سیشن برائے رُوحانی سوال و جواب

مکمل کتاب : خطباتِ لاہور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25537

مرشدِ کریم حضور خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے ساتھ سلسلۂِ عظیمیہ کے دوستوں نے مختلف اوقات میں، مختلف مقامات پر لاہور کے اَندر، ذاتی اور اجتماعی نشست و برخاست میں رُوحانیت کے عمیق موضوع پر اپنی فکر کو وسعت دینے کیلئے اور مرشدِ کریم کی طرزِ فکر کو اختیار کرنے کیلئے، سوالات کئے جن کے جوابات مرشدِ کریم نے اپنے مخصوص اندز میں دئیے۔ نوع ِ انسانی کیلئے مرشدِ کریم کے عمل کا یہ ورثہ، اس کی بھلائی کیلئے عام کیا جا رہا ہے۔ قارئین کیلئے یہ سوالات اور جوابات دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ یہ تمام سوالات سلسلے کے بہن بھائیوں نے مراقبہ ہال لاہور کے زیرِ اہتمام مختلف مقامات پر کئے جن میں جامعہ عظیمیہ و مراقبہ ہال کاہنہ نَو لاہور، مراقبہ ہال برائے خواتین سمن آباد، مراقبہ ہال مزنگ اور کچھ نجی تقریبات شامل ہیں۔ یہ سوالات ۱۹۹۵ء  سے لیکر ۲۰۰۲ء تک کے عرصہ پر مشتمل تھے مگر کانٹ چھانٹ کر کے ان میں سے کچھ اہم سوالات اور ان کے جوابات آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین!

 

سوال: سلسلۂِ عظیمیہؔ کے بنیادی ڈھانچہ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں؟

 

جواب:

دنیا میں تقریباًدو سو سلاسل مَوجود ہیں۔ ہر خطے میں ہر ملک میں کوئی نہ کوئی سلسلہ مشہور رہا ہے۔ برِّصغیر پاک و ہند میں چار سلسلے زیادہ مشہور ہیں۔

سلسلے سے مراد یہ ہے کہ:

  • ماورائی علوم کو ترتیب و تدوین کے ساتھ بیان کرنا، اور
  • بندے کا اللہ سے تعارف حاصل کرنا ہے….

دنیا میں جس طرح اور بے شمار سلاسل مَوجود ہیں اسی طرح ایک سلسلہ، سلسلۂِ عظیمیہ ہے۔

سلسلۂِ عظیمیہ کی جو تعلیمات ہیں وہ ان چاروں سلاسل کے عین مطابق ہیں۔ سلسلۂِ عظیمیہؔ کی تعلیمات کو مَوجودہ سائنس کی توجیہات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ بہت ساری باتیں ہیں کہ جو اگر اب سے پچاس سال پہلے کہہ دی جاتی تھیں تو شعور پر وزن پڑتا تھا۔ سائنس میں نئی نئی ایجادات اور نئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آنے سے اور فاصلے کم سے کم ہونے سے انسانی شعور میں بیداری پیدا ہوئی۔ شعور میں بیداری پیدا ہونے سے ذہنوں میں وسعت آئی ہے۔ جب شروع میں پتہ چلا کہ ٹیلی فون ایجاد ہوگا تو لوگوں نے مذاق اڑایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ پھر ٹیلی فون بن گیا۔ اس کے بعد ریڈیو آیا لوگوں نے اس کا بھی مذاق اڑایا مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے شعور میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ وہ آنے والی ٹیکنالوجی کو قبول کر سکیں۔ پھر پتہ چلا کہ T.Vآئے گا اور وہ فلاں فلاں کام کرے گا۔ جتنی مخالفت ریڈیو اور ٹیلی فون کی ہوئی اتنی ٹی وی کی نہیں ہوئی کیونکہ لوگوں کے شعور میں یہ سکت آگئی تھی کہ وہ ٹی وی کو قبول کر سکیں۔ اس کے بعد کمپیوٹر آ گیا کمپیوٹر نے ڈاک کے نظام کو نہایت آسان کر دیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں جو مادّی تقاضے تھے وہ ختم کر دئیے کیونکہ مَوجودہ سائنسی دور نے انسانی شعور کو ترقی دی ہے۔

سائنس کے مطابق پانچ فیصد سیل دماغ کے کھلے ہیں اور باقی بند پڑے ہیں انسانی شعور کی ترقی اور وسعت کا یہ عالَم ہے کہ اب تو چھوٹا بچہ بھی دلیل کے بغیر کسی بات کو قبول نہیں کرتا۔ ایک بچہ میرے پاس آیا اور مجھ سے پوچھا اللہ میاں کہاں ہیں؟ ہر چیز نظر آرہی ہے، یہ ریڈیو ہے، یہ کرسی میز ہے…. نظر آرہے ہیں…. اللہ کیوں نہیں نظر آتا؟

 

رُوحانی سلسلوں کا تعلق چونکہ اَندرونی کیفیات اور ماورائی علوم کے ساتھ ہے اس لئے ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہر دَور میں انسانی سکت کے مطابق عوام کو، مخلوق کو، اللہ سے متعارف کرائیں۔ اسلئے ایسے سلسلے کی بنیاد رکھی جائے جو سائنسی علوم کے مطابق کام کرے۔ جو پرانے تمام سلسلوں کی تعلیمات کو سائنسی علوم کی روشنی میں لوگوں تک پہنچائے۔ اس طرح عظیمیہ سلسلہ وُجود میں آیا۔

 

سوال: اس سلسلۂِ عظیمیہ کے بانی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

 

جواب:

یہ بات یقینی ہے…. غیر مسلم تو اعتراض کر سکتے ہیں لیکن مسلمان نہیں کہ کوئی بھی سلسلہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی اجازت اور منظوری کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔

عظیمیہ سلسلے کے بانی کا نام سید محمد عظیم برخیاؔ ہے۔ سید محمد عظیم نام ہے اور برخیاؔ شاعرانہ تخلص ہے۔ آپ خانوادۂِ اہلِ بیت ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری ؓ کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت موسیٰ رضاؓ سے براہ راست فیض یافتہ ہیں۔ میں نے تقریباً (۱۶) سال ان کی خدمت میں تربیت حاصل کی اور جو کچھ ان سے سیکھا وہ اللہ کا پیغام، اللہ کی باتیں، لوگوں تک پہنچا رہا ہوں حالانکہ سارے درخت قلم بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔

 

سوال: کیا آپ صرف پاکستان میں ہی رُوحانیت کی تعلیم دے رہے ہیں؟

 

جواب:

پاکستان کے علاوہ یورپ میں رُوحانیت کی بہت پذیرائی ہوئی۔ ساری دنیا میں ہمارے کل ۷۲ سینٹرز”مراقبہ ہال”ہیں۔ انگلش کے الگ اردو کے الگ۔ امریکہ میں چار سینٹر ہیں جہاں رُوحانی تعلیم دی جاتی ہے۔ امریکہ کے ہسپتالوں میں ہمارا ایک سبجیکٹ ہے “کلر تھراپی”اس پر کام ہو رہا ہے۔ وہاں وہ کلر تھراپی کے ذریعے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ وہاں ریڈیو،  ٹی وی میں ہمارے سلسلے اور کام کو کافی کوریج (Coverage) دی جاتی ہے۔

 

سوال : کیا رُوحانیت کو بطور Subject سکولوں یا کالجز میں پڑھانا چاہئے ؟

 

جواب:

“سن فورڈ”یونیورسٹی میں انہوں نے ہم سے سلیبس مانگا تھا جو ہم نے انہیں دیا وہ منظور بھی ہو چکاہے اور انشا ء اللہ دسمبر میں کلاسز شروع ہوجائیں گی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کہ یہاں کلاسز ہونی چاہئیں…؟ تو بھئی ہونی تو چاہئیں…. لیکن نہیں ہو رہیں….. حالانکہ یہاں بھی ضروت ہے۔ بے سکونی یہاں بھی ہے یورپ میں بھی ہے…. لیکن فرق ہے نالج کا…. نالج وہاں زیادہ ہوگا جہاں تعلیم ہوگی…. جہاں تعلیم ہوگی وہاں ہر چیز میں ترقی ہوگی…. جبکہ پاکستان میں ابھی بہت سے مسائل ہیں جو کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ یہاں تو ابھی روٹی کپڑا مکان کے مسائل سے نہیں نکل سکے۔ یہاں تولوگوں کے گھریلو مسائل ہی ختم نہیں ہوتے کہ وہ کسی اور طرف توجّہ دیں۔ پاکستان میں میرے پاس جو لوگ مسائل لے کر آتے ہیں وہ یہ ہوتے ہیں کہ:

  • شادی بیاہ نہیں ہورہے….
  • بچے نا فرمان ہیں….
  • نوکریاں نہیں مل رہیں….
  • میاں بیوی کے جھگڑے…. وغیرہ

جہاں پر لوگ ان مسائل سے آزادنہیں تو وہ رُوحانیت پر کیا توجّہ دیں گے نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اب نوجوان طبقہ ہے…. وہ تعلیم یافتہ ہے اور رُوحانیت کو سمجھتا ہے اور اس کی طرف توجّہ دے رہا ہے۔

 

سوال : کیا رُوحانیت سیکھنے کیلئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ؟

 

جواب:

جی ہاں گریجویٹ ہونا ہر شعبے کیلئے بہت ضروری ہے اور رُوحانیت کیلئے تو تعلیم یافتہ ہونا بہت اہم ہے۔ کم از کم بی۔ اے ضرور کیا ہو….

