مائی صاحبہؒ

مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2828

سروقد، لالہ رخسار، غزال چشم، غنچہ دہن، کتابی چہرہ، صراحی گردن، بال ایسے جیسے چاندی کے تار، مائی صاحبہؒ ہر وقت گھومتی پھرتی رہتی تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ کبھی کسی کے گھر چلی گئیں اور کبھی کسی کے گھر۔ جس کے گھر جاتی تھیں اس کے گھر خیر و برکت ہو جاتی تھی لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ وہ زیادہ دن ان کے گھر مہمان ٹھہریں۔ ایک دن معطر معطر خراماں خراماں مائی صاحبہ تشریف لائیں۔ کمرے میں قدم رکھا تو جھمکا ہوا اور آنکھوں کے سامنے قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے، مائی صاحبہ نے مخمور نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بولیں:

“بیٹا! تجھے دیکھنے کی تمنا تھی سو پوری ہو گئی۔”

حیرت زدہ آنکھوں اور کھوئے ہوئے دماغ سے میں نے پوچھا کون ہیں آپ اور کہاں سے آئی ہیں؟ آپ کا نام کیا ہے؟

ملکوتی تبسم کے ساتھ گویا ہوئیں میرے دو نام ہیں ایک نام مفروضہ اور فکشن ہے اور دوسرا نام مفروضہ اور فکشن کی الٹ ہے۔ میں نے نام کی تعریف ایسی کبھی نہیں سنی تھی حیرت اور استعجاب سے پوچھا:”کیا نام بھی غیر حقیقی ہوتے ہیں؟ نام تو پہچان کا ذریعہ ہے۔”

مائی صاحبہؒ عجیب انداز میں خلاء میں گھورتے ہوئے بولیں:”بیٹا تمہارا نام کب رکھا گیا تھا؟”میں نے مودبانہ جواب دیا۔”جب میں پیدا ہوا تھا۔”ہنستے ہوئے کہا۔”تم وہی ہو جو پیدا ہوئے تھے؟ کیا تمہارا ایک ایک عضو بدل نہیں گیا؟ کیا تم پنگوڑے سے زمین پر آ کر دندناتے نہیں پھرتے؟ جب تم پیدا ہوئے تو کیا تمہارے ہاتھ اتنے ہی بڑے تھے جتنے اب ہیں؟ اور اپنے قد کاٹھ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟”
خفت اور ندامت کے ساتھ میں خاموش ہو گیا۔ تجسس نے مجبور کیا تو پھر پوچھا۔”آپ کون ہیں؟”کہنے لگیں۔”میرے دو وجود ہیں ایک وجود پر ہر لمحہ موت وارد رہتی ہے جس لمحے موت وارد ہوتی ہے اس لمحہ ایک اور وجود تشکیل پاجاتا ہے۔ میرا یہ وجود لمحہ بہ لمحہ موت اور لمحہ بہ لمحہ حیات ہے، میرا دوسرا وجود وہ ہے جس پر لمحات، گھنٹے، دن اور ماہ و سال اثر انداز نہیں ہوتے، نہ تو وہ پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ مرتا ہے۔”

مائی صاحبہ کی زبانی اسرار و رموز کی یہ باتیں سن کر ذہن میں خیال آیا کہ یہ کوئی بڑی عالم فاضل عورت ہیں۔ دماغ میں جیسے ہی یہ خیال وارد ہوا مائی صاحبہ بولیں:”نہیں بیٹا نہیں۔ میں عالم فاضل نہیں ہوں۔ مجھے تو خط بھی لکھنا نہیں آتا، ہاں میں خواجہ غریب نوازؒ کی داسی ضرور ہوں۔”
“آپ خواجہ غریب نوازؒ کی داسی ہیں۔ آپ کا قیام کہاں ہے؟”فرمایا:”قیام مقام سے ہوتا ہے، میرے دو مقام ہیں ایک مقام ٹائم اور اسپیس میں بند ہے میں اسی مقام میں خود کو پابند اور مقید محسوس کرتی ہوں، چند میل اگر سفر کرنا پڑے تو وسائل کی محتاجی ہے، میرا دوسرا مقام وہ ہے جہاں میں وسائل کی محتاج نہیں ہوں، وسائل میرے پابند ہیں۔”

