عرب کا جغرافیائی پسِ منظر

مکمل کتاب : باران رحمت

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12673

عرب کی وجہ تسمیہ

عرب کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف رائے ہیں۔

۱۔ اہل لغت بتا تے ہیں کہ عرب اور اعراب کے معنی فصاحت اور زبان آوری کے ہیں۔چونکہ اہل عرب اپنی زبان آوری کے سامنے دنیا کی دیگر زبانوں کو کمتر سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو ’’عرب‘‘اور دنیا کی تمام قوموں کو عجم کہہ کر پکارا۔

۲۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ عرب اصل میں عربۃتھا۔قدیم اشعار میں عرب کی بجائے عربۃ آیا ہے ۔عربۃ کے معنی سامی زبانوں میں دشت اور صحرا کے ہیں۔چونکہ عرب کا بڑا حصہ دشت وصحرا ہے اسلئے تمام ملک کو عرب کہنے لگے۔

زمین کی ناف

جغرافیائی اعتبارسے عرب ایک جزیرہ نما ہے۔ جسکے تین اطراف پانی ہے اور ایک طرف خشکی ہے۔ مغرب میں بحیرہ قلزم آبنائے سویز اور بحیرہ روم ہیں۔ مشرق میں خلیج فارس اور بحر عمان ہیں۔ جنوب میں بحر ہند ہے اور شمال میں عراق اور شام ہیں۔

عرب محل وقوع کے اعتبار سے دنیا کے وسط میں واقع ہے۔ براعظم یورپ، براعظم افریقہ اور براعظم ایشیا کے فاصلے یہاں سے برابر ہیں اسی وجہ سے مکہ کو ناف زمین کہا جاتا ہے۔

طبعی حالت

عرب میں کوئی دریا نہیں ہے۔ پہاڑوں سے چشمے جاری رہتے ہیں یہ چشمے پھیل کر تھوڑی دور تک مصنوعی دریا بن جاتے ہیں پھرریگستان میں جذب ہوجاتے ہیں یا سمندروں میں گرجاتے ہیں۔ عرب میں کچھ وادیاں بھی ہیں۔ عرب کا وہ حصہ جو ساحل سمندر کے قریب ہے سرسبز و شاداب اور زرخیز ہے۔ عرب میں سونے اور چاندی کی کانیں بکثرت ہیں۔ قریش کی تجارت کا دارو مدار چاندی کی تجارت پر تھا۔ پیٹرول بکثرت ہے جس نے سعودی عرب کو دنیا کا امیر ترین ملک بنا دیا ہے۔

آب و ہوا

محل و قوع کے اعتبار سے ہر مقام کی آب و ہوا مختلف ہے لیکن عموماً ’’گرم خشک‘‘ ہے۔ عرب کا شمار دنیا کے گرم و خشک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ گرمی اتنی شدید ہوتی ہے کہ بعض اوقات برداشت سے باہر ہوجاتی ہے۔ بارش بہت کم ہوتی ہے۔ برسات کے موسم میں کبھی کبھار بارش ہوتی ہے۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں کم ہوتی ہیں۔ زیادہ تر غذائی اجناس باہر کے ممالک سے آتی ہیں۔ یہاں کا مشہور پھل کھجور ہے۔

عرب کی علاقائی تقسیم

علاقائی لحاظ سے عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ حجاز       ۲۔ نجد      ۳۔ یمن           ۴۔ تہامہ

۵۔ العروض

۱۔ حجاز…… عرب کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کا کل رقبہ ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔ حجاز میں اکثر حصہ ریگستان اور صحرا پر مشتمل ہے۔ اس کے مشہور شہر مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور طائف ہیں۔

۲۔ نجد…… اس کے معنی بلند کے ہیں۔ یہ صوبہ عرب کے درمیان میں واقع ہے۔ یہاں پہاڑ اور وادیوں کا سلسلہ ہے۔ یہ صوبہ تیل کے چشموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ریاض اس کا صدر مقام ہے۔

۳۔ یمن…… اس صوبہ کا کل رقبہ پچھتّر ہزار مربع میل ہے۔ یہ صوبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس علاقہ میں گندم جو اور باجرہ پیدا ہوتا ہے۔

۴۔ تہامہ…… تہامہ کے معنی ساحلی علاقہ کے ہیں یہ حجاز کے جنوب میں واقع ہے۔ نشیبی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ میدانوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ گرمی کی انتہائی شدت ہے۔