شروع شروع میں جب ہم نے کم تعلیم یافتہ افراد کو رُوحانیت کی تعلیم دینا شروع کی تو وہ نہیں چل سکے…. صرف اپنی کم علمی کی وجہ سے کچھ سمجھ ہی نہ سکے۔ سائنس کے طالب عمل ہماری بات زیادہ اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

بھئی جہاں آپ کی پی ایچ ڈی ختم ہوتی ہے وہاں سے رُوحانیت شروع ہوتی ہے یعنی پی ایچ ڈی کرنے والا رُوحانی اسباق آسانی سے سمجھ جاتا ہے اور اس کے علاوہ رُوحانیت سیکھنے کیلئے ذہنی صلاحیت ہونی چاہئے اور دلچسپی ہونی چاہئے۔ جب تک کسی بھی چیز میں آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی آپ کچھ نہیں سیکھ سکتے اور یہ آپ کی اپنی طرزِ فکر پر منحصر ہے کہ آپ سیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

 

سوال: کیا ہر شخص رُوحانی علوم سیکھ سکھتا ؟

 

جواب:

مرد عورت ہر شخص رُوحانی علوم سیکھ سکتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر شخص خواہ ہندو ہو یا مسلم یا کوئی اور مذہب رکھنے والا…. جس طرح میٹرک کر سکتا ہے، بی۔ اے کر سکتا ہے یا پی۔ایچ۔ ڈی کر سکتا ہے اسی طرح رُوحانی علوم بھی سیکھ سکتا ہے۔ لیکن جو شخص اسلامی دائرہ کار میں رُوحانی علوم سیکھے گا س کا تعلق براہِ راست قرآن سے ہوگا۔ دوسرے لوگ یعنی دوسرے مذہب کے لوگ جو علم سیکھیں گے وہ رُوحانی علوم تو ہوں گے لیکن انہیں اسلامی رُوحانی علوم نہیں کہیں گے۔ مثلاً ایک ہندو اور ایک مسلم نے ایک ہی جگہ سے میٹرک کیا ہے دونوں تعلیم یافتہ توکہلائیں گے لیکن ہندو کو مسلم اور مسلم کو ہندو نہیں کہہ سکتے ہیں وہ دونوں اپنی تعلیم کو اپنے مذاہب کے مطابق استعمال کریں گے۔

 

سوال : سائنس کا علم اور رُوحانیت کا علم یہ کیا ہے ؟

 

جواب:

  • سائنس ایک ایسا علم ہے جو انسانی دماغ کو روشن بنا دیتا ہے…. اور
  • رُوحانیت ایسا علم ہے جو انسان کے روشن دماغ کو غیب سے متعارف کرواتا ہے…. غیب کی دنیا سے رُوشَناس کردیتا ہے…. اپنی اصل سے واقف کردیتا ہے۔

 

سوال: یہ فرمائیں کہ خود سپردگی کیاہے مرید کیسے اپنے آپ کو مراد کے حوالے کرے ؟

 

جواب:

جب کوئی طالب علم استاد کی شاگردی میں آتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے:

پڑھو! الف بے ، جیم…. وغیرہ وغیرہ

بچے کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ الف، بے، جیم کیا ہے؟ وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے وہی کچھ سیکھتا ہے جو کچھ اسے استاد سیکھاتا ہے۔ لیکن یہی طالب علم اگر الف، بے، جیم کو قبول نہ کرے تو وہ عمل نہیں سیکھ سکتا۔

مفہوم یہ ہے کہ بچے کی لا علمی اس کا عمل بن جاتا ہے…. وہ بحیثیت شاگرد استاد کی راہنمائی قبول کر لیتا ہے اور درجہ بدرجہ علم سیکھتا چلا جاتا ہے۔

ایک آدمی جو با شعور ہے اور وہ کسی نہ کسی درجہ میں دوسرے علوم کا حامل بھی ہے۔ جب رُوحانیت کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی پوزیشن بھی ایک بچے کی ہوتی ہے۔

رُوحانیت میں شاگرد کو مُرید اور استاد کو مُراد کہا جاتا ہے۔

مرید کے اَندر اگر بچے کی اُفتادِ طبیعت نہیں ہے تو…. وہ مراد کی بنائی ہوئی کسی بات کو اس طرح قبول نہیں کرے گا جس طرح بچہ الف، بے، جیم کو قبول کرتا ہے…. چونکہ رُوحانی علوم میں اس کی حیثیت ایک بچے سے زیادہ نہیں ہے اس لئے اُسے وہی طرزِ فکر اختیار کرنا پڑے گی جو بچے کو الف، بے، جیم سکھاتی ہے…..مطلب یہ کہ:

خود سپردگی کے بغیر انسان رُوحانیت نہیں سیکھ سکتا ہے….

کسی علم کو سیکھنے میں صرف یہ طرزِ فکر کام کرتی ہے کہ:

  • استاد کے حکم کی تعمیل کی جائے …. اور
  • استاد کی تعمیلِ حکم یہ ہے کہ لا علمی اس کا شعار بن جائے۔

رُوحانی طالب علم کو کچھ سیکھنے کیلئے ہر حال میں پہلے اپنے علم کی نفی کرنی پڑتی ہے…. اور جیسا مراد مرید سے کہے مرید کو ویسا ہی کرنا پڑتا ہے…. ایک مقولہ ہے کہ…. گرو جو کہے وہ کرو…. گرو جو کرے، وہ نقل نہ کرو….

 

سوال:  رُوحانی علوم کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی؟

 

جواب:

رُوحانیت کوئی نیا علم نہیں ہے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ آدم علیہ السّلام سے انسانوں میں منتقل ہوئی ہے۔ نئی چیز یا نئی بات تو کچھ بھی نہیں…. بس ذرا سمجھنے کی بات ہے۔

اب اگر آپ ایک ایک اچھا گلاس یا پیالہ بنا لیتے ہیں تو اس سے پانی کی تسکین ختم تو نہیں ہوجاتی…. بھئی پانی تو ہاتھوں سے بھی پیا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا کتنی بھی ترقی کرلے…. لیکن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنی طرزِ فکر کو اللہ کی جانب ہی موڑنا ہے…. اپنی اصل کو اپنے اَندر ہی تلاش کرنا ہے۔ علم کوئی بھی نیا نہیں ہوتا پہلے سے مَوجود ہوتا ہے اور نئی نئی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بات صرف تفکر کرنے کی ہے۔ اب اڑن کھٹولا ہی لے لو…. کتنی پرانی چیز ہے…. لیکن اب اس کی نئی شکل ہوائی جہاز بھی تو ہے اور جو آج کل ہم ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور اس میں نئے نئے پروگرام دیکھ رہے ہیں تو یہ بھی بہت پرانی چیز ہے۔ اہرامِ مصر سے جو ایک ڈبہ ملا ہے ٹی وی جیسا وہ کیا ہے ؟ …. بھئی سوچنے کی بات ہے ناں…. نئی تو کوئی بھی چیز نہیں…. کوئی علم نیا نہیں سب پرانے ہیں۔

رُوحانی علوم سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ورثہ ہیں یہ علوم سینوں میں پلتے رہے۔

اصحاب صُفّہ کو سیدنا حضور ﷺ خود ان علوم کی تربیت دیتے رہے اب ان کے ورثاء کے ذریعے یہ تعلیمات جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔

 

