محا سبہ

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6237

پیغامبر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ایک شہر سے دوسرے شہر تبلیغ کے لیئے جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک یہودی نے سلام کیا ۔ “اے بندہ خدا ! اس سفر میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔”
دونوں مسافر چلتے چلتے تھک گئے اور سورج بھی نصف النّہار پر آ گیا تو یہودی نے تجویز پیش کی کہ دھوپ کی تمازت، بھوک اور پیاس کی شدّت سے بچنے کے لیئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے ایک پہر گزار لیا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور یہودی ایک درخت کے نیچے جا ٹھہرے۔ سورج کی جھُلس دینے والی شعاعوں سے درخت نے جب تحفظ فراہم کیا اور اعصاب کو سکون ملا تو یہودی نے عرض کیا “آئیے، کھانا کھا لیں۔” عیسیٰ علیہ السّلام اور یہودی نے ایک ساتھ اپنے اپنے دسترخوان کھولے۔ یہودی نے دیکھا کہ حضرت عیسٰیؑ علیہ السّلام کے دستر خوان میں دو روٹیاں تھیں اور یہودی کے پاس تین رو ٹیاں تھیں۔ یہودی نے حضرت عیسٰیؑ سے کہا “میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں، کھانے کے ساتھ پانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔” حضرت عیسٰیؑ پانی لینے چلے گئے اور یہودی نے اپنی تین روٹیوں میں سے جلدی جلدی ایک روٹی کھا لی۔ حضرت عیسٰیؑ پانی لے کر آئے اور دونوں مسافر کھانا کھانے بیٹھے تو حضرت عیسٰیؑ نے دیکھا کہ یہودی کے دسترخوان میں دو روٹیاں ہیں۔
انہوں نے کہا “اے شخص ! تیرے پاس تین روٹیاں تھیں۔ ایک رو ٹی کہاں گئی؟”
یہودی نے کہا ۔ “آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ میرے پاس دو ہی روٹیاں تھیں۔”
کھانا کھانے کے بعد یہودی قیلولہ کے لیئے لیٹا اور سو گیا۔ حضرت عیسٰیؑ اٹھے اور ریت کی تین ڈھیریاں بنائیں۔ ان کے اوپر پھونک ماری تو وہ سونا بن گئیں۔ یہودی بیدار ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سامنے کچھ فاصلے پر سونے کی تین ڈھیریاں پڑی ہیں۔ اس نے نہایت تعجب اور بے یقینی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ حضرت عیسٰیؑ سے پوچھا۔ “یہ سونا کس کا ہے؟”
عیسٰیؑ نے فرمایا :”ایک میری ہے، ایک تیری ہے اور تیسری اس کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی۔”
یہودی فوراً بول پڑا۔ “وہ روٹی میں نے کھا ئی تھی۔” —- تھوڑی دیر کے بعد یہودی گویا ہوا۔ “اے حضرت ! آپ نبی اللہ ہیں۔ آپ کو دنیا کی دولت سے کیا غرض، سونے کی یہ تیسری ڈھیری بھی مجھے دے دیں۔”
عیسٰیؑ نے کہا “ایک شرط ہے۔ اور وہ شرط یہ ہے کی میرے اور تیرے درمیان ساتھ سفر کرنے کا جو معاہدہ ہوا تھا، تو اس کو ختم کر دے تا کہ میں اپنی راہ لوں۔” یہودی نے کہا ۔ “ٹھیک ہے آپ تشریف لے جائیں، میں تنہا سفر کر لوں گا۔”
حضرت عیسٰیؑ نے کندھے پر کمبل ڈالا اور درخت کے نیچے سے رخصت ہو گئے۔ ابھی وہ زیادہ دُور نہیں پہنچے تھے کہ یکایک تین آدمی نمودار ہوئے۔ ایک نے باآواز بلند یہودی سے کہا ۔ “اے شخص ! تو یہاں کیا کر رہا ہے، کیا تو ہمارے حق پر غاصبانہ قبضہ کرنا چاہتا ہے؟” یہودی نے یہ سن کر آدمی پر لعن و طعن کی مگر جب اس کی با توں کا کوئی اثر نہ ہوا تو وہ منت و زاری کرنے لگا۔ مگر ان تینوں آدمیوں کے پاس یہ دلیل تھی کہ ہم تین ہیں اور یہ ڈھیریاں بھی تین ہیں۔ یہودی بہت رویا، بہت گڑگڑایا تو ان تینوں میں سے ایک نے جو سردار تھا کہا ۔ “ایک طریقہ ہے کہ تم ان تینوں میں سے ایک ڈھیری لے سکتے ہو۔”
