لطیفۂِ نفسی کی حرکت

مکمل کتاب : لوح و قلم

مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2901

جب نیند سے آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلی حرکت پلک جھپکنے کی ہوتی ہے۔ پلک جھپکنے کا عمل باصرہ(نگاہ) کو حرکت دیتا ہے۔ باصرہ یا نگاہ ایسی حالت ہے جو کسی چیز سے واقف ہونے کی تصدیق کرتی ہے، اس طرح کہ وہ چیز فی الوقت موجود ہے یعنی ایک تو کسی چیز کا ذہنی طور پر وُقوف حاصل ہے۔ یہ عمل تو حافظہ سے تعلّق رکھنے والی بات ہے لیکن جب حافظہ اپنی یادداشت کو تازہ کرنا چاہتا ہے یا کوئی بیرونی محسوس حافظہ میں کسی یادداشت کو بیدار کرتا ہے اس وقت باصرہ جو پلک کے مسلسل عمل سے اس وُقوف کے خدّوخال اور شکل وصورت دیکھنے کے لائق ہو چکی ہے۔ اس کے سامنے ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ پلک جھپکنے کا یہ عمل اس ہی وقت شروع ہوتا ہے جب لطیفۂِ نفسی حرکت میں آ چکا ہو۔ لطیفۂِ نفسی کی حرکت کسی چیز کی طرف رجحان پیدا کرنے کی إبتداء کرتی ہے۔ لطیفۂِ نفسی کے متحرّک ہونے پر انسان کی لطیف حِس یعنی نگاہ رجحانِ طبیعت کی إبتداء کرتی ہے۔ آنکھ کھلتے ہی لاشعوری طور پر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سمجھے کہ ارد گرد میں کیا چیزیں موجود ہیں اور ماحول میں کس قسم کے خدّوخال پائے جاتے ہیں۔ وہ ان سب کی معلومات چاہتا ہے اور معلومات اس طرح کی جو مصدّقہ ہوں۔ بغیر اِس کے کہ جب تک انسان کے اپنے احساسات میں کوئی حِس موجود چیزوں کی تصدیق کرنے والی نہ ہو وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ چنانچہ سب سے پہلے اس کی نگاہ یہ کام انجام دیتی ہے۔ آنکھیں بند ہونے کی صورت میں نگاہ کا کام معطّل تھا۔ پلک جھپکنے سے وہ تعطّل ختم ہو گیا اور بصارت کام کرنے لگی۔

قانون:

تخلیط کے قوانین میں سے ایک قانون یہ ہے کہ جب تک آنکھوں کے پردے حرکت نہ کریں اور آنکھوں کے ڈیلوں پر ضرب نہ لگائیں، آنکھ کے اعصاب کام نہیں کرتے۔ ان اعصاب کی حِسیں اُس وقت کام کرتی ہیں جب اُن کے اوپر آنکھ کے پردوں کی ضرب پڑتی ہے۔ اُصول یہ ہوا کہ بند آنکھیں جیسے ہی کھلتی ہیں پہلے دو تین لمحوں کے لئے کھل کر ساکِت ہو جاتی ہیں۔ یہ سُکوت لطیفۂِ اخَفیٰ کی حرکت کو ختم کرتا ہے جس کے بعد فوراً جیسے ہی لطیفۂِ نفسی کی مرکزیّت کو جنبش ہوتی ہے مِیلان، رجحان یا خواہش کی شروعات ہو جاتی ہے مثلاً جاگنے والا اپنے گِردو پیش کو جاننا چاہتا ہے اور اپنے ماحول کو سمجھنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ لطیفۂِ نفسی کی پہلی حرکت ہے۔ اس مِیلان یا خواہش کے بعد اور خواہشات مسلسل اور یکے بعد دیگرے پیدا ہو جاتی ہیں۔ جب تک لطیفۂِ نفسی کی حرکت بند نہ ہو یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور بصارت کی طرح جسمِ انسانی کی تمام حِسیں پیدا شدہ خواہشات کی تائید، تصدیق اور تکمیل میں لگی رہتی ہیں۔ اگر لطیفۂِ نفسی کی روشنی کسی طرف مِیلان کرتی ہے تو انسان کے تمام محسوسات اپنے دروازے اس ہی طرف کھول دیتے ہیں۔ حسّیات میں سب سے زیادہ لطیف حِس بصارت ہے جو سب سے پہلے لطیفۂِ نفسی کی روشنی سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ روشنی انسان کو ابتداءً عالمِ خیال سے رُوشناس کراتی ہے۔ اس عالم میں ذہن دو قسم کے تصوّرات پیش کرتا ہے۔ ایک قسم وہ ہے جو معنوی تصوّرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور دوسری قسم تصویری تصوّرات ہوتے ہیں۔ معنوی تصوّرات سے یہ مراد نہیں ہے کہ ذہنِ انسانی میں کوئی معنی بغیر خدّوخال یا شکل وصورت کے آ سکتے ہیں۔ معانی کی نوعیت چاہے وہ کتنی ہی لطیف ہو شکل وصورت اور خدّوخال پر مبنی ہوتی ہے۔ پہلے پہل جب قوّتِ باصرہ حرکت کرتی ہے تو نگاہ خارج کی چیز کو داخل میں اور داخل کی چیزوں کو خارج میں دیکھتی ہے۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے آئینہ کی مثال دی جا سکتی ہے۔

