ماں

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2411

یہ فقیر ہر ماہ کسی نہ کسی عنواان سے آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔  آج کی نشست میں عامتہ المسلمِین کی ذہنی پریشانی، عدم تحفظ کا احساس، خوف اور مستقبل کی طرف سے مایوسی کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اداس غمگین اور پژمردہ چہرے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے مسا فر ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہے۔  جب کہ اسلامی زندگی کے دل کش خد و خال اختیار کر کے ہم اپنے اندر غیر معمولی کشش اور انتہائی جاذبیت پیدا کر سکتے ہیں۔  اہل اسلام ہی نہیں بلکہ دوسری قومیں بھی اسلامی اصولوں کی ضیا پاشیوں سے متاثر ہو کردینِ مبین کی طرف کھنچنے لگتی ہیں۔  اسلام یقیناً ہوا، پانی اور روشنی کی طرح سارے انسانوں کی عام میراث ہے۔  لیکن محض زبانی طور پر اس کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے۔  اس کے لیئے ایثار و عمل کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔  آج کے ترقی یافتہ دَور میں والدین اور بزرگوں کا احترام کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔  اور یہ پہلا قدم ہے جہاں اسلامی اخلاقی قدروں میں شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔  اللہ تعالےٰ کے حکم سے سیّدنا حضور علیہ الصّلوۃٰ والسّلام نے اپنی امّت کے لیئے بالخصوص اور نوعِ انسانی کے لیے بالعموم ایسے روشن اور واضح اصول مرتب کئے ہیں جن پر عمل کر کے ہم ذہنی کشا کش، اعصابی کش مکش، الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ و مامون ہو سکتے ہیں۔

ایک مرتبہ حضور علیہ الصّلوۃٰ والسّلام گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک عورت تشریف لائیں۔  حضورؐ نے کام چھوڑ کر اُن کے لیئے اپنی چادر بچھائی اور معزز خاتون کو نہایت ادب و احترام کے ساتھ اس چادر پر بٹھایا۔  حضرت ابوطفیلؓ کہتے ہیں میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون برگزیدہ ہستی ہیں؟ وہاں موجود لوگوں نے بتایا یہ بزرگ عورت وہ ماں ہیں جنہوں نے آپؐ کو دُودھ پلایا ہے۔

والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کے سلسلے میں سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔”

محسن کی شکرگزاری اور احسان مندی شرافت کا اوّلین تقاضا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے وجود کا محسوس سبب “ماں باپ” ہیں جن کی پرورش اور نگرانی میں ہم پلتے بڑھتے اور شعور کو پہنچتے ہیں اور جس غیر معمولی قربانی، بےمثال جاںفشانی اور انتہائی شفقت و ایثار سے وہ اولاد کی دیکھ بھال اور تربیت کرتے ہیں، حق یہ ہے کہ ہمارا دل اُن کی عقیدت و احسان مندی اور عظمت و محبت سے سرشار ہو اور ہمارے جسم کا رُوّاں رُوّاں ان کا شکر گزار ہو۔  یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالےٰ نے اپنی شکرگزاری کے ساتھ ساتھ والدین کی شکر گزاری کی تاکید فرمائی ہے۔

باپ کے دوستوں اور ماں کی سہیلیوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور احترام کا حکم دیا گیا ہے۔  ان کے مشوروں کو قدر و منزلت اور وقعت کی نظر سے دیکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔  اللہ کے نبیؐ نے فرمایا ہے:

سب سے زیادہ نیک سلوک یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوست کے ساتھ بھلائی کرے۔

