فرشتے کے پر سنہری تھے

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17789

دراصل میرے صرف دل پر پہرے بٹھا دیے گئے تھے لیکن میری عقل آزاد تھی اور جو بات بھی میری عقل میں نہ آتی وہ میں فرشتوں سے پوچھتی اور وہ کبھی نرمی سے اور کبھی سختی سے سمجھا دیتے اور اسی دوران میں ہمیشہ یہ دیکھتی کہ ایک بڑا سا دربار لگا ہے سامنے اللہ تعالیٰ ایک کرسی پر جلوہ افروز ہیں اور میری روح ایک حسین عورت کے روپ میں ان کے سامنے فرش پر دوزانوں بیٹھی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سوال و جواب جاری ہے۔ یہ سوال و جواب فرشتے بھی مجھے سناتے جاتے تھے جو میں پھر لکھوں گی۔ میں دیکھتی کہ میری عقل ایک نہایت چالاک عورت کے روپ میں ایک طرف ہاتھ باندھے کھڑی ہے اور میں یہ دیکھ کر سخت حیران ہوتی کہ وہ عقل اللہ تعالیٰ سے بے جھجک سوالات کیے جاتی اور بحث کرتی کئی باتوں پر تو وہ سچ ہوتی اور کئی باتوں پر اسے درست کیا جاتا۔

میری روح نہایت عاجزی سے مسکین صورت بنائے ادب کے ساتھ دوزانوں ہو کر بیٹھی اور وہ ہر بات پر اللہ کا شکر ادا کرتی اور سجدہ بجا لاتی۔ اسی طرح فرشتوں کے پہرے کے تیسرے دن میں بہت رنجیدہ ہوئی کہ اس طرح کیسے زندگی گزرے گی کہ فرشتے میرے دل میں بیٹھے مجھے حکم دیتے رہے اور چونکہ وہ سب رعب سے اور ڈانٹ کر حکم دیتے ہیں کہ میں پریشان ہو جاتی ہوں، میں نے دعا کی کہ پہرے ہٹا دیئے جائیں۔ اب میں سمجھ گئی ہوں کہ زندگی کے ضروری کام خوش اسلوبی کے ساتھ کس طرح انجام دیتے ہیں۔ آخر کہیں جا کر چوتھے دن (اگر غلطی ہو تو اللہ معاف فرمائے اس طرح مسلسل یہ باتیں دن رات مجھ پر بیتیں کہ مجھے شک ہے کہ دنوں کی غلطی نہ ہو، مجھے تو چوتھا دن ہی یاد پڑتا ہے) صبح دس گیارہ بجے ہوں گے میں سنک (SINK)میں کپڑے دھو رہی تھی کہ میں نے دیکھا ( اور میں یہ سب چیزیں کام کاج کرتے ہوئے ہی دیکھتی رہتی تھی) ۔ ہاں تو میں نے دیکھاکہ اوپرآسمانوں میں میری روح ایک حسین عورت کے روپ میں جنت کے باغوں میں بیٹھی کوئی شربت پی رہی ہے اور خاندان کی دوسری خواتین نانی ، پرنانی اور دوسری بہت سی  عورتیں ہیں انہوں نے ہی میرے آنے کی خوشی میں یہ دعوت دی ہے اور سب لوگ خوب خوش ہیں، باتیں کر رہی ہیں اور قہقہے بھی لگا رہی ہیں، اسی لمحے میں نے دل میں اپنی روح سے کہا اچھا تو یہ ٹھاٹھ ہے، میں یہاں اتنی پریشان ہوں اور تم وہاں یہ عیشں کر رہی ہو، مگر اس نے ایک نگاہِ غلط انداز مجھ پر ڈالی اور پھر سے باتوں میں مشغول ہو گئی۔

پھر اسی دوپہر کو میں نے نماز میں سجدہ کیا تو جھکتے وقت اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے سامنے سے آیا اور میرے دل میں سما گیاپھر سارے جسم میں سما گیا اسی لمحے مجھے آواز آئی (اذا جا نصر من اللہ و فتح قریب)۔ مجھے لگا کہ جیسے کہ میری روح ہے جو مسلسل تین چار دن سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں تھی اور اب واپس میرے جسم میں سما گئی ہے۔ تین چار دن کے بعد میں پہلی مرتبہ مسکرائی اور انجانی سی خوشی محسوس ہوئی۔ میں نے اس سے شکایتاً کہا کہ تو تو اتنی مسرور آئی ہو اور میں تیرے لئے کب سے پریشان تھی کہ خدا جانے وہاں کیا ہو، کیا کیا پوچھا جائے اور تو کیا جواب دے۔ پھر میں نےاس کا شکریہ ادا کیا۔ اسی شام بڑے بھائی جان مرحوم کی آواز آئی کہ پریشان نہ ہو، تم بڑی خوش قسمت ہو اور پھر اسی شام میرے دل پر سے پہرے اٹھا دیئے گے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اب جا رہے ہیں ۔ وہ میرے دل سے اڑا شاید وہ ایک ہی تھا یا شاید زیادہ ہوں مگر مجھے ایک ہی فرشتہ اڑنے کا احساس ہوا، اس کے سنہری پر تھے، اس نے کہا، اچھا اب ہم جا رہے ہیں لیکن اگر ضرورت پڑی تو وقتاً فوقتاً ہم تمہارے پاس آتے رہیں گے، خوش رہو، اللہ کی سلامتی ہو تم پر۔