سوال: “غصہ”آپ کی اکثر تحریریں اس اہم نقطہ کے گرد گھومتی ہیں غصہ کیوں آتا ہے ؟ اور اس کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟ جبکہ ایسی صورت حال میں بندہ یہ بھی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی نا پسند فرماتے ہیں اور سیدنا حضور ﷺ بھی نا پسند فرماتے ہیں اور غصے کی حالت بدستور قائم ہے ؟

 

جواب:

غصے کا تعلق خون میں ارتعاش سے ہوتا ہے۔ کسی بات سے جب نا گواری پیدا ہوتی ہے تو اس کی جو وائبریشن ہے اس نے دماغ کے ان خلیوں کو چھیڑ دیا جو خلئے خون کو اعتدال میں رکھتے ہیں۔ چونکہ اعتدال نہیں رہا، اِس لئے غصے میں دورانِ خون بھی بڑھ جاتا ہے۔

اگر آپ غور کریں گے تو ایک بات آپ کو یہ نظر آئے گی کہ کائنات میں اعتدال ہے۔ ہر چیز میں توازن ہے…. مُعیّن مِقداریں ہیں۔ مثلاً ناک ہے تو انسان کی ناک کی الگ مُعیّن مِقداریں ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کی ناک کی الگ مُعیّن مِقداریں ہیں۔ مطلب یہ کہ نظام قدرت میں توازن ہے۔

غصے کا عمل ایسا ہے کہ سوچ میں جو توازن ہے…. اُس میں گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔

خون کا جو کام ہے کہ صحت مند اجزاء یا عناصر کو متوازن رکھنا…. تو غصے کی وجہ سے وہ بیلنس ٹوٹ جاتا ہے۔

انسان اس غصے کی حالت میں جو بات کرتا ہے یا فیصلے کرتا ہے تو وہ غلط ہوجاتے ہیں…. اور پھر انسان ساری عمر پچھتاتا ہے…. اس لئے سیدنا حضور ﷺ نے غصے سے منع فرمایا ہے۔

آپ ؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جو لوگ غصہ نہیں کرتے اور معاف کردیتے ہیں تو ایسے احسان کرنے والے بندے کو اللہ دوست رکھتا ہے…. (آلِ عمران – 134)

غصہ کرنے والا آدمی اللہ کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے۔ غصے میں قربانی اورایثار میں بہت فرق ہے۔

اس کی مثال حضرت علی ؓ  کا وہ واقعہ ہے جس میں آپ ایک یہودی سے لڑ رہے تھے کہ یہودی کو حضرت علی ؓ نے پچھاڑ دیا اور اس کے سینے پر چڑھ گئے۔ اس یہودی نے حضرت علی ؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ حضرت علی ؓ  کو غصہ آ گیا تو آپ نے فرمایا یہودی سے کہ…. جا میں تجھے آزاد کرتا ہوں…. کیونکہ میں اللہ کیلئے لڑ رہا تھا…. تم نے مجھ پر تھوک دیا اور مجھے غصہ آ گیا….. اگر میں ایسی حالت میں تجھے قتل کر دیتا…. تو یہ میرا ذاتی عمل ہوتا…. یہودی حضرت علی کی باتیں سن کر مسلمان ہوگیا۔ عام قدریں یہ رائج ہیں کہ اگر کوئی تھوک دے تو آدمی غصے میں آجاتا ہے۔

یاد رکھئے ! غصہ ہمیشہ وہاں آتا ہے:

  • جہاں اقتدار کی خواہش ہو…. اور
  • انسان خود کو منوانا چاہتا ہو….

اقتدار اللہ کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتا۔ بیوی اس لئے غصہ کرتی ہے کہ خاوند اسے مانے، خاوند اس لئے غصہ کرتا ہے کہ یہ بیوی میری کنیز ہے۔

غصہ ختم کرنے کا جو طریقہ رُوحانی لوگ بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے اَندر سے اقتدار کی خواہش ختم کریں…. اور اقتدار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ کو مان لیا جائے۔ دل سے مانا جائے کہ ہم تو اللہ کے بندے ہیں…. غلام ہیں۔ بھئی ڈیوٹی کرنے والے…. کام کرنے والے…. ملازم ہی ہوئے ناں…. تو ہم سب اللہ کے ملازم ہیں…. اور ایک ملازم کو آقا کے سامنے غصہ کرنا زیب نہیں دیتا۔ ایک بات یہ کہ غصہ کرنے والے لوگوں کا رنگ جل جاتا ہے کا لا ہوجاتا ہے۔ خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے اور کرختگی آجاتی ہے۔ ہنسے، بولنے خوش رہنے والے آدمی کے چہرے پر ملائمت ہوگی…. شگفتگی ہوگی۔ اب ایک آدمی خوب گورا  چِٹّا ہے…. لیکن غصے کی وجہ سے وہ اچھا نہیں لگے گا اور چہرہ بے رونق ہوجائے گا…. بلکہ چہرے پر کرختگی آجائے گی۔ جبکہ ایک آدمی معمولی شکل و صورت کا ہے…. میری طرح…. اور وہ غصہ نہیں کرتا…. خوش رہتا ہے…. تو اس کے چہرہ پَر کشش نظر آئے گی اور اس کا چہرہ اچھا لگے گا۔

تو بھئی…. آپ خوش رہیں اور ماحول کو خوش گوار رکھیں…. اور غصے کو اپنے اَندر سے ختم کریں…..

 

سوال: سلسلۂِ عظیمیہؔ کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں؟

 

جواب:

بھئی یہ جو سلسلہ ہے…. عظیمیہ…. اِس کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ:

  • خدمت خلق…. بغیر کسی صلہ وستائش کے…. بغیر کسی مطلب کے….
  • دوسرے یہ کہ سائنسی علوم کو سامنے رکھتے ہوئے، مسلمانوں کو…. پوری نوع کو…. ایسا لٹریچر فراہم کرنا کہ جس کی بنیاد پر پوری سائنس اور رُوحانیت ایک ہو سکے۔
  • ہمارا پیغام خدمتِ خلق کرنا…. خوش رہنا….. اور دوسروں کو خوش رکھنا ہے…. تمام نوعِ انسانی کو سکون آشنا زندگی کی ترغیب دینا ہے…..

آپ کسی عظیمی بہن یا بھائی سے ملیئے…. جو عظیمی سلسلے میں کم از کم تین سال گزار چکا ہو…. تو….

  • اس کے اَندر آپ کو سب سے پہلے محبت نظر آئے گی…. انسانوں، پرندوں، جانوروں، پھولوں، درختوں ہر چیز سے محبت نظر آئے گی۔
  • دوسرا آپ اس کی باتوں سے اندازہ لگا لیں گے کہ اس کو اللہ کی قربت حاصل ہے۔ کیونکہ سلسلے کے جو بنیادی بزرگ ہیں بڑے ہیں…. انہیں حضور ﷺ کی نسبت سے اللہ کا قرب حاصل ہے۔
  • دوسری بات یہ کہ اس سلسلے میں آنے کے بعد نشئی لوگ نشہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک نشئی آدمی جب اس سلسلے میں شامل ہواتو اُسے ایسا ماحول یہاں ملا کہ اس کی احساس محرومی ختم ہوگئی۔ احساس محرومی ختم ہوئی تو اس نے نشہ کرنا چھوڑ دیا۔ یہاں آکر اسے رُوحانی سکون ملا۔
  • رُوحانیت ایسی چیز ہے کہ اگر اسے قرآن و حدیث کی روشنی میں استعمال کیا جائے تو معاشرے کی برائیاں دُور ہو سکتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ مخالفت بہت کرتے ہیں…. سمجھتے نہیں۔ مخالفت کرنے والوں میں پچاس سال سے اوپر کے لوگ ہیں۔ مخالفت کرنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں بات سمجھ نہیں آتی۔ لیکن نوجواں طبقہ نے اسے قبول کیا ہے…. اور سمجھا ہے۔
  • آپ کسی عظیمی نوجوان سے پوچھیں کہ انہیں رُوحانیت میں یا اس سلسلے میں آکر کیا ملا تو جواب ملے گا سکون ملا…. اعتماد ملا…. شک و شبہ کی زندگی سے نجات ملی….
  • سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں ہر چیز کے بارے میں علم ملا…. ایسا علم جو شاید ہمیں اور کہیں سے نہیں مل سکتا تھا….

