قرار مکین

مکمل کتاب : نظریٗہ رنگ و نُور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17351

قرآن پاک میں ہے:
’’ہم نے ہر چیز کو معین مقداروں میں پیدا کیا ہے۔‘‘

تفکر کیا جائے تو ساری کائنات میں یہی قانون جاری و ساری ہے۔ ہر چیز ہر نوع اپنی مخصوص معین مقداروں کے ساتھ قائم ہے اور اسے برقرار بھی رکھتی ہے اور نسل در نسل انہی معین مقداروں کو منتقل کرتی رہتی ہے مثلاً بلی کی نسل کتا نہیں ہوتی، بکری کے بطن سے شیر پیدا نہیں ہوتا اور نوع انسانی سے انسان کے علاوہ دوسری کوئی نوع تخلیق نہیں ہوتی۔
قانون یہ بنا کہ ہر نوع اپنی معین مقداروں کی وجہ سے اپنا الگ تشخص رکھتی ہے اور انہی معین مقداروں کی نسل در نسل منتقلی سے ہر نوع کا الگ الگ تشخص قائم رہتا ہے۔

معین مقداریں کیا ہیں؟
معین مقداریں دراصل روشنیاں ہیں جو ایک خاص تناسب سے رد و بدل ہو کر کسی نوع کی تخلیق کرتی ہیں۔ ان تخلیق کرنے والی روشنیوں کو عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے نسمہ مرکب کا نام دیا ہے۔
قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہے:
God said Light and there was Light.
’’اللہ نے کہا روشنی! اور روشنی موجود ہو گئی۔‘‘

کیرلین فوٹو گرافی Kirilian Photography کے ذریعے نسمہ کے روشن عکس کی تصویر کو سائنسدان کیرلن نے Auraکا نام دیا ہے۔

پیراسائیکلوجی کی لامحدود نظر ہمیں بتاتی ہے کہ یہ معین مقداریں کس طرح ڈسپلے کرتی ہیں۔ روشنیوں کی یہ معین مقداریں کہیں الیکٹران، پروٹون اور نیوٹران کی صورت میں اپنا مظاہرہ کر رہی ہیں تو کہیں کروموسومز Chromosomesکی معین تعداد میں فعال اور متحرک ہیں اس بات کو سمجھنے کے لئے کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
کسی بھی عنصر کو اگر دیکھا جائے تو ہر عنصر کا اٹامک نمبرAtomic Number اورAtomic Weight ہوتا ہے۔
یہ اٹامک نمبر کیا ہے؟
یہ کسی عنصر میں موجود الیکٹران یا پروٹون کی تعدادکو ظاہر کرتا ہے یعنی ہر عنصر ایک مخصوص تعداد میں موجود الیکٹران یا پروٹون کا Symbol ہے۔ اگر کسی طریقے سے اس عنصر میں موجود پروٹونز کی تعداد کو تبدیل کر دیا جائے تو یہ عنصر اس کی تبدیلی کے مطابق دوسرے عنصر کی ہیئت اختیار کرے گا۔
نظریۂ رنگ و نور کا شعور ہمیں بتاتا ہے کہ جانداروں میں روشنیوں کی یہ معین مقداریں کروموسومز کی شکل میں اپنا ڈسپلے کرتی ہیں۔
Genetic کا ایک ماہر اس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہوتا ہے کہ ہر نوع کے لئے کروموسومزChromosomes کی علیحدہ اور مخصوص تعداد ہے۔ بلی کے لیے علیحدہ، بکری کے لئے علیحدہ، شیر کے لئے علیحدہ اور انسانوں کے لئے علیحدہ کروموسومز کی تعداد مقرر ہے۔
نوع انسانی میں کروموسومز کے ۲۳ جوڑے(کل ۴۶ کروموسومز) ہوتے ہیں۔ روشنیوں کا مخصوص تناسب یا معین مقداریں دراصل کسی نوع کا تخلیقی فارمولا ہے۔ یہی نوعی فارمولا نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی مخصوص نوع کا اپنا الگ تشخص برقرار رہتا ہے۔
نوعی فارمولا یا Chromosomes کی معین تعداد نسل در نسل کیسے برقرار رہتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تخلیقی عمل کا جائزہ لینا ہو گا۔
انسانی جسم میں ہر وقت خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم جاری رہتی ہے۔ اس تقسیم سے نئے نئے خلیے تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خلیاتی تقسیم دو طرح ہوتی ہے ۔ ماہرین خلیاتی تقسیم کو Motosis اور Meiosis کہتے ہیں۔
Motisis سوائے تولیدی خلیوں کے، انسانی جسم کے تمام خلیوں کا تقسیم ہونا ہے۔ اس طرز تقسیم کی اہمیت یہ ہے کہ نئے بننے والے تمام خلیوں میں کروموسومز کی تعداد وہی رہتی ہے جو کہ پرانے خلیوں میں تھی۔ یعنی پرانے خلیوں میں ۴۶کروموسومز ہیں تو نئے بننے والے خلیات میں بھی ۴۶ کروموسومز ہوں گے۔ لیکن تولیدی نظام میں جہاں تخلیقی خلیے یعنی Sperms(مرد میں) اور Ova(عورت میں) بنتے ہیں، خلوی تحقیف اس طرح ہوتی ہے کہ خلیوں میں کروموسومز کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔
اس کو Meiosis کہا جاتاہے۔
قرآن پاک میں تخلیقی عمل کو بڑے آسان پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

