صلوٰۃ کا مفہوم

مکمل کتاب : صدائے جرس

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18336

صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے جس میں اللہ کی بڑائی، تعظیم اور اس کی ربوبیت و حاکمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، صلوٰۃ ہر پیغمبر اور اس کی امت پر فرض کی گئی ہے۔ صلوٰۃ قائم کر کے بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔ صلوٰۃ فواحشات اور منکرات سے روکتی ہے۔ صلوٰۃ دراصل اللہ کے لئے ذہنی مرکزیت کے حصول کا یقینی ذریعہ ہے۔ صلوٰۃ میں ذہنی یکسوئی (Concentration) حاصل ہو جاتی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ زمین پر آباد کیا تو اس کی غرض یہ بیان کی۔

’’اے ہمارے پروردگار! تا کہ وہ صلوٰۃ (آپ کے ساتھ تعلق اور رابطہ) قائم کریں۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ نے اپنی نسل کے لئے یہ دعا کی:

’’اے میرے پروردگار! مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو صلوٰۃ (رابطہ) قائم کرنے والا بنا۔‘‘

’’حضرت اسماعیلؑ اپنے اہل و عیال کو صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘

(سورۃ مریم آیت۔۵۵)

حضرت لوطؑ ، حضرت اسحٰقؑ ، حضرت یعقوبؑ اور ان کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

’’اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور صلوٰۃ قائم کرنے کی وحی کی۔‘‘

(سورۃ انبیاء۔ ۷۳)

حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی:

’’اے میرے بیٹے صلوٰۃ قائم کر۔‘‘

(سورۃ لقمان۔ ۱۷)

اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا:

’’اور میری یاد کیلئے صلوٰۃ قائم کر (یعنی میری طرف ذہنی یکسوئی کے ساتھ متوجہ رہ)۔‘‘

(سورۃ طہٰ۔۱۴)

حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ کو اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو اللہ نے حکم دیا:

’’اور اللہ نے صلوٰۃ کا حکم دیا ہے۔‘‘

(سورہ مریم۔ ۳۱)

آخری آسمانی کتاب قرآن میں بتایا گیا ہے کہ عرب میں یہود اور عیسائی قائم صلوٰۃ تھے۔

ترجمہ:’’اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راتوں کو کھڑے ہو کر اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ (الہ کے ساتھ سپردگی) کرتے ہیں۔‘‘

(آل عمران۔ ۱۱۳)

’’اور وہ لوگ جو حکم پکڑتے ہیں کتاب (اللہ کے بنائے پروگرام اور آسمانی قانون) کو اور قائم رکھتے ہیں صلوٰۃ، ہم ضائع نہیں کرتے اجر نیکی کرنے والوں کے۔‘‘

(اوراف۔ ۱۲۰)

بندہ جب اللہ سے اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے تو اس کے دماغ میں وہ دروازہ کھل جاتا ہے جس سے وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر وہاں کے حالات سے واقف ہو جاتا ہے۔

صلوٰۃ کے معنی، مفہوم اور نماز کے اعمال پر تفکر کرنے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صلوٰۃ دراصل ذہنی صلاحیت (Concentration) کو بحال کر دیتی ہے۔ انسان ذہنی یکسوئی کے ساتھ شعوری کیفیات سے نکل کر لاشعوری کیفیات میں داخل ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بندہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر، شعوری دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا غیب کی دنیا سے آشنا ہو جائے۔

صلوٰۃ (نماز) میں یکسوئی حاصل کرنے اور اللہ سے تعلق قائم کرنے اور اللہ کے سامنے سجدۂ حضوری کرنے کے لئے یہ مراقبہ کرایا جاتا ہے۔

صلوٰۃ قائم کرنے سے پہلے آرام دہ نشست میں قبلہ رخ بیٹھ کر تین مرتبہ درود شریف، تین بار کلمہ شہادت پڑھ کر آنکھیں بند کر لیں۔

ایک منٹ سے تین منٹ تک یہ تصور قائم کریں۔

’’عرش پر اللہ تعالیٰ موجود ہیں، تجلیات کا نزول ہو رہا ہے اور میں عرش کے نیچے ہوں۔‘‘