یہ کہہ کر وہ ادب سے جھکا اور اڑ گیا۔ آسمان کی طرف میں انہیں کھلی آنکھوں سے دیکھتی رہی، وہ مڑ مڑ کر مجھے دیکھتا جاتا تھا ، میں برابر ہاتھ ہلا ہلا کر کہتی جارہی تھی سلامتی ہو اے فرشتو تم پر ، سلامتی ہو اے فرشتو تم پر۔

پھر آسمان ذرا سا کھلا اور وہ اس میں داخل ہو گیا۔ آسمان کے اندر بڑے بھائی جان، نانی وغیرہ وغیرہ اس کے منتظر تھے اور وہ سب مضطرب سے تھے، وہ سب مجھے اسی کھلے آسمان کی کھڑکی سے جھانکنے لگے اور پھر آسمان بند ہو گیا اور مجھے محسوس ہوا کہ نانی ، پرنانی، بھائی جان وغیرہ سب مطمئن اور خوش ہیں۔

پھر اس کے بعد (فرشتوں یا فرشتے کے جانے کے بعد) تھوڑے تھوڑے وقفے سے دن کو بھی اور رات کو بھی دہشت طاری ہو جاتی۔ میری پیشانی پر سوئیاں سی چبھنے لگتیں اور مجھے سخت روحانی تکلیف محسوس ہوتی۔ احساس ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین ہستی مجھ سے قریب تر ہو گئی ہے۔ میری روح ان سے باتیں کرتی اور وہ مجھے سب کچھ بتاتے جاتے۔ غیب کا علم ، قیامت کا علم وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبروں ، ولیوں، نبیوں  نے بتائی ہیں مگر اب دنیا ان کو بھولتی جارہی ہے۔ آواز کی ہیبت سے میں بہت زیادہ ڈر جاتی، ایسا لگتا کہ کہیں ڈر کے مارے میرا دم ہی نہ نکل جائے یا میں پاگل ہی نہ ہو جاؤں، پھر مجھ میں عجیب سی ہمت آ جاتی  اور میں عاجزی کے ساتھ رحم کی درخواست کرتی پھر وہ نرم لہجے میں بولتے اور کہتے ” اچھی خاتون”۔۔۔۔ نماز میں کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا کوئی مجھے چوم رہا ہے، میں نماز بھول جاتی اور تکلیف سے کہتی مجھے چھوڑ دو ورنہ میرا دم گھٹ جائے گا، میری اتنی قربت برداشت نہیں کر سکتی اور وہ مسکرا کر مجھے اپنے قریب ہی نیچے چھوڑ دیتے تب میں نماز پوری کرتی۔ کبھی کبھی آخیر نماز میں دعا مانگتے مانگتے مجھ پر یہ کیفیت طاری ہو جاتی، مجھے ایسا لگتا اللہ میاں مجھے پکڑنے والے ہیں میری پیشانی میں سوئیاں سی گڑتیں ۔ وہ کہتے کہ ڈرو مت، دل پر نقش کرنے کا یہ ایک طریقہ ہے۔ ہم لازوال اور رحیم و کریم ہیں۔ تم ایک اچھی لڑکی ہو ، ہمیں تم سے محبت ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ ہم سب عورتیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی لاج ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ گناؤں سے بچیں، سب کے دل میں خدا کا خوف پیدا کریں۔ نماز کی پابندی کریں۔

سنو اور غور سے سنو کہ قیامت بہت قریب ہے۔ اس کی نشانیاں یہ ہیں کہ انسان خلاء میں تصرف حاصل  کرنے کی کوشش کرے گا  لیکن اس کا ذہن تخریب سے آلودہ  ہو گا۔ وہ بہت جلد وہان پہنچ جائے گا۔ پھر موت کو اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کرے گا لیکن قیامت آ جائے گی۔ مریخ اور زہرہ میں انسان بستے ہیں جن کی عقلیں اور سر بڑے بڑے ہیں۔ مجھے ان کی جھلک دکھائی گئی۔

پھر حضرت اسرافیل آکر صور پھونکیں گے اور وہ بس ایک کڑکتی آواز ہو گی۔ اس وقت تمام آسمانی بلائیں دنیا پر آ پڑیں گی۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ ہر جاندار و بے جان چیز تباہ ہو جائے گی۔ لق و دق صحرا، نہ یہ مکان رہیں گے، نہ یہ دولتیں۔ سب  خاک میں مل جائیں گے۔ یہ ہے دنیا کا انجام۔

ایک دوسرے کی مدد کرو۔ ایک دوسرے کیلئے قربانی دو۔ اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھو۔ اللہ تعالے فرماتے ہیں کہ اگر  تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو پہلے میرے بندوں سے محبت کرو۔ انسان کا فرض ہے کہ ہر وہ کام کرے جس میں بنی نوع آدم کی بھلائی ہو۔ اگر اس میں کسی قسم کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔

مجھے بتایا گیا کہ اناج کی بہت قدر کرنا چاہئے۔ میں نے دیکھا کہ آسمانوں پر اناج کا ایک بڑا ڈھیر لگا ہے جو زمین والوں نے ضائع کر دیا۔ جب انسان سے کھانے پینے کی کوئی چیز ضائع ہو جاتی ہے یعنی انسان اسے پھینک دیتے ہیں تو فرشتے سب عزت کے ساتھ اسے اٹھا کر آسمان پر لے جاکر رکھ دیتے ہیں اور حسرت سے کہتے ہیں کہ اس سے دنیا کے کتنے بھوکوں کے پیٹ بھر سکتے تھے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 106 تا 111

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)