ہم ایک لباس بناتے ہیں وہ سوتی کپڑے کا ہو، اون کا ہو یا نائلون کے تاروں کا، مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم لباس کے ذریعے خود کو چھپائیں۔  اسی طرح رُوح نے خود کو پس پردہ رکھنے کے لیئے ایک لباس اختراع کیا ہے اور یہ لباس گوشت پوست اور ہڈیوں سے مرکب ہمارا جسم ہے۔  جس طرح جسم کے بغیر لباس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی لباس کی اپنی کوئی ذاتی حرکت ہے۔  اسی طرح رُوح کے لباس کی اہمیت اسی وقت تک ہے جب تک رُوح اس لباس کو اہمیت دیتی ہے۔  ہم کوٹ یا شیروانی زیب تن کرتے ہیں۔  یہ ممکن نہیں ہے کہ کوٹ ہمارے جسم پر ہو اور ہم ہاتھ ہلائیں اور آستین نہ ہلے۔  یہ بھی قرینِ قیاس نہیں ہے کہ کوٹ کو کھونٹی پر لٹکا دیا جائے یا چارپائی پر ڈال دیا جائے اور اس کے اندر اسی طرح حرکت پیدا ہو جس طرح جسم کے اوپر رہتے ہوئے ہوتی ہے۔ —– لباس کی حیثیت اسی وقت تک ہے جب تک وہ جسم کے اُوپر ہے۔  گوشت پوست سے مرکب لباس (جسم) کی تمام حرکات و سکنات کا دارومدار اونی یا سوتی لباس کی طرح رُوح کے اوپر ہے۔  رُوح جب تک جسم میں موجود ہے، جسم چلتا پھرتا ہے اور اس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔  رُوح جب اس جسم سے اپنا رشتہ منقطع کرتی ہے تو جسم کی حیثیت کھونٹی پر لٹکے ہوئے کوٹ کی ہو جا تی ہے۔

کسی عاقل، بالغ، باشعور آدمی کو اگر یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے ماں باپ کون ہیں تو وہ کتنا ہی ذہین اور قابل کیوں نہ ہو اس کے اوپر ایک احساسِ محرومی مسلّط رہتا ہے اور احساسِ محرومی انسانی زندگی میں اتنا بڑا خلا ہے کہ بالآخر ایسا بندہ دماغی مریض بن جاتا ہے۔  پاگل پن زیادہ ہو یا کم، بہرحال اس کا نام پاگل کے علاوہ کچھ نہیں رکھا جاتا۔

صورتِ حال یہ ہے کہ ہم اس بات سے تو وقوف رکھتے ہیں کہ ہمارا وجود ہے لیکن اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہمارا پیدا کرنے والا کون ہے۔  اگر یہ کہا جائے کہ ہمیں پیدا کرنے والا اللہ ہے تو یہ ایسی ہی بات ہو گی کہ ہم گوشت پوست کے جسم کو اصل آدمی سمجھتے ہیں جب کہ اس آدمی کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔  یہ آدمی رُوح کے تابع ہے اور رُوح ہماری جسمانی آنکھوں سے چھپی ہوئی ہے۔  محض زبانی طور پر یہ کہہ دینا کہ ہمارا خالق اللہ ہے، اعترافِ خالقیت کا تقاضا پورا نہیں کرتا۔  وہ آدمی جس کو کچھ پتہ نہیں کہ اس کے ماں باپ کون ہیں یہی کہتا ہے کہ اسے ماں باپ نے جنم دیا ہے۔  اگر ہم اپنی رُوح سے واقف نہیں ہیں تو اللہ تعالی کی خالقیت اور ربّانیت کا تذکرہ محض مفروضہ حواس پر مبنی ہو گا۔  کتنی ستم ظریفی ہے کہ معاشرے میں ایسے شخص کو کوئی مقام نہیں دیا جاتا جس کے ماں باپ کا کوئی پتا نہ ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا زبانی تذکرہ کر کے خود کو اشرفُ المخلوقات سمجھتے ہیں۔  اللہ وہ ہے جس کی سماعت سے ہم سنتے ہیں، جس کی بصارت سے ہم دیکھتے ہیں اور جس کے فواد سے ہم سوچتے ہیں اور اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ اس اللہ کی جو ہمیں پیدا کرتا ہے، اپنے خاص کرم و فضل سے ہماری پرورش کرتا ہے، ہماری حفاظت کرتا ہے اس کو پہچاننے کی کوشش کریں جب کہ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ “اور وہ لوگ جو ہمارے لیئے جد و جہد کرتے ہیں ہم ان کے اوپر ہدایت کے راستے کھول دیتے ہیں۔”

تمام انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃ والسّلام اور اولیاء اللہ کا یہی مشن ہے کہ بندہ جس طرح اپنے والدین سے وقوف رکھتا ہے اُسی طرح اپنے خالق کا عرفان حال کرے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 15 تا 18

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)