قیام اور مقام کی یہ فکر انگیز گفتگو سن کر میری کیفیت ایسی ہو گئی جیسے کسی ساٹھ سالہ کسان کے سامنے ایٹمی فارمولا بیان کیا جا رہا ہو۔ مائی صاحبہؒ نے جب دیکھا کہ میں نروس ہو گیا ہوں تو دو قدم آگے بڑھیں اور شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، ابھی ان کاشفقت بھرا ہاتھ میرے سر پر ہی تھا کہ بچوں نے شور مچا دیا ۔ دادی آ گئیں۔ دادی آ گئیں۔ دادی نے بھی اپنے معصوم پوتے اور پوتیوں کو کلیجے سے لگا لیا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔

بڑی بیٹی نے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا۔ دادی کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں؟ مائی صاحبہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئیں۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور انہوں نے اپنی آپ بیتی اس طرح بیان کی۔

“میرا نام جیاتی تھا، عمر ہو گی کچھ چودہ سال۔ ماں باپ نے پھیرے کروا دیئے، ابھی دلہن کے خواب پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ پتی روٹھ گیا، سسرال والوں نے مجھے ستی کرنے کے مشورے شروع کر دیئے۔ میرے کانوں میں بھنک پڑ گئی۔ میں گھپ اندھیری رات میں سسرال سے میکے پہنچی۔ ماتا جی نے مجھے سینے سے لگایا، لیکن میرا باپ مذہبی آدمی تھا اس نے اس طرح گھر آنا پسند نہیں کیا۔ جب تین پہر رات ڈھل گئی تو ماں نے مجھے پچھلے دروازے سے باہر کردیا۔ میں دوڑتی رہی دوڑتی رہی یہاں تک کہ افق سے سورج نمودار ہوا۔ درختوں کے ایک جھنڈ میں دن بھر پڑی روتی رہی سسکتی رہی اور اپنے مقدر کو کوستی رہی۔ سورج نے جیسے ہی رات کے پردے میں اپنا چہرہ چھپایا میں منزل کا تعین کئے بغیر پھر دوڑنے لگی۔ لہولہان پیروں سے نحیف و نزار جسم اور خشک حلق کے ساتھ نہیں معلوم کس طرح خواجہ غریب نوازؒ کے دربار میں جا پہنچی۔ ڈر اور خوف کا غلبہ اتناتھا کہ مزار کے اندر جا کر میں نے اندر سے کنڈی لگا لی اور خواجہ صاحب کی لحد سے لپٹ کر لیٹ گئی۔ سکون ملا۔ لگتا تھا کہ میں دو چار سال کی بچی ہوں اور خواجہ غریبؒ کی قبر ماں کی گود ہے۔ ادھر میں سرور کی کیفیت میں سرشار تھی، باہر کہرام مچ گیا، کوئی دیوانی اندر گھس گئی ہے، لوگ چیختے رہے، چلاتے رہے، دروازہ پیٹتے رہے مگر میں سکون کی وادی میں تھی مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بالآخر میں نے دروازہ کھول دیا اور وہاں جھاڑو دینے کی خدمت میں معمور کر دی گئی۔ پاکستان بنا تو اپنی ہی جیسی ایک عورت پر عاشق ہو گئی اور اس خاتون کے ساتھ پاکستان آ گئی۔ چھوٹی بیٹی نے پوچھا دادی اماں ہمارے گھر کا پتا آپ کو کس نے بتایا ہے؟

مائی صاحبہ نے بہت زور کا قہقہ لگایا اور فرمایا:”بیٹی! جس بندے کو اپنے اصل مالک کا پتہ مل جاتا ہے اس کے لئے کوئی پتہ، کوئی ٹھکانہ، کوئی مقام ڈھونڈنا مشکل نہیں ہوتا۔”
سبحان اللہ کیا سعید دن تھا کہ پورے دن انوار کی بارش برستی رہی، درودیوار سے روشنیاں پھوٹتی رہیں، ایسا سماں تھا کہ جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رات کو رخصت ہوتے وقت میں نے مائی صاحبہ کی قدم بوسی کی ان کے نرم اور جھاگ سے ملائم ہاتھوں کو چوما۔ آنکھوں سے چھوا اور بے قرار دل کے ساتھ کہا:”مائی صاحبہ کوئی نصیحت کریں۔”مائی صاحبہ ایک دم آسمان کی طرف دیکھنے لگیں اس طرح کہ پلکوں کا ارتعاش رک گیا، ڈھیلوں کی حرکت ساکت ہو گئی، لگتا تھا کہ ذہن و دماغ دونوں کسی نادیدہ نقطے پر مرکوز ہیں۔ ہم سب نے خود اماں کے استغراق اور تجلی سے معمور چہرے کو تکتے رہے۔ ایک بلند آواز گونجی:”بیٹا!”انگشت شہادت کھلی ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوا اور زبان سے یہ الفاظ نکلے۔”رب راضی، سب راضی۔”