 

سوال:  رُوحانیت سیکھنے کیلئے چِلّے، مجاہدے اور ریاضتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس کیلئے بعض حضرات جنگلوں کا رخ بھی کرتے ہیں تو یہ سب لوگوں کی معاشی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں؟

 

جواب:

آپ کوئی بھی علم سیکھنا چاہیں اس میں ریاضت و مجاہدہ کی لازماً ضرورت پڑتی ہے۔

کوئی بچہ جب اسکول جاتا ہے…. صبح سویرے بیدار ہوتا ہے…. تیار ہوتا ہے…. اسکول جاتا ہے…. وہاں دوپہر تک کلاس میں رہتا ہے…. تپتی دھوپ میں گھر آتا ہے…. بعض اوقات گرمی سے نڈھال ہو کر بچے گھر آکر چارپائی پر گر جاتے ہیں اور اگلی صبح پھر یہی عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے…. یہ عمل ریاضت و مجاہدہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ہماری ماں، بہن سخت سردی یا شدید گرمی میں بچے کیلئے روٹی پکاتی ہیں…. کپڑے دھوتی ہیں…. گھر صاف کرتی ہیں…. تھک کر بے حال ہوجاتی ہیں…. یہ بھی ریاضت ہے۔

جب ہم کوئی بھی کام ریاضت یا محنت کے ساتھ سیکھتے ہیں یا کرتے ہیں تو اس کیلئے دنیا کے باقی کام چھوڑ تو نہیں دیتے۔

اسلام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دو گناہ معاف نہیں کرتا:

  • ایک شرک…. اور
  • دوسرا حقوق العباد….

جو آدمی گھر بار چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل جائے تو یہ اس نے حق تلفی کی اور حق تلفی شرک کے برابر ہے۔

جو شرک کرتا ہے وہ رُوحانیت کبھی نہیں سیکھ سکتا….

یہ اصل میں بہت بڑی سازش ہے۔ سازش کے تحت ایک گروہ نے تصوّف کو بدنام کیا ہے کہ…. یہ دنیا بیزار ہوتے ہیں….. تو ایسی کوئی بات نہیں۔ جن بزرگوں سے تمام سلسلے چلے ہیں، آپ اُن کے بارے میں پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان بزرگوں نے شادیاں بھی کیں اور معاشی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ تصوّف میں یا رُوحانیت میں سیدنا حضور ﷺ سے بڑھ کر تو کوئی نہیں ہے۔ آپ ؐ نے شادیاں بھی کیں، کاروبار بھی کیا بچوں کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں آپؐ کوئی جنگل میں تو نہیں گئے۔ اب میں اپنے بچوں کی ذمہ داریاں نبھا چکا ہوں، سب بچے اپنے اپنے کاروبار سے ہیں۔ میں چاہوں تو جنگل کو نکل جاؤں یا داتا کے مزار پر بیٹھ جاؤں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ دنیا بیزاری تو شرک ہے۔

 

سوال: آپ کا مشن کیا ہے اور اس کے تقاضے بیان فرمادیں؟

 

جواب:

رُوحانی مشن چلانے کیلئے:

  • آپ کے اَندر خدمتِ خلق کا جذبہ ہو….
  • دنیاوی مفاد نہ ہو…..
  • اس کے علاوہ ایثار و قربانی اور خلوص کا جذبہ ہو…. اور
  • سب سے بڑھ کر یہ آپ کے اَندر برداشت ہو صبر…. تحمل ہو۔
  • آدمی کے اَندر معافی کا خانہ بہت زیادہ ہو…. اور
  • رُوحانی مشن چلانے والے کے اَندر یہ بات ہو کہ جو باتیں وہ دوسروں سے چاہتا ہے وہ لازماً اس کے اپنے اَندر ہوں….
  • ایک چیز یہ کہ دیوانگی ہونی چاہئے…. وہ یہ نہ دیکھے کہ دن ہے کہ رات ہے اور دوسروں کے سامنے اپنا آرام بھی قربان کردے۔ دیوانگی سے اپنی ذات کی نفی کردے۔

ایک دفعہ میرا ایک چرچ میں پروگرام تھا مجھے بخار ہوگیا۔ ۱۰۲ بخار تھا میں نے کہا پھر پتہ نہیں موقع ملے یا نہ ملے مجھے لے چلو۔ گاڑی میں ڈال کر مجھے لے گئے۔ پروگرام کے بعد میں بے ہوش ہو گیا کوما میں چلاگیا۔ مجھے ۱۰۷ بخار ہوگیا۔ چار دن بعد جب ٹھیک ہوا تو مجھے اِس بات کی خوشی ہوئی کہ میں نے اپنا پیغام پہنچادیا۔ اچھا تو میں نے ہونا ہی تھا…. بخار تو مجھے ویسے بھی ہو سکتا تھا…. تو مجھے ساری زندگی اس بات کا قلق رہتا…. اگر میں پیغام نہ پہنچا سکتا…. مَرا تو پھر بھی نہیں…..

یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں دیوانگی کی ایک جھلک ہے اور حضور اکرم ؐ کی جو زندگی ہے مشن کے لحاظ سے تو وہ مکمل مشعلِ راہ ہے…. اور اس کیلئے میں نے ایک کتاب لکھی ہے…. محمدؐ رسول اللہ ﷺ….. مشن کے بارے میں ہے…. ضرور پڑھئے گا۔

رُوحانیت کے سلسلے میں میرا پیغام خاص طور پر خواتین کیلئے ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو کم تر نہ سمجھیں۔ رُوحانیت میں وہ مردوں کے برابر بلکہ ان سے زیادہ بلند مقام حاصل کر سکتی ہیں اور مردوں کو چاہئے کہ عورت کی ذہنی صلاحیتوں کو برائے کار لائیں۔

 

سوال: اسپرٹ (Spirit) اور مائنڈ (Mind) میں کیا فرق ہے۔ ان کی حدود کیا ہیں اور مائنڈ پاور فل ہے یا اسپرٹ ؟

 

جواب:

انفارمیشن اور انفارمیشن کی سورس (Source of Information) پر ساری کائنات قائم ہے۔

  • دماغ (مائنڈ) کی حیثیت انفارمیشن یعنی اطلاع کی ہے…. اور
  • رُوح اس اطلاع کی مآخد اور منبع (Source) ہے۔

اگر مآ خذ ہی نہ ہو تو اطلاع نہیں ہوگی۔ رُوح، اسپرٹ یا  Soul پوری زندگی کی دستاویز ہے…. پوری زندگی کا ریکارڈ ہے۔ اس دستاویز سے دماغ اطلاعات اخذ کرتا ہے اور آگے بڑھا دیتا ہے۔

ہر آدمی میں پڑھنے لکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ایک آدمی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ دوسرا آدمی ایک کلاس بھی نہیں پڑھا۔ اس کے لئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں صلاحیت نہیں تھی۔ اس نے اس لئے نہیں پڑھا کہ دراصل اس نے سورس آ ف انفارمیشن سے اپنے دماغ میں کچھ منتقل ہی نہیں کیا۔ اس لئے اس کا مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔

 

سوال:  رُوحانی علوم سیکھنے کیلئے مراقبہ کے علاوہ کوئی اور آسان راستہ ہو تو بتائیں؟

 

جواب:

مراقبہ کوئی مشکل عمل نہیں ہے۔ مراقبہ رُوحانیت سیکھنے کا آسان ترین راستہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے بھی پیغمبر گزرے ہیں سب ہی نے مراقبہ کیا ہے۔ مراقبہ ایک اصطلاحی نام ہے جس کا مطلب ہے غور کرنا، تفکر کرنا یعنی کسی بھی چیز کی بابت یکسوئی اور مرکزیت کے ساتھ سوچ بچار Concentration کرنا۔

قرآن حکیم میں سات سو چھپن (756) آیات تفکر، غور و فکر اور تدبّر سے متعلق احکامات کا درجہ رکھتی ہیں۔

اس ساڑھے سات سو آیات میں کائنات پر غور کرنے، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر تفکر کرنے اور اس قسم کی باتوں پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے۔

چاند کیا ہے ؟

سورج کیا ہے ؟

کہکشانی نظام کیا ہے ؟

آپ اپنے گھر میں پانی پر تفکر کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے بنایا ہے؟

باغ میں جا کر مختلف پھولوں پر تفکر کر سکتے ہیں کہ ایک ہی قطعۂِ زمین و یکساں مٹّی سے ایک جیسے پتوں اور مختلف رنگوں و خوشبو والے پھول کیسے نکل آئے !