مثال:

آئینہ کی مثال کی ایک طرز ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ دوسری طرز یہ ہے کہ آئینہ دیکھنے والی نگاہ کو خَیرہ کر لیتا ہے اور اُس کی تمثیل کو جو اُس کے سامنے ہے نگاہ پر مُنکشِف کر دیتا ہے۔
یہ وہ دیکھتا ہے جو داخل سے خارج میں آ کر منظر کی شکل اِختیار کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جب دیکھنے کا عمل خارج سے داخل میں ہوتا ہے تو کوئی ‘‘مُھیِّج’’(جو چیز کسی حِس کے ذریعے ذہنِ انسانی کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اس کو ‘‘مُھیِّج’’ کہتے ہیں) نگاہ کے سامنے آ کر خود نگاہ کو آئینہ کی حیثیت قرار دیتا ہے اور اپنے خدّوخال سے ذہنِ انسانی کو اطّلاع بخشتا ہے۔ جب ان دونوں زاویوں میں نظر ِتحقیق کی جائے تو یہ بات مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ ذہنِ انسانی ہر حالت میں آئینہ کا کام انجام دیتا ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے روحِ انسانی اپنے تصوّرات کو تجسّم کی شکل وصورت میں دیکھتی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ذہنِ انسانی میں اشیاء کی موجودگی کا لامُتناہی سلسلہ قائم رہتا ہے۔ جس ذہن میں اشیاء کی موجودگی کے سلسلے کا قیام ہے وہ ذہن لطیفۂِ نفسی کے انوار کی تخلیق ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامُتناہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ان لامُتناہی روشنیوں کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو ان لامحدود روشنیوں میں مُقیّد تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ روشنیاں مَوجودات کی ہر ایک چیز کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کے احاطے سے باہر کسی وہم، خیال یا تصوّر کا نکل جانا ممکن نہیں۔ تصوّف کی زبان میں روشنیوں کے اس دائرے کو جَویَّہ کہتے ہیں۔ جَویَّہ میں جو کچھ واقع ہوا تھا یا بحالتِ مَوجودہ وقوع میں ہے یا آئندہ واقع ہو گا وہ سب ذاتِ انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔ خارج کے اندر جو کچھ موجود ہے، بیداری میں نگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔ اگر نگاہ کی رسائی وہاں تک نہ ہو تو تصوّرات اس کے ہونے کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ اگر تصوّرات کی دسترس بھی وہاں تک نہ ہو تو خیال معنوی خدّوخال میں اُس کو پیش کر دیتا ہے۔ اگر کوئی چیز خیال کی حدوں سے بھی بالاتر ہے تو وہم کسی نہ کسی طرح اس کی موجودگی کا احساس دلا دیتا ہے۔ قانونی طور پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ جَویَّہ کی روشنیاں ذاتِ انسانی کو لامُتناہی حدوں تک وسیع کر دیتی ہیں۔
صاحبانِ شُہود نے سُلوک کی راہوں میں نگاہ کو ’’جَویَّہ‘‘ کی تمام وسعتوں میں دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ انبیاءؑ کی تعلیمات میں اس کوشش کا پہلا سبق دن رات کے اندر اکیس گھنٹے بیس منٹ جاگ کر پورا کیا جاتا ہے۔
انبیاءؑ کی تعلیمات یعنی تفہیم کا دوسرا سبق تاریکی میں طویل وقفہ تک بغیر پلک جھپکائے نظر جمانا ہے۔ پہلے عمل کو تَلوین اور دوسرے عمل کو اِسترخاء کہتے ہیں۔
حضرت اُویس قرنیؓ کے مکان پر جب ابن ہشام ملنے کے لئے گئے تو انہیں بہتر گھنٹے یعنی تین دن اور تین راتیں انتظار کرنا پڑا۔ مسلسل بہتر گھنٹے نوافل پڑھنے کے بعد حضرت اُویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا کی:
‘‘بارالٰہی! میں زیادہ سونے سے اور زیادہ کھانے سے تیری ہی پناہ مانگتا ہوں۔’’
ایک صوفی اِس طرح مسلسل بیدار رہ کر اپنے اندر شُہود کی قوّتیں بیدار کر لیتا ہے۔ پہلے اس کا مختصر تذکرہ آ چکا ہے کہ انسان میں ایسی صلاحیّتیں پائی جاتی ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنے اَوصاف کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ باصرہ انسان کی ایک حِس ہے۔ یہاں اس کی تخلیق و ترتیب بیان کی جاتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 68 تا 73

لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - انتساب 0.02 - عرضِ احوال 1 - بسمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم 2 - عالمِ رُؤیا سے انسان کا تعلق 3 - رُؤیا کی صلاحیّتوں کے مَدارِج 4 - لوحِ اوّل یا لوحِ محفوظ 5 - لوحِ دوئم 6 - عالمِ جُو 7 - کثرت کا اَجمال 8 - ‘‘جُو’’ کا واسطہ 9 - احساس کی درجہ بندی 10 - وَحدتُ الوُجود اور وَحدتُ الشُہود 11 - روحِ اعظم، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور لطائفِ ستّہ 12 - اسماءِ الٰہیہ 13 - اسماءِ الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے 14 - خواب اور بیداری 15 - لوحِ محفوظ اور مراقبہ 16 - تدلّٰی 17 - کُن فیَکون 18 - علمِ لدُنّی 19 - ہر اسم تین تجلّیوں کا مجموعہ ہے 20 - اسمِ ذات 21 - روح کی مرکزیّتیں اور تحریکات 22 - لطیفۂِ نفسی کی حرکت 23 - باصرہ اور شُہود نفسی 24 - عملِ اِسترخاء 25 - علم ‘‘لا’’ اور علم ‘‘اِلّا’’ 26 - ‘‘لا’’ کا مراقبہ 27 - قوّتِ اَلقاء 28 - سالک مجذوب، مجذوب سالک 29 - نسبت کا بیان 30 - ٹائم اسپیس کا قانون 31 - زمانیت اور مکانیت کا راز 32 - کائنات کی ساخت 33 - نیابت کیا ہے؟ 34 - لوحِ محفوظ کا قانون 35 - اَنا یا انسانی ذہن کی ساخت 36 - علمُ الیقین، عینُ الیقین، حقُ الیقین 37 - تخلیق کا قانون 38 - انبیاء کے مقامات 39 - تخلیق کا فارمولا 40 - ماضی اور مستقبل 41 - زمان و مکان کی حقیقت 42 - اِدراک کیا ہے؟
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)