حکمت و دانائی

* رب راضی سب راضی۔

* وجود لمحہ بہ لمحہ موت اور لمحہ  لمحہ حیات ہے۔

* ہر لمحہ، ہر آن موت وارد رہتی ہے۔ جس لمحے موت وارد ہوتی ہے اسی لمحے ایک نیا وجود تشکیل پا جاتا ہے۔

* جس بندے کو اپنے اصل مالک کا پتہ چل جاتا ہے وسائل اس کے پابند ہو جاتے ہیں۔

* مرشد سے طلب کرتے رہنا چاہئے، جب تک بچہ روتا نہیں ماں دودھ نہیں پلاتی۔

* کسی کو دوست کہہ دیا تو دوستی ہر حال میں نبھاؤ۔

* مرشد کا دروازہ مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو۔

* جس کا مرشد نہیں اس کا اعتبار نہیں۔

* مرشد جو کہے وہ کرو مرشد کی نقل نہ کرو۔

بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید

کہ سالک بے خبر نہ بود زراہ و رسم منزلہا

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 279 تا 284

ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :

انتساب 1 - مرد اور عورت 2 - عورت اور نبوت 3 - نبی کی تعریف اور وحی 4 - وحی میں پیغام کے ذرائع 5 - گفتگو کے طریقے 6 - وحی کی قسمیں 7 - وحی کی ابتداء 8 - سچے خواب 10 - حضرت محمد رسول اللہﷺ 10 - زمین پر پہلا قتل 11 - آدم و حوا جنت میں 12 - ماں اور اولاد 13 - حضرت بی بی ہاجرہؑ 14 - حضرت عیسیٰ علیہ السلام 15 - نبی عورتیں 16 - روحانی عورت 17 - عورت اور مرد کے یکساں حقوق 18 - عارفہ خاتون ‘‘عرافہ’’ 19 - تاریخی حقائق 20 - زندہ درگور 21 - ہمارے دانشور 22 - قلندر عورت 23 - عورت اور ولایت 24 - پردہ اور حکمرانی 25 - فرات سے عرفات تک 26 - ناقص العقل 27 - انگریزی زبان 29 - عورت کو بھینٹ چڑھانا 29 - بیوہ عورت 30 - شوہر کی چتا 31 - تین کروڑ پچاس لاکھ سال 32 - فریب کا مجسمہ 34 - چین کی عورت 33 - لوہے کے جوتے 35 - سقراط 36 - مکاری اور عیاری 37 - ہزار برس 38 - عرب عورتیں 39 - دختر کشی 40 - اسلام اور عورت 41 - چار نکاح 42 - تاریک ظلمتیں 43 - نسوانی حقوق 44 - ایک سے زیادہ شادی 45 - حق مہر 46 - مہر کی رقم کتنی ہونی چاہئے 47 - عورت کو زد و کوب کرنا 48 - بچوں کے حقوق 49 - ماں کے قدموں میں جنت 50 - ذہین خواتین 51 - علامہ خواتین 52 - بے خوف خواتین 53 - تعلیم نسواں 54 - امام عورت 55 - U.N.O 56 - توازن 57 - مادری نظام 58 - اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت 59 - آٹھ لڑکیاں 60 - انسانی حقوق 61 - عورت کا کردار 62 - دو بیویوں کا شوہر 63 - بہترین امت 64 - بیوی کے حقوق 65 - بے سہارا خواتین 66 - عورت اور سائنسی دور 67 - بے روح معاشرہ 68 - احسنِ تقویم 69 - ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین 70 - ایک دوسرے کا لباس 71 - 2006ء کے بعد 72 - پیشین گوئی 73 - روح کا روپ 74 - حضرت رابعہ بصریؒ 