اس کے بعد کھڑے ہو کر صلوٰۃ قائم کریں۔

مراقبہ کی طرح آدمی جب گرد و پیش سے بے خبر ہو کر نماز میں یکسوئی حاصل کر لیتا ہے تو یہی قیام صلوٰۃ کا مراقبہ ہے۔

قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور ان حقائق و معارف کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے بوسیلہ حضرت جبرائیلؑ ، آنحضرتﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمائے۔ قرآن مجید کا ہر لفظ انوار و تجلیات کا ذخیرہ ہے۔ بظاہر مضامین غیب عربی الفاظ میں سامنے ہیں لیکن ان الفاظ کے پیچھے نوری تمثیلات اور معانی کی وسیع دنیا موجود ہے۔ تصوف اور روحانیت میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ روح کی آنکھ سے الفاظ کے نوری تمثلات کا مشاہدہ حاصل کیا جائے تا کہ قرآن پاک اپنی پوری جامعیت اور معنویت کے ساتھ روشن ہو جائے۔ قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ موجود ہے اور اسے حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے، چاہے نماز میں، تہجد کے نوافل میں یا صرف تلاوت کے وقت، آدمی یہ تصور کرے کہ اللہ اس کلام کے ذریعے سے مجھ سے مخاطب ہیں اور میں اسی کی معرفت اس کلام کو سن رہا ہوں۔ اس تلاوت کے وقت وہ یہ خیال قائم رکھے کہ رحمت الٰہی الفاظ کے نوری تمثیلات اس پر منکشف کر رہی ہے۔

جب آدمی اس ذہنی توجہ (مراقبہ) کے ساتھ تلاوت کلام اللہ کرتا ہے تو اس نسبت میں انہماک ہوتا ہے جس نسبت سے قرآن مجید کا نزول ہوا ہے۔ نسبت کے بار بار دور کرنے سے آدمی کا قلب ملاء اعلیٰ سے ایک ربط پیدا کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ قرآن مجید پڑھتا ہے تو جس قدر اس کے قلب کا آئینہ صاف ہوتا ہے اسی مناسبت سے معافی و مفاہیم کی نورانی دنیا اس کے اوپر ظاہر ہونے لگتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 106 تا 108

صدائے جرس کے مضامین :

انتساب عرضِ ناشر! 1 - حیات و موت 2 - تصوف 3 - اللہ کی رسی 4 - حکمرانی 5 - نفی 6 - آنکھیں 7 - حضرت مریمؑ 8 - محبوب بغل میں 9 - دولت پرستی 10 - مالک الملک 11 - اشرف المخلوقات 12 - دل کی باتیں 13 - طرز فکر 14 - روپ بہروپ 15 - مساجد 16 - لیلۃ القدر 17 - حوا 18 - زمین کی پکار 19 - نورانی پیکر 20 - روشنی قید نہیں ہوتی 21 - اے واعظو! اے منبر نژینو! 22 - علم و عمل 23 - روحانیت 24 - اسوۂ حسنہ 25 - اولیاء اللہ کی طرز فکر 26 - ایثار کی تمثیلات 27 - درخت زندگی ہیں 28 - صلوٰۃ کا مفہوم 29 - پانی کی فطرت 30 - مخلوقات 31 - شک 32 - خود آگاہی 33 - روشن چراغ 34 - کہکشاں 35 - ماضی 36 - عقل و شعور 37 - بارش 38 - احسن الخالقین 39 - نو کروڑ میل 40 - پیغمبرانہ طرز فکر 41 - رزاق 42 - خیالات 43 - عروج و زوال 44 - مخلوق کی خدمت 45 - معجزہ 46 - بغدادی قاعدہ 47 - سوچ 48 - شق القمر 49 - اندر کی آنکھ 50 - سچا مذہب 51 - دو یونٹ 52 - شعور لا شعور 53 - توانائی 54 - سلطان 55 - وجدانی دماغ 56 - حاتم طائی 57 - احسن تقویم 58 - عامل اور معمول 59 - گھر گھر دستک 60 - پرندے 61 - بجلی آگئی 62 - روٹی 63 - اللہ کا نظام 64 - ایٹم بم 65 - دائرہ اور مثلث 66 - دنیا کی کہانی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)