اس تفکر و غور و فکر کرنے کا اصطلاحی نام مراقبہ ہے…..

مراقبہ میں آنکھیں بند کرنے کیلئے اس لئے کہا جاتا ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے یکسوئی جلدی ہوجاتی ہے۔ سائنسی ایجادات غور و فکر ہی کا تو نتیجہ ہیں۔ اگر رُوحانی عالِم غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے…. مراقبہ کہاں سے آ گیا؟ میرے عزیز بھائی ! کیا شریعت نے سوچنے، غور و فکر اور تفکر کرنے سے کس نے منع کیا ہے ؟

 

سوال: سلسلۂِ عظیمیہؔ کس مسلک سے ہے اور چار سلسلوں میں کس سے وابستہ ہے ؟

 

جواب:

سلسلہ اور مسلک میں فرق ہوتا ہے۔ مسلک کا تعلق فقہ سے ہے اور سلسلہ رُوحانی تعلیمات کا اسکول ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اب تک دنیا میں دو سو سلاسل اس بنیاد پر قائم ہوئے کہ جیسے جیسے نوعِ انسانی کے شعور نے ترقی کی…. اسی مناسبت سے سلسلے کے اسباق مرتّب ہوئے۔

مثلاً آج کے دَور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعورِ انسانی بالغ ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے قوموں کا ارتقاء ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ان کیلئے راستے متعیّن ہوتے رہتے ہیں اور یہ بات قرآن حکیم کے عین مطابق ہے:

جو لوگ اللہ کیلئے جدو جہد کرتے ہیں۔ اللہ ان کیلئے اپنے راستے کھول دیتا ہے …. (سورۃ العنکبوت: 69)

سلسلۂِ عظیمیہؔ نے انسانی شعور کی پختگی اور سائنسی علوم کی پیش رفت کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اسباق مُدوّن کئے ہیں، جن سے انسان رُوحانی علوم سیکھ سکتا ہے۔ مثلاً لوحِ محفوظ کو فلم، پرجیکٹر یا ٹی وی اسٹیشن کی مثال دے کر آسانی کے ساتھ سمجھایا جا سکتا ہے یا رُوح کے متعلق کمپیوٹر کی مثال دی جا سکتی ہے….

 

سوال :  کیا رُوح کو جانے بغیر بھی زندگی کا مقصد پورا ہو سکتا ہے ؟

 

جواب:

آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ رُوح کوجانے بغیر دنیا کا مقصد تو پورا ہوجاتا ہے…. لیکن زندگی کا اصل مقصد رُوح کو جانے بغیر نہیں ہوتا۔

اب اگر آپ کا یقین ہے کہ اس دنیا کے بعد بھی دوسرا عالَم ہے تو جب تک آپ رُوح کو نہیں جانیں گے، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد رُوح ایک عالَم سے دوسرے عالَم میں منتقل ہوجاتی ہے۔

گدھے اور انسان میں یہ فرق ہے کہ انسان رُوح کو جان لیتا ہے اور گدھے کو اللہ نے یہ صلاحیت نہیں دی کہ وہ رُوح کو جان سکے۔

صلاحیت ہونے کے با وُجود بھی آدمی رُوح کو نہ جانے تو کیا ہو؟

انسان کا تو مقصدِ حیات ہی یہ ہے کہ وہ اپنی رُوح کو جان لے اور اپنی رُوح کو جان لینے کے بعد اپنے ربّ کو پہچان لے۔

اب اگر کوئی شخص عرفانِ ذات اور عرفان ِ الٰہی کے بغیر مرتا ہے تو مرنے کے بعد کی زندگی جو بہت ہی لمبی، طویل اور نہ ختم ہونے والی ہے…. بہت عذاب میں گزرتی ہے۔

 

سوال: جدید نفسیات نے اتنی ترقی کی ہے کہ شعور، لا شعور اور تحتِ لاشعور کے مختلف درجات بیان کردئیے ہیں۔ کیا رُوحانیت میں بھی شعور، لاشعور اور تحتِ لا شعوار ہوتے ہیں؟

 

جواب:

ان باتوں سے رُوحانیت کا دامن کبھی خالی نہیں رہا۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسانی شعور کمزور تھا۔ بات سمجھانے کے با وُجود سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اب جدیدعلوم میں پیش رفت ہونے اور سائنسی ایجادات سامنے آنے کے بعد رُوحانی معاملات سمجھنے اور سمجھانے میں بہت آسانی اور سہولت ہوگئی ہے۔ مثلاً بجلی، ریڈیو، ایٹم کی تھیوری، لہروں کا نظام، کمپیوٹر وغیرہ کی مثالیں انسانی ذہن کو بات سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ اس طرح زمین کے طبقات اور ان کے رنگ بتا دئیے گئے ہیں۔ اب اس بات کو کون مانے گا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور سینگ بدلنے سے زلزلہ آتا ہے۔

سارا قرآن رُوحانیت ہے….

قرآن کو ایک ارب مسلمان جانتے اور مانتے ہیں مگر قرآن کریم کی رُوح سے واقف نہیں اسلئے ذلیل و خوار ہیں۔

ہمارے اسلاف چونکہ قرآن حکیم کی رُوح سے واقف تھے اس لئے ساری دنیا پر حکمران تھے۔

 

مسلمان اور مؤمن الگ الگ بات ہے۔ جو رُوحانیت سے واقف ہوتا ہے وہ موحد ہو جاتا ہے، مشرک نہیں رہتا۔ الحمدللہ میرے شاگردوں میں سوائے یہودوں کے دیگر مذاہب کے لوگ بھی ہیں۔

ایک بار ایک ہندو شاگرد نے میرے اسباق پر ذوق و شوق سے عمل کیا جب اس نے بہت ہی زیادہ ترقی کی تو کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں لیکن میں نے کہا ابھی آپ لگے رہیں حتیٰ کہ ایک دن وہ بہت گھبریا ہوا آیا کہ رات کو خواب میں کرشن جی نے کہا ہے کہ میری طرف سے خواجہ صاحب کو کہو تجھے سیدھا راستہ دکھادیں تو میں نے اس کو کلمہ پڑھا دیا۔

 

سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانی ارتقاء کی تکمیل سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام پر ہوگئی۔ لیکن ہم بحیثیت مسلمان وہ نہیں ہے جو ہمارے اسلاف تھے۔ یقیناً ہم پیچھے ہٹے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے علوم اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔

 

سوال : کیا مشاہدہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے ؟

 

جواب:

اگر ایک مقدمہ ٔ قتل میں گواہ عدالت کو بتائے کہ میں نے دیکھا تو نہیں لیکن فلاں سے سنا ہے کہ اس طرح قتل ہُوا ہے تو عدالت سنی سنائی بات پر گواہی تسلیم کر لے گی؟

گواہی کیلئے لازم ہے کہ گواہ نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو….. بلا مشاہدہ گواہی کیسے قابلِ قبول ہوگی؟

قرآن حکیم میں آیا کہ یہ جاہل اور گنوار لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور مؤمن بن گئے۔ بھلا یہ مؤمن کیسے بن سکتے ہیں جبکہ ایمان تو ابھی ان کے قلوب میں داخل ہی نہیں ہوا۔ ہاں یہ مسلمان ضرور ہو گئے ہیں۔

(سورۃ الحُجُرات)

ایمان کا تعلق دل کے مشاہدے اور گواہی سے ہے اور گواہی تب ہی قبول اور متعبر ہے جب آپ نے کچھ دیکھا ہو۔ یہ امر تو بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ مشاہدہ ہو سکتا ہے۔

 

اسی بات کو دوسری طرح سمجھاتے ہوئے فرمایا:

ہماری رُوح عالَمِ اَرواح میں روزِ ازل، اللہ کو دیکھ چکی ہے….

اللہ سے ہم کلام ہو چکی ہے….

اس کے ربّ ہونے کا اقرار کر چکی ہے….

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی رُوح سے واقف ہوجائیں….

جب ہم اپنی رُوح سے واقف گے تو ہم ضرور اس مشاہدے کو حاصل کر لیں گے جو رُوح پہلے کر چکی ہے۔

 

نمازِ مغرب جماعت سے ادا کی گئی اور مراقبہ کے بعد مرشدِ کریم نے ہم سب ساتھیوں سے دریافت کیا کہ:

جیسی محنت ہم نے دنیاوی علوم کے حصول کیلئے کی ہے، کیا ویسی ہی تگ و دَو اور محنت رُوحانی علوم کے حصول کے لئے بھی کی جا رہی ہے ؟

سب کا جواب نفی میں تھا….!!