’’اور ہم نے بنایا آدمی کو بجتی مٹی سے۔ پھر ہم نے رکھا اس نطفہ کو قرار مکین(رحم مادر) میں پھر بنایا نطفہ سے علقہ پھر بنایا اس علقہ سے مضغہ پھر بنایا مضغہ سے عظما اور پھر چڑھایا عظما پر لحما پھر اٹھا کر کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں۔ سو بڑی برکت اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا ہے۔‘‘

Spermیعنی نطفہ اور Ovaآپس میں ملے اور ملاپ کے نتیجے میں جو چیز بنی اس کو قرآن حکیم علقہ (Zygote) کا نام دیتا ہے۔ علقہ تقسیم در تقسیم ہو کر مضغہ(Blastocyst) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
علقہ Zygoteبننے کے سات یا آٹھ دن بعد قرار مکین یعنی رحم مادر میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ مضغہ Blastocyst جہاں پر اپنی جگہ بنا لیتا ہے وہاں پر اس کی اور ماں کی شریانوں اور وریدوں کی چھوٹی چھوٹی جالیاں بن جاتی ہیں جو کہ آپس میں بہت قریب ہوتی ہیں۔ اسی رابطہ کے ذریعے بچے کو خوراک ملتی ہے۔ اب مضغہ سے عظما بنا اور اسی عظما پر گوشت چڑھا یعنی ابتدائی شکل میں بچہ (Embryo) وجود میں آ گیا۔ پھر اس Embryo سے مکمل بچہ بن گیا۔ یہ سارا تخلیقی عمل رحم مادر میں ہوتا ہے۔
بچہ لڑکا یا لڑکی ہوتا ہے، اگر نسمہ مرکب میں کام کرنے والی روشنیوں کی DENSITY کم ہے تو لڑکی پیدا ہوگی اور اگر روشنیوں کی DENSITY زیادہ ہے۔