75 - حضرت بی بی تحفہؒ 76 - ہمشیرہ حضرت حسین بن منصورؒ 77 - بی بی فاطمہ نیشاپوریؒ 78 - بی بی حکیمہؒ 79 - بی بی جوہربراثیہؒ 80 - حضرت اُم ابو سفیان ثوریؒ 81 - بی بی رابعہ عدویہؒ 82 - حضرت اُمّ ربیعۃ الرائےؒ 83 - حضرت عفیرہ العابدؒ 84 - حضرت عبقرہ عابدہؒ 85 - بی بی فضہؒ 86 - اُمّ زینب فاطمہ بنتِ عباسؒ 87 - بی بی کردیہؒ 88 - بی بی اُم طلقؒ 89 - حضرت نفیسہ بنتِ حسنؒ 90 - بی بی مریم بصریہؒ 91 - حضرت ام امام بخاریؒ 92 - بی بی اُم احسانؒ 93 - بی بی فاطمہ بنتِ المثنیٰ ؒ 94 - بی بی ست الملوکؒ 95 - حضرت فاطمہ خضرویہؒ 96 - جاریہ مجہولہؒ 97 - حبیبہ مصریہؒ 98 - جاریہ سوداؒ 99 - حضرت لبابہ متعبدہؒ 100 - حضرت ریحانہ والیہؒ 101 - بی بی امتہ الجیلؒ 102 - بی بی میمونہؒ 103 - فاطمہ بنتِ عبدالرحمٰنؒ 104 - کریمہ بنت محمد مروزیہؒ 105 - بی بی رابعہ شامیہؒ 106 - اُمّ محمد زینبؒ 107 - حضرت آمنہ رملیہؒ 108 - حضرت میمونہ سوداءؒ 109 - بی بی اُم ہارونؒ 110 - حضرت میمونہ واعظؒ 111 - حضرت شعدانہؒ 112 - بی بی عاطفہؒ 113 - کنیز فاطمہؒ 114 - بنت شاہ بن شجاع کرمانیؒ 115 - اُمّ الابرارؒ (صادقہ) 116 - بی بی صائمہؒ 117 - سیدہ فاطمہ ام الخیرؒ 118 - بی بی خدیجہ جیلانیؒ 119 - بی بی زلیخاؒ 120 - بی بی قرسم خاتونؒ 121 - حضرت ہاجرہ بی بیؒ 122 - بی بی سارہؒ 123 - حضرت اُم محمدؒ 124 - بی بی اُم علیؒ 125 - مریم بی اماںؒ 126 - بی اماں صاحبہؒ 127 - سَکّو بائیؒ 128 - عاقل بی بیؒ 129 - بی بی تاریؒ 130 - مائی نوریؒ 131 - بی بی معروفہؒ 132 - بی بی دمنؒ 133 - بی بی حفضہؒ 134 - بی بی حفصہؒ بنت شریں 135 - بی بی غریب نوازؒ (مائی لاڈو) 136 - بی بی یمامہ بتولؒ 137 - بی بی میمونہ حفیظؒ 138 - بی بی مریم فاطمہؒ 139 - امت الحفیظؒ (حفیظ آپا) 140 - شہزادی فاطمہ خانمؒ 141 - بی بی مائی فاطمہؒ 142 - بی بی راستیؒ 143 - بی بی پاک صابرہؒ 144 - بی بی جمال خاتونؒ 145 - بی بی فاطمہ خاتونؒ 146 - کوئل 147 - مائی رابوؒ 148 - زینب پھوپی جیؒ 149 - بی بی میراں ماںؒ 150 - بی بی رانیؒ 151 - بی بی حاجیانیؒ 152 - اماں جیؒ 153 - بی بی حورؒ 154 - مائی حمیدہؒ 155 - لل ماجیؒ 156 - بی بی سائرہؒ 157 - مائی صاحبہؒ 158 - حضرت بی بی پاک دامناںؒ 159 - بی بی الکنزہ تبریزؒ 160 - بی بی عنیزہؒ 161 - بی بی بنت کعبؒ 162 - بی بی ستارہؒ 163 - شمامہ بنت اسدؒ 164 - ملّانی جیؒ 165 - بی بی نور بھریؒ 166 - مائی جنتؒ 167 - بی بی سعیدہؒ 168 - بی بی وردہؒ 169 - بی بی عائشہ علیؒ 170 - بی بی علینہؒ 171 - اُمّ معاذؒ 172 - عرشیہ بنت شمسؒ 173 - آپا جیؒ 174 - حضرت سعیدہ بی بیؒ 175 - طلاق کے مسا ئل
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)