اس پر آپ نے فرمایا کہ دنیاوی علوم میں میٹرک، انٹر اور اس کے بعد پیشہ وارانہ تعلیم کے حصول کیلئے مجموعی طور پر ۱۷ سال لگتے ہیں اور ان سترہ سالوں میں کم و بیش روزانہ دس گھنٹے محنت کی جاتی ہے۔ تب کہیں جا کر آپ ڈاکٹر، انجینئر یا اکاؤنٹنٹ وغیرہ بنتے ہیں۔ صرف میٹرک کرنے میں پینتیس ہزار  گھنٹہ کا وقت محنت اور اسی مناسبت سے رقم خرچ ہوتی ہے۔ تب کہیں جا کر طالب علم اس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک شعبہ کا انتخاب کر سکے۔ آج کل تو میڑک کے بعد چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں ملتی۔ اس کے بر عکس روحانی علوم کیلئے روزانہ بمشکل پندرہ بیس منٹ مراقبہ کیا جاتا ہے اور ایک دو تین چار ماہ بعد ہی شکوہ ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان چار ماہ میں بھی باقاعدہ نام کی چیز نظر نہیں آتی۔ کیا رُوحانی علوم جن کی افادیت اور دائرہ کار ایک دو نہیں بلکہ بے شمار عالَمین کی زندگی اور نظام پر محیط ہے کیا اس کی اہمیت میٹرک سے بھی کم کر دی جائے …!!؟

 

ان توجّہ طلب اور فکر آموز ارشادات پر تفکر سے یہ بات زیادہ واضح انداز میں سمجھ آئی کہ رُوحانیت میں عمل پہلے اور علم بعد میں ملتا ہے۔ جبکہ مادّیت اس کے بر عکس ہے۔

حضرت خواجہ مُعیّن الدین چشتی اجمیری ؒ اپنے مرشد کے حکم پر پوری جوانی خانقاہ میں صرف پانی بھرنے میں گزاردیتے ہیں۔ خواجہ غریب نوازؒ اتنی محنت نہ کرتے یا اس محنت کی تو جیہہ جاننا شروع کر دیتے کہ میں تو رُوحانی علوم حاصل کرنے آیا ہوں نہ کہ پانی بھرنے یا یہ کہ پانی بھرنے کا رُوحانی علم سے کیا تعلق ہے ت۔ تو وہ یہ علم حاصل نہ کر پاتے۔ رُوحانیت کا پہلا سبق:

با ادب با نصیب….

اور دوسرا سبق…. عمل…. ہے۔

 

سوال: کائنات کے مناظر اور وسائل دیکھ کر کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟

 

جواب:

اس کا نتیجہ اللہ ہے…. سب کچھ اللہ ہے…. اللہ وہ مصورِ کائنات ہے جس نے زمین بنائی، پہاڑ قائم کئے۔ پانی کے چشموں اور دریاؤں کا نظام بنایا، درخت اگائے، پھل پھول پیدا کئے۔ پانی کو ٹھنڈا، میٹھا اور خوش ذائقہ بنایا۔

بندہ ہر ظاہری چیز کا ذکر تو کرتا ہے۔ مگر اس چیز کو بنانے والے اللہ کا ذکر نہیں کرتا۔

علم الیقین و عین الیقین کا تقاضہ ہے کہ پسِ پردہ حقیقت سے رُوشَناس ہو کر اپنے ہر عمل اور ذہنی حرکت کو اسی حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے اور اس ذات کی قلبی نسبت حاصل کر لی جائے جو ان مناظر، وسائل اور نعمتوں کا مالک ہے۔ ہمارا خالق اور ہمارا کفیل ہے۔ خود زندہ ہے اور ہمیں زندگی کو قائم رکھنے کیلئے وسائل فراہم کرنے والا حيّ و قیّوم ہے اور جس کی طرف ہم کو واپس جانا ہے۔

مرد ِ کامل جب تربیت حاصل کر لیتا ہے تو اس کے ذہن کا یہ پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ….

کسی بھی غلطی پر فوراً استغفار کرتا ہے…. اور

شرمندگی و انکساری کا اظہار کرتا ہے…. جبکہ عام فرد اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کرتا۔

رُوحانی لوگ غصہ اور دوسروں کی دل آزاری سے بچتے ہیں۔

رُوحانیت میں سب سے بڑی رکاوٹ مردم آزاری ہے۔

جس سے دل سخت ہو جاتا ہے مردم آزاری سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔

 

سوال: سائنس کہتی ہے کہ مادہ فناء نہیں ہوتا۔ جب کہ آپ نے فرمایا ہے کہ رُوح نکل جانے کے بعد ہمارا مادّی جسم فناء ہوجاتا ہے جبکہ رُوح زندہ رہتی ہے۔ ذرا اس کی وضاحت فرمادیجئے؟

 

جواب:

انسان پیدا ہوتا ہے، مرتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان کی شکل و صورت، جسم، سوچ و حواس وہ تو ہمیں اس دنیامیں نہیں ملتے۔ وہ تو مٹّی میں مل گئے۔ مٹّی فناء ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ …. (سورۃ آلِ عمران – 185)

اور ہر چیز کے اوپر فناء ہے۔

اب سائنسدان جس بنیا پر کہتے ہیں کہ مادہ فناء نہیں ہوتا․․․․․ اس بناء پر کہتے ہیں کہ انسان کا جو وُجود ہے وہ مادّی عناصر سے تخلیق ہوا ہے۔ لیکن سائنس کی اس بات کو کم از کم میں تو تسلیم نہیں کرتا…. اس لئے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے، مادّے سے اس کا وُجود تخلیق ہوتا ہے لیکن اس مادّی وُجود میں اگر رُوح داخل نہ ہو تو مادہ متحرک نہیں ہوتا۔ اگر ماں کے پیٹ میں بچے کے اَندر رُوح نہ آئے تو بچہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پانچ چھ فٹ کا مادّی وجود اس دنیا میں رہتا ہے…. اس وقت متحرک رہتا ہے جب اس کے اَندر رُوح ہوتی ہے۔ جب اس میں سے رُوح نکل جاتی ہے تو مادّی وُجود پر فنائیت طاری ہوجاتی ہے۔

 

سوال: عورتوں کے حقوق کا تَعیّن مثلاً تَرکہ، وراثت، آدھی گواہی اور وراثت میں آدھا حصّہ کیوں ہے ؟

 

جواب:

بات دراصل صلاحیتوں کی ہورہی ہے۔ ایک آدمی انجینئر ہوتا ہے تو ایک عورت بھی انجینئر بن سکتی ہے۔ ایک آدمی ڈاکٹر بن جاتا ہے تو ایک عورت بھی ڈاکٹر بن سکتی ہے۔

اب رہی وراثت کی بات تو….  عورتوں کو وراثت میں باپ کی طرف سے بھی حصہ ملتا ہے اور شوہر کی طرف سے بھی۔ جب باپ اور شوہر دونوں کے حصوں کو آپ شامل کریں تو مرد کے برابر حصہ ہوجائے گا۔

جہاں تک گواہی کاتعلق ہے کہ دو عورتوں کی گواہی اور ایک مرد کی گواہی تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے اوپر نفسیاتی اور طبی نقطہ نظر سے ایسے حالات گزرتے ہیں جب کا مرد کسی بھی طرح متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ ان حالات میں ہو سکتا ہے کہ عورت کا ذہن اپنے ان مخصوص معاملات میں الجھا ہواور اس دوران اگر کوئی بھول ہوجائے تو دوسری خاتون اسے یاد دلا سکتی ہے…. اور

یہ جو مسئلے ہیں یہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔  یہ بات صحیح ہے، ہم مسائل کی طرف تو بعد میں آئیں گے پہلے تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا مرد اور عورت ایک ہی ذہن رکھتے ہیں، ایک صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے اَندر رُوحیں مختلف ہوتی ہیں یا ایک ہوتی ہیں؟ ․․․․․

تو جواب یہ ہے کہ…. رُوحیں سب کے اَندر ایک ہوتی ہیں۔ صلاحیتیں سب کے اَندر ایک سی ہیں۔

 

سوال: آج کل کے معاشرے میں خواتین زندگی کے ہر میدان میں طبع آزمائی کر رہی ہے کیا اس طرح معاشرے کا نظام در ہم بر ہم نہیں ہورہا ہے ؟

