلیل عرصے میں اسلامی فتوحات میں روزانہ ۲۷۶ میل کا اضافہ ہوتا رہا۔ سن گیارہ ہجری میں جب فخر موجودات رسالت مآبﷺ کا وصال ہوا تو دس لاکھ مربع میل کے علاقے پر اسلامی حکومت قائم تھی اور یہ سب پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات اور امت کے لئے اسلامی پروگرام کی بنیاد پر ہوا۔ ہم جب اسلامی نظام اور امت مسلمہ کے لئے ضابطہ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن ہماری رہنمائی اس طرف کرتا ہے ۔اسلام اجتماعی اقدار اور اجتماعی زندگی گزارنے کا نام ہے۔
اسلام میں جو عبادات فرض ہیں ان میں بھی اجتماعی حیثیت برقرار ہے۔ اسلام نے اجتماعی حیثیت کو قائم رکھنے کے لئے دن میں پانچ وقت کی نماز، سال میں تیس روزے اور صاحب استطاعت لوگوں پر حج فرض کیا ہے۔
نماز۔۔اجتماعی حیثیت میں عبادت کرنے کے لئے مسجد کا اہتمام ہوا۔ مسجد دراصل محلے میں رہنے والے مسلمان افراد کے لئے ایک (Meeting Place) ہے ۔ جہاں لوگ اکٹھے ہو کر اجتماعی عبادت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں اور جب یہ نیک نفس حضرات و خواتین نماز با جماعت میں دو مرتبہ السلام علیکم کہتے ہیں تو اس عمل سے اجتماعی محبت، اجتماعی ہمدردی اور اجتماعی اخوت کے جذبات لاشعوری طور پر دل میں موجزن ہوتے رہتے ہیں۔
جمعہ کے روز بڑے اجتماع میں یہ رمز مخفی ہے کہ ملت اسلامیہ کے دانشور قوم کے افراد کو ساتھ لے کر مملکت کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کریں اور مملکت کی فلاح و بہبود کے لئے لائحہ عمل متعین کریں۔ قوم کی معاشی حالت کو بہتر بنانے، معاشرے کی برائیوں کو دور کرنے اور فسق و فجور سے بچنے کی تدابیر نکالیں۔ نماز جمعہ کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم عیدین کی نماز کی حکمت پر تفکر کرتے ہیں، تب بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ شہر کے گوشے گوشے مضافاتی بستیوں اور قریہ قریہ سے مسلمان ایک مقام ایک میدان اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر محبت و اخوت کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں۔ گلے ملتے ہیں مبارک باد دیتے ہیں اور خوشی کے جذبات سے ایک دوسرے کو پیار کرتے ہیں۔ صاف ستھرے لباس میں بچے رشتہ دار دوست احباب اور پڑوسی مسرت اور شادمانی سے لبریز دل کے ساتھ بلا امتیاز ذات برادری امارت و غربت نیک و بد اور بلا تخصیص مسلک گھروں میں جا کر شیر خورمہ کھاتے ہیں اور گھر والے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ بچے اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ انہیں عیدی ملتی ہے۔ چھوٹے اس لئے مسرور ہوتے ہیں کہ ان کے سروں پر بزرگ دست شفقت رکھتے ہیں۔ بزرگ اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ انہیں بچوں میں اپنی گزری ہوئی معصومیت نظر آتی ہے۔ بیوی اس لئے خوش ہوتی ہے کہ اچھا شوہر اس سعید خوشی کے موقع پر اپنی رفیق حیات کو تحفہ پیش کرتا ہے۔ شوہر اس لئے خوش ہوتا ہے کہ پاک دامن نیک سیرت سگھڑ بیوی گھر کی تزئین و آرائش کرتی ہے۔ بچوں کے لئے اجلے کپڑوں کا اہتمام کرتی ہے اور نہایت فراغ دلی سے میزبانی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ بیٹیوں کی خوشی ان کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے جب وہ Shoppingکرتی ہیں چوڑیاں پہنتی ہیں اور ہاتھوں کو مہندی کے نقش و نگار سے مزین کرتی ہیں۔
روزہ۔۔رمضان المبارک کے مہینے میں تیس روزے ہمیں اس تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ بندے کا اور اللہ کا ایک براہ راست تعلق قائم ہے خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ روزے کی جزا میں خود ہوں۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے رسولﷺ میرے بندے جب آپﷺ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپﷺ کہہ دیجئے میں ان سے قریب ہوں جب وہ مجھے پکارتے ہیں تو میں ان کی پکار سنتا ہوں۔‘‘
انسانی زندگی کا مطالعہ ہمارے اوپر یہ باب روشن کرتا ہے کہ ہر انسان دوحواسوں میں زندگی گزار رہا ہے ایک قسم کے حواس اسفل زندگی کی طرف متوجہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور دوسری قسم کے حواس ہمیں آزاد دنیا (جنت) سے روشناس کرتے ہیں۔