۵۔ العروض …… یہ علاقہ یمامہ ، عمان اور بحرین پر مشتمل ہے۔

یمامہ…… نجد اور یمن کے درمیانی علاقہ کو یمامہ کہتے ہیں۔

عمان…… یہ صوبہ عرب کے مشرق میں ہے۔ اس کا رقبہ بیاسی ہزارکلومیٹرہے۔ یہاں کی خاص پیدا وار کھجور ہے اس کا صدر مقام مسقط ہے۔

بحرین…… بحرین کو الاحساء بھی کہتے ہیں۔ یہ عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ہے۔ اس کے بعض حصوں میں نہروں سے آبپاشی ہوتی ہے۔ کہیں کہیں چونے کا پتھر بھی ملتا ہے دہران میں تیل کے چشمے ہیں۔

عرب قبائل

عرب میں قبائلی نظام رائج تھا۔ ہرقبیلے کا ایک سردار ہوتا تھا جو شیخ کہلاتا تھا۔ قبیلے کے لوگ سردار کا چناؤکرتے تھے۔ قبائلی تعصب بہت زیادہ تھا۔ ان قبائل میں ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا ہوجاتا تھا اور جنگ کی صورت اختیار کرلیتا تھا۔ اگر دو قبیلوں میں لڑائی شروع ہوجاتی تو وہ کئی نسلوں تک جاری رہتی تھی۔ اسی طرح ایک دفعہ گھوڑے دوڑانے پر بنو عبس اور بنو ذبیان کے درمیان جھگڑا ہوا۔ دونوں قبیلے کئی برسوں تک آپس میں لڑتے رہے۔

عرب کے دو بڑے قبیلے تھے:        ۱۔ قبیلہ عدنان       ۲۔ قبیلہ قحطان

۱۔ قبیلہ عدنان

یہ قبیلہ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے تھا۔ ان کے مشہور سردار کا نام مضر تھا۔ اسی نسبت سے یہ مضرمی بھی کہلاتے ہیں۔ ان کے دیگر قبائل ، بنی بکر۔ بنی قیس۔ بنی تمیم۔ بنی تغلب اور بنو قریش وغیرہ ہیں۔ ان تمام قبائل میں قبیلہ قریش خانہ کعبہ کا متولی ہونے کی بنا پر سب سے زیادہ معزز سمجھا جاتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے ہے۔

۲۔ قبیلہ قحطان

یہ لوگ قحطان کی اولاد میں سے تھے۔ ان کا اصلی وطن یمن تھا۔ اسی نسبت سے یمنی کہلائے۔ یہ عدنانی عربوں کی نسبت متمدن تھے۔ ان کی سلطنتیں غسان اور حیرہ تھیں۔ اس خاندان میں ایک مشہور بادشاہ تھا۔ جسے سرخ لباس پہننے کی وجہ سے ’’حمیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے قبیلہ بنی قحطان حمیری بھی کہلائے، ان کا قبیلہ بنو خزاعہ مکہ میں آباد تھا۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج بھی اسی قبیلہ سے تھے۔

اہل عرب کی خصوصیات

عربوں کی سخاوت مشہور ہے ۔اگر قحط سالی کے ایام میں بھی ان کے پاس مہمان آجاتے تو اپنی سواری کا جانور ذبح کر دیتے ۔جو شخص ان کی پناہ میں آجاتا اس کی پوری حفاظت کرتے۔بہادر اور ذہین تھے۔اگرچہ وہ لکھنے پڑھنے سے عاری تھے لیکن اپنی یاداشت کے بل بوتے پر انہوں نے اپنی جنگوں اور دیگر اہم واقعات کی تفصیلات کو محفوظ رکھا ۔وہ صرف اپنے سلسلہ نسب سے ہی پوری طرح باخبر نہ تھے بلکہ اپنے گھوڑوں کے نام اور ان کے نسب ناموں کو بھی پوری طرح جانتے تھے ۔عربوں کی دانشمندی دنیا میں مشہور تھی۔

شعر و شاعری سے ان کو خاص دلچسپی تھی ۔یہ شاعروں کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنے شاعر پر فخر کرتا تھا۔عکاظ کے میلوں میں شاعراپنا کلام سنایا کرتے تھے۔ ان کی شاعری کے خاص موضوعات بزرگوں کی تعریف،عشق و محبت اور جنگوں میں بہادری کے کارنامے ہوتے تھے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 34

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)