 

جواب:

میرے خیال سے تو درہم برہم نہیں ہُوا بلکہ اچھا ہُوا ہے ․․․․․ اور اگر کہیں درہم برہم ہواہے جیسے یورپ کی آپ مثال لے سکتے ہیں…. تو وہ درہم برہم اِس لئے ہوا ہے کہ خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق صلاحیتیں استعمال ہوں تو معاشرہ درہم برہم نہیں ہوگا بلکہ اچھا ہوجائے گا۔ مثلاً ایک خاتون اچھی Teacherہے تو وہ بچوں کو اچھی طرح پڑھاتی، سکھاتی ہے، ان کی اچھی تربیت کرتی ہے۔

پیغمبرانہ طرزِ زندگی کے ساتھ خواتین جب اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں گی اس سے معاشرے میں سدھار پیدا ہوگا اور مرد اور عورت ایک دوسرے کو سمجھ کر ایک دوسرے کی خدمت گزاری زیادہ اچھی طرح کر سکیں گے۔

 

سوال: دفاتر میں عورت اور مرد کے اکھٹے کام کرنے سے مسائل کیوں جنم لیتے ہیں؟

 

جواب:

ہمیں ایک فریم ورک (Framework) بنانا ہوگا جو کہ قرآن و حدیث کا فریم ورک ہو۔ میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ قرآن و حدیث سے ہٹ کر کوئی عورت کام کرے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے عورت اور مرد دونوں کی حیثیت برابر برابر ہے۔ ہماری تو کوشش ہی یہی ہے کہ خواتین اپنا مقام پہچانیں۔ عہدِ نبویؐ کی خواتین نے جہاد میں حصہ لیا۔ حضور پاک ﷺ کے دَور میں خواتین نے نرسنگ کی۔ صحابیات ؓ نے علمِ حدیث مردوں کو سکھایا۔

اگر پیغمبرانہ طرزِ فکر کے بغیر یا اس کے خلاف اگر ترقی ہو تو وہ ترقی ہر گز نہیں ہوتی․․․․․․ بات وہی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں قرآن پڑھنا ہے۔ قرآن سے خواتین کے حقوق تلاش کرنے ہیں۔ رسول پاک ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنا ہے۔ رسول پاک ﷺ کے ساتھ ان کی ازواجِ مطہرات کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہے۔ بس جس طرح انہوں نے (۱۴۰۰) چَودہ سو سال پہلے کیا آپ بھی کریں اور جہاں تک علم سیکھنے کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے “۔

 

سوال: اسلام میں پردے کے کیا احکامات ہیں؟

 

جواب: پہلی بات یہ کہ میں کوئی مفتی ہوں نہ ہی مولوی اور نہ عالَم دین ہوں۔ میرا جو جواب ہوگا وہ ایک عالَم دین کا نہیں ہوگا۔ کیونکہ میں ایک رُوحانی آدمی ہوں۔ میں نے تو آپ کو ایک  Message دیا ہے کہ عورتیں پیغمبرانہ تعلیمات حاصل کریں اور اپنے حقوق کے بارے میں علم حاصل کر کے ان حقوق کو حاصل کریں اور جب تک انہیں اپنے حقوق کا علم نہیں ہوگا وہ اسی طرح ڈرتی لرزتی رہیں گی اور کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اب یہ پردہ کیا ہے یہ تو آپ کسی عالَم دین سے پوچھیں گے تو وہی آپ کو بتائیں گے۔

میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو بیت اللہ شریف میں پردہ ہے وہی سب جگہ کا پردہ ہے۔ جیسے آپ طواف کرتے وقت پردہ کرتے ہیں اس طرح سب جگہ کریں۔ گھر کا جو پردہ ہے بس وہی پردہ ہے۔

 

سوال: عورتوں کوکیسے اسلامی تعلیمات سے آشنا کیا جائے جبکہ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے باوجود ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے ؟․․․․․

 

جواب:

یہ تو ایسا ہی سوال ہے کہ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ…. میں میٹرک کرنا چاہتا ہوں بتائیں میٹرک کیسے کروں؟․․․․․

آپ جواب دیں گے اسکول میں داخلہ لینا ہوگا․․․․․․

آپ نے خود ہی اپنے سوال کا جواوب دے دیا ہے ․․․․․

 

سوال : مرد اور عورت دونوں برابر ہیں ․․․․․ تو….

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ …. (سورۃ النساء – 34)

کی وضاحت کریں؟․․․․․․

 

جواب:

ابھی چند مہینے پہلے رُوحانی ڈائجسٹ میں وقار یوسف صاحب نے ایک کالم لکھا تھا، اس میں اس بات کی بڑی وضاحت کی گئی ہے۔ قرآن پڑھنا اور سمجھنا ہر مسلمان کی ذمّہ داری ہے۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ….

سورۂ النسا ء کی اس آیت کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا جاتا ہے کہ:

مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر افضل بنایا ہے اور اس لئے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

وقار صاحب نے لکھا تھا کہ ․․․․․

اس آیت کے تین حصے کئے جا سکتے ہیں:

(الف) الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ

(ب) بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ

(ج) وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ

عربی زبان کے لفظ …. قَوَّامُون  …. کا اردو زبان میں ترجمہ ‘‘حاکم’’  کیا گیا ہے۔

اس آیت میں جہاں ایک کو دوسرے پر فضیلت کا ذکر ہے وہاں صرف یہ مطلب نکالا گیا ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ حالانکہ زندگی میں بے شمار مقامات ایسے آتے ہیں جہاں پر اسلام نے عورت کا رتبہ اس قدر بڑھا دیا ہے کہ مرد اس تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ خاص طور پر جب عورت کا کردار بحیثیت ماں کے زیرِ بحث آتا ہے۔

عورت کی بحیثیت ماں اس قدر فضیلت بیان ہوئی ہے کہ جنّت کو ماں کے قدموں تلے بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس آیت میں اگر فضیلت کا ذکر  مرد کے لئے سمجھا جائے گا تو یہ مُطلق فضیلت نہیں ہے…. بلکہ مرد کے کسی کردار سے منسلک اور مشروط ہے…. بصورتِ دیگر اس کا اِطّلاق مختلف اوقات میں مختلف اوقات میں مختلف انسانوں یعنی کبھی مرد اور کبھی عورت پر ہوسکتا ہے۔

اس آیت میں آگے وہ سبب بھی بیان ہورہا ہے جسے مرد کی فضیلت سے منسلک قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ مردا پنا مال خرچ کرتا ہے۔ مال خرچ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے مال پاس ہو۔ مال پاس ہونے کیلئے ضروری ہے کہ مال کمایا جائے، مال کمانے کیلئے گھر سے باہر نکل کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور جدو جہد کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ مرد گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے محنت و مشقت کر کے مال کما کر لاتا ہے۔ اس طرح اس کا حق بنتا ہے کہ گھر کے معاملات اس کی رائے یا اس کی مرضی کے مطابق چلائے جائیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مرد گھر کی کفالت کیلئے اپنی معاشی ذمہ داریاں پوری نہیں کرنا چاہتا اور مجبوراً اس کی بیوی، بیٹی یا بہن کو معاش کے حصول کیلئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے ․․․․․․ تو پھر بھی اس کی فضیلت گھر میں قائم رہے گی؟․․․․․․ بعض گھروں میں ایسی صورت حال پیش آسکتی ہے کہ گھر کے کفیل مرد کا انتقال ہوجائے یا وہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر کہیں چلا جائے اور بچوں کی پرورش کی تمام تر ذمّہ داریاں ماں پر آ پڑیں․․․․․ اس ماں کے پندرہ سولہ سال کے لڑکے ہوں جو تعلیم حاصل کر رہے ہوں کیا ایسے گھر میں سر پرست ماں ہوگی یا مرد ہونے کی وجہ سے اس ماں کے لڑکے گھر کے سر پرست قرار پائیں گے ؟․․․․․․ ظاہر ہے کہ گھریلو معاملات، بچوں کے رشتہ ناطوں کا فیصلہ وہ لڑکے نہیں بلکہ ان کی ماں ہی کرے گی۔

اس آیت میں لفظ “ قَوَّامُون“کا مطلب حاکم سمجھ لیا گیا ہے جبکہ….

عربی زبان کی لغت میں قَوَّامُون کے معنی ہیں:

دوسرے کی ضروریات زندگی پورا کرنے کا ذمہ دار….

عربی زبان کی لغت المُنَجّد میں قَوَّام کے یہ معنی بتائے گئے ہیں….

خوبصورت قد والا…. معاملہ کا ذمہ دار،  کفیل، معاملہ کی ذمہ داری کو پورا کرنے پر قادر….

قَوَّام کی جمع قَوَّامُون ہے۔

ان معانی کو سامنے رکھتے ہوئے اس آیت میں غور کیا جائے تو ایک بالکل ہی مختلف صورتحال سامنے آتی ہے۔

بجائے اس کے مرد عورت پر حاکم قرار دے کر عورت کے درجہ کو مرد سے کم سمجھا جائے یہاں تو عورت کی سہولت کیلئے اس کے حق کی وکالت کی جا رہی ہے۔ گھریلو زندگی کے حوالہ سے اس بات کی بہت اہمیت ہے۔ گھر کا نظام چلانا مرد اور عورت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بچوں کی پرورش و نشونما اور گھر کی دیکھ بھال عورت کے ذمہ ہو تو اخراجات کی فراہمی سے بری الذّمہ رہنا اس کیلئے بہتر ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں اپنی بیوی اور بچوں کیلئے اور گھر کے دوسرے زیرِ کفیل افراد کیلئے معاش کے حصول کیلئے دَوڑ دھوپ اور وسائل کی فراہمی مرد کے ذمّہ قرار دی گئی ہے۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء

مرد عورتوں کیلئے ضروریات ِ زندگی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں ․․․․․ اور ایسا کر کے مرد عورت پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ عورت گھر کے اَندر کی ذمّہ داریاں ادا کر کے اپنا کردار ادا کرتی ہے ․․․․․ اور مرد گھر کے باہر کی ذمّہ داریاں ادا کر کے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

اب ان آیات کی ترجمانی اس طرح ہو سکتی ہے کہ عورتوں کیلئے وسائل مہیا کرنے اور ان کے امور کی دیکھ بھال مردوں کی ذمّہ داری ہے، کیونکہ اللہ نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے۔ اور فضیلت کیوں ہے ؟ اس لئے کہ وہ (یعنی مرد) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گھر کے باہر کام کاج یا مال کمانا صرف مرد کا حق نہیں قرار دیا گیا۔ عورت اگر چاہے تو وہ بھی معاشی سر گرمیوں میں حصہ لے کر مال کما سکتی ہے۔ لیکن ایسی صورت حال میں اسلام نے عورت کو مرد پر فضیلت دی ہے۔ وہ اس طرح کہ گھر کے اخراجات کی فراہمی مرد کے ذمّہ لگائی گئی ہے لیکن عورت کے لئے ایسی کوئی ذمّہ داری نہیں ہے۔

عورت اگر اپنی کمائی میں سے مرد کو ایک پیسہ بھی نہ دے تو مرد کا اس پر کوئی دعویٰ نہیں ہے۔

سورۂ النساء میں ہے:

ترجمہ: مرد جو کچھ کمائیں ان کا حصہ ہے….  اور عورتیں جو کچھ کمائیں وہ ان کا حصہ ہے …. (سورۃ النساء – 32)

سورۂ النساء میں فضیلت کے اس مشروط اعلان کے علاوہ کہیں بھی عورت پر مرد کی مطلق حاکمیت کا کوئی فرمان قرآن میں نہیں ملتا۔

 

سوال: ابّا جی ہم سلسلۂِ عظیمیہؔ کا پیغام کیسے دیں ہم تو چھوٹے چھوٹے لڑکے ہیں…. ہمیں تو تقریر وغیرہ بھی نہیں آتی؟

 

جواب:

رُوحانی ڈائجسٹ پیغام کیلئے بہت مفید ہے۔ تین ماہ تک رُوحانی ڈائجسٹ دیں اس کے بعد ان سے اس سلسلے میں بات کریں کہ رُوحانی ڈائجسٹ کیسا لگا۔ پڑھے لکھے لوگوں میں ڈائجسٹ دیں اور جو لوگ پہلی مرتبہ لیں ان سے رُوحانیت کی ابتدائی باتیں کریں۔ بڑے کے ساتھ اسٹوڈینٹ بن کر بات کریں اور اگر چھوٹا ہے تو استاد بن کر بتائیں اور اگر اسٹوڈنٹ آتا ہے تو اپنی خودنمائی اور علم کی دھاک نہ بٹھاؤ۔ اَن پڑھ کی بجائے پڑھے لکھے لوگوں کو بتائیں۔

 

کسی نے رُوحانی علاج کی اجازت طلب کی تو فرمایا کہ:

جب مرکز مضبوط ہوجائے گا تو پھر کام کی نوعیت کے مطابق الگ شاخ بنائی جا سکتی ہے….

پھر فرمانے لگے کہ:

بغیر اجازت والے مراقبہ نہ کریں…. اور دماغی امراض والے کو بھی مراقبے کی اجازت نہیں ہے تاکہ بعد میں یہ نہ کہیں کہ سلسلۂِ عظیمیہؔ نے پاگل کر دیا ہے ۔

 

سوال: ہم ترقی میں پیچھے کیوں ہیں؟

 

جوابـ : “چین میں اتنی ترقی ہےکہ وہاں پچیس فیصدخواتین فوجی پائلٹ ہیں…. اس لحاظ سےہم ان سےدوسو (۲۰۰) سال پیچھے ہوگئے ہیں۔

یہاں یہ ہے کہ بس علم پڑھنا تو علم ہے…. ہمارے پاس جو علم ہے وہ اتنا کمزور ہے کہ اگر بچوں کو انگریزی پڑھادی تو وہ دوسرا علم ختم ہوجائے گا…. اس لئے پیچھے ہوگئے ہیں۔ یہ کیسا اسلام ہے جو تعلیم پر پہرے بٹھادے۔ ہم علم میں پیچھے ہونے کی وجہ سے ترقی میں بھی پیچھے ہیں۔

 

سوال: جمہوریت کا آج کل بہت شور ہے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

 

جواب:

تاریخ میں عوامی دور کوئی نہیں گزرا…. کچھ حضرت عمرؓ اور کچھ حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کا دَور رہا۔ نظام چلانے والوں کا تمام رہن سہن تو عوام کے خلاف ہوتا ہے اس لئے کیسے عوامی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ جس نے کبھی بھوک نہ دیکھی ہو وہ نچلے طبقے کا کیا خیال رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح ہر چیز کو پرکھ لیں کچھ بھی نہیں ہے۔ جن لوگوں نے عوام کی خدمت کی، لوگوں نے ان کو ردّ کردیا اور مرنے کے بعد ان کے پیچھے چل پڑے…. زندگی میں تو کبھی ساتھ نہیں دیا۔ دولت سے آدمی خواہ مخواہ مرعوب ہوتا ہے آپ کو چاہئے کہ آپ اچھی سوسائٹی میں اٹھیں بیٹھیں۔ آپ کو سوسائٹی کے آداب آنے چاہئیں۔ لیکن دولت یا دولت مند سے کبھی مرعوب نہ ہوں۔

 

سوال: ہمارے کام کیوں منظور نہیں ہوتے؟

 

جواب:

بڑے بڑے عہدیدارکوششیں بھی کرتے ہیں لیکن اللہ کی طرف سے منظور نہیں ہوتا، آرڈر نہیں ہوتا اس لئے کام نہیں ہوتا۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ “اللہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا”…. تو یہ جھوٹ بولتے ہیں…. کیونکہ ان کا ذہن تو اللہ کی طرف ہوتا نہیں….. تمام دنیا میں رہتا ہے۔

پھر حضرت با یزید بسطامی ؒ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

آپ کے پاس جب کوئی سائل آتاتو تکیہ کے غلاف میں سے دو دینار نکال کر اسے دے دیتے۔

ایک دفعہ تکیہ کے غلاف میلے ہوگئے انہیں دھونے کیلئے ایک عورت کو دے دیا۔ جب وہ دھونے لگی تو دو دینار نکل آئے، اسے مختلف خیال آنے لگے۔ وہ حضرت کے پاس چلی گئی کہا کہ یہ آپ کے پاس کے ہیں فرمایا ہاں جب کبھی مہمان کا خیال آتا ہے تو میں خیال کرتا ہوں کہ تکیہ میں دو دینار ہیں۔

جب کبھی کسی فقیر کے پاس جاؤ خالی ہاتھ نہ جاؤ بھلے ماچس کی ڈبیا ہی لے جاؤ…. کیونکہ اللہ