www.iseek.online

تو لڑکا پیدا ہوگا۔ اس بات کو واضح طور پر سمجھنے کے لئے ہم پھر کروموسومز کی طرف آتے ہیں۔
نوع انسانی میں موجود کروموسومز کے ۲۳ جوڑوں میں ۲۳ وان جوڑا Sex Chromosomes کہلاتا ہےاور یہ مذکر اور مونث میں مختلف ہوتا ہے۔ مذکر میں یہ XYکی شکل میں ہوتا ہے اور مونث میں یہ XX کی شکل میں ہوتا ہے۔
اگر معین مقداروں کے پروسس سے تخلیقی عمل میں روشنیوں کی ڈینسٹی زیادہ ہوجائے تو X اور Y کروموسومز آپس میں مل جاتے ہیں۔ اس عمل سے مذکر جنس کی تخلیق ہوتی ہے (Y کروموسومز میں کام کرنے والی روشنیوں کی DENSITY زیادہ ہوتی ہے )۔ اگر روشنیوں کی DENSITY کم ہے یعنی روشنیوں میں لطافت زیادہ ہے تو X اور X کروموسومز کے ملنے سے مونث جنس کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔
تخلیقی لحاظ سے عورتوں میں نیلا رنگ غالب ہوتا ہے اور مردوں میں گلابی رنگ غالب ہوتا ہے۔
کروموسومز کے Structure پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ یہ جوڑوں Pairs کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر جوڑے کا ایک بازو ماں کی طرف سے اور دوسرا باپ کی طرف سے ہوتا ہے۔ کروموسومز پروٹین Protein اور DNAسے مل کر بنا ہے۔ DNAکی اکائی کو Geneکہا جاتا ہے۔ جین ہی کے ذریعے ماں باپ کا شعور اور عادات و اطوار بچے کو منتقل ہوتے ہیں۔ ماحول سے بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ بھی اسی جین میں Storeہوتا ہے۔ وراثتی بیماریاں، خیالات و تصورات، صلاحیتیں، شکل و شباہت، بلڈ گروپ Blood Group ، رنگ و روپ، خاندانی اقدار سب کچھ جین Geneمیں ریکارڈ کی صورت میں موجود ہے۔ مادی طور پر دیکھا جائے تو جین دراصل نوعی ریکارڈ ہے۔
بچہ کا آدھا شعور والدین سے بنتا ہے اور آدھا شعور ماحول سے بنتا ہے۔ نسمہ پہلے خیال قبول کرتا ہے پھر یہ خیال جینGene تک پہنچتا ہے اور یہی جین Cell کو ہدایات دیتا ہے اور خیال کو عملی جامعہ پہنا دیتا ہے۔ ساری زندگیGene کی انہی ہدایات پر عمل درآمد ہوتا رہتا ہے۔
دوران حمل کس طرح ماں کے تصورات بچے کی جین Gene پر اثر انداز ہوتے ہیں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً دوران حمل اگر ماں پریشان ہے، بے سکون ہے تو بچہ دماغی طور پر کمزور ہوتا ہے۔
مثال:
ایک انگریز ماں کے بطن سے ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے نقش و نگار اور رنگ حبشی نژاد بچوں کی طرح تھے۔ موٹا ناک نقشہ، گھونگھریالے بال، سیاہ رنگ، چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط اعصاب، بچہ کی پیدائش کے بعد باپ نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ بچہ اس کا ہے۔ جب معاملہ بہت زیادہ الجھ گیا اور تحقیق و تفتیش اپنی انتہا کو پہنچی تو یہ راز کھلا کہ ماں حمل کے زمانے میں جس کمرے میں رہتی تھی، وہاں دیوار پر ایک حبشی بچے کا فوٹو آویزاں تھا۔ بڑے بڑے نفسیات داں، دانش وروں اور ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا اور باہمی صلاح و مشورے اور افہام و تفہیم سے یہ بات طے پائی کہ جس کمرے میں ایک حبشی بچے کا فوٹو لگا ہوا تھا اور عورت حمل کے زمانے میں بچے سے فطری اور طبعی طور پر قریب رہی اور بار بار حبشی بچے کو دیکھتی رہی تھی۔ دیکھنے میں اتنی گہرائی پیدا ہو گئی کہ اس کی فیلنگ (Feeling)پیٹ میں موجود بچے میں منتقل ہو گئی۔
دوسرا تجربہ یہ کیا گیا کہ دوسری بار جب وہ امید سے ہوئی تو وہاں ایک خوبصورت انگریز بچے کا فوٹو آویزاں کیا گیا اور تجرباتی طور پر ماں کو ہدایت کی گئی کہ اس فوٹو کو زیادہ سے زیادہ دیکھا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش تقریباً وہی تھے جو دیوار پر لگے ہوئے فوٹو کے تھے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 198 تا 206

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)