یہودی چار و ناچار راضی ہو گیا۔ معاہدہ یہ طے پایا کہ یہودی بازار جا کر ان تینوں کے لیئے کھانا لائے اور اس بات کی اطلاع پولیس کو نہ دے۔ یہودی نے بازار سے کھانا خرید کر اس میں زہر ملا دیا کہ وہ تینوں غاصب کھا کر مر جائیں اور سارے سونے پر اس کا قبضہ ہو جائے۔ اُدھر ان تینوں میں سے ایک نے یہ ترکیب سوچی کہ یہودی جیسے ہی کھانا لے کر آئے اُسے قتل کر دیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہودی کو قتل کر دیا اور تینوں کھانا کھا کر ہلاک ہو گئے۔
ہم جب اپنے معاشرے پر غور کرتے ہیں تو اپنا ذہن وقت کی نفی کر کے ۳۷ سال پہلے ماضی میں پہنچ جاتا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے ایک دن میں مشرقی پنجاب کی ریاست پٹیا لہ میں ایک وسیع و عریض، بلند و بالا حویلی میں مقیم تھا۔ ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی تھی۔ مشین گن میں سے نکلنے والی گولیوں کی آوازسے شعور معطل اور اور احصاب مضحمل ہو رہے تھے۔ جو بھی گھر سے باہر نکل رہا تھا اس کو موت اچک لیتی تھی جو گھروں ہیں بند تھے، ان کے گھروں کو آگ لگا دی جاتی تھی۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ سات روز کی قید اور بھوک پیاس کی اذیّت سے نجات ملی تو گھر والوں کو گھر سے باہر نکال دیا گیا۔ مجھے اس طرف سے اس طرف جانے کے لیئے ایک سڑک عبور کرنا تھی۔ کچھ دیر ٹھہر کر، رُک کر، عالمِ خواب میں نہیں، عالمِ ہوش و حواس میں، میں نے یہ چاہا کہ سڑک اس طرح پار کر لوں کہ میرے قدم لاشوں کے اُوپر نہ پڑیں مگر سڑک لاشوں سے اٹی پڑی تھی اور مجھے مجبوراً پنجوں کے بَل لاشوں کے اوپر سے گزر کر سڑک کی دوسری طرف جانا پڑا۔ گھروں کی چھتوں پر سے خون بہہ رہا تھا۔ نالے خون آلود پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ بچّے بلک رہے تھے۔ خواتین چادر اور چار دیواری سے آزاد عبرت کا مرقع بنی ہوئی تھی۔ دولت کے انبار اور نوٹوں سے بھری ہوئی گٹھڑیاں مٹی سے بھی زیادہ بے وقعت ہو گئی تھیں۔
۱۴ اگست کا سورج جوں ہی افق سے نمودار ہوا۔ اس کی شعاعوں میں ایک پیغام تھا کہ ایک قوم دوسری قوم سے آزادی حاصل کر کے اپنی نسل کے لیئے ایک فلاحی مملکت قائم کرے۔ بھوکی اور ننگی قوم پر قدرت نے اپنے خزانے کھول دئیے تاکہ قوم وسائل کی کمی کا شکوہ نہ کرے اور قوم کے فلاحی کاموں میں کوئی رخنہ انداز نہ ہو۔
ایک نسل ختم ہو گئی۔ ایک نسل جوان ہو کر بڑھاپے کی طرف گامزن ہے۔ اور ایک نسل جوان ہو رہی ہے۔ تینوں نسلوں کو فرشتے ترغیبی پروگرام انسپائر INSPIRE کرتے رہے مگر جیسے جیسے قدرت کا انعام عام ہوتا رہا، قوم کے اندر زر اور زمین کی ہوس بڑھتی گئی اور آج یہ حرص و ہوس قوم کے جسم کے لیئے ناسُور بن گئی ہے۔
قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دھرتی پر وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے ماضی کو یاد رکھتی ہیں اور حال میں کئے ہوئے اعمال کا محاسبہ کرتی ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 174 تا 177

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)