عام دنوں کے برعکس روزہ ہمیں ایسے نقطہ پر لے آتا ہے جہاں سفلی حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور ہم اجتماعی شعور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ روزے میں اجتماعیت کا عمل دخل اتنا واضح ہے کہ کوئی آنکھ کا اندھا بھی مشاہدہ کر سکتا ہے۔
سحری کا وقت ختم ہونے کے بعدمسجد میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے تو کروڑوں مسلمان اس ایک آواز پر منہ بند کر لیتے ہیں اور اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں۔ نہ کھانا کھاتے ہیں، نہ پانی پیتے ہیں، نہ چائے پیتے ہیں۔ تیرہ چودہ گھنٹے کے بعد مساجد سے پھر اذان نشر ہوتی ہے اور لوگ اجتماعی طور پر اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ میں یہ حکمت ہے کہ روزے رکھنے سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس عبادت کے نتیجہ میں انسان کے اندر روح کی بالیدگی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اعلیٰ حواس کا اسفل حواس پر غلبہ ہو جاتا ہے اور اس کے اندر دیکھنے کی سمجھنے کی محسوس کرنے چھونے کی اور غیب کی دنیا میں داخل ہونے کی رفتار ساٹھ ہزار 60,000گنا بڑھ جاتی ہے۔ ساٹھ ہزار گنا پرواز کی رفتار کو تلاش کرنے کے لئے رسولﷺ نے شب قدر کا پروگرام دیا ہے۔
’’ہم نے یہ اتارا شب قدر میں۔
اور آپ کیا سمجھے کیا ہے شب قدر۔
شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے (ساٹھ ہزار دن رات کے حواس) سے۔
شب قدر میں اپنے رب کے حکم سے روح اور فرشتے اترتے ہیں ہر امر پر۔
امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک۔‘‘ (سورۃ القدر)
قرآن پاک نے جس رات کا نام لیلتہ القدر رکھا ہے وہ دراصل رمضان کی تکمیل کا ایک حصہ ہے اس حصہ کی تکمیل سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ روزہ کی جزا میں ہوں بندے پر صادق آ جاتی ہے۔ لیلتہ القدر کے حصول یعنی حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہونے کے بعد بندے کو اللہ تعالیٰ سے جو قربت حاصل ہوتی ہے اور بندے کے اوپر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں‘ روح اور فرشتوں سے ملاقات کا عمل سامنے آتا ہے تو اس عظیم نعمت کے حصول کے بعد مومن دوگانہ نماز عید ادا کرتا ہے وہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کی خوشی میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس خوشی کو اجتماعی طور پر مصافحہ کر کے بغل گیر ہو کر مسلمانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہی عید کا مفہوم ہے اور یہی عید کی خوشی ہے۔
یہی وہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی حیثیت ہے جس کی وجہ سے بازوؤں میں طاقت دلوں میں اخوت اور قدرت نے ان کی تلوار میں ضرب کی اتنی صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود حق و باطل کے پہلے معرکہ بدر کے میدان بدر میں اپنے سے تین گنا طاقت رکھنے والے دشمن کو (جو اس زمانے کے اعتبار سے بہترین اسلحہ سے مسلح تھا) شکست فاش دے دی۔
اغیار یہ بات جان گئے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے ہر عمل میں فوجی اسپرٹ موجود ہے اگر یہ فوجی اور عسکری وقار برقرار رہا تو ایک دن مسلمان سارے عالم پر حکمران ہو جائے گا۔ دس ہزار لاکھ انسانوں کا ایک جان دو قلب قافلہ جس زمین کی طرف رخ کرے گا وہ زمین اس کے لئے گلزار بن جائے گی۔ ہماری طاقت ہماری قوت اور ہماری عسکری تنظیم کا وقار بلند کرنے کے لئے ہر سال عید ہمیں دعوت اتحاد و یگانگت دیتی ہے۔
آیئے! اس مرتبہ عید کی صدا پر کان دھریں اور اپنے اندر سے تفرقہ کو ختم کر دیں۔ اللہ کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اللہ کی رسی کو اجتماعی طور پر متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں تا کہ بدر کے ہمارے اسلاف کی طرح ہماری فتح میں معاون بننے کے لئے ہمارے اوپر فرشتے نازل ہوں۔ (آمین)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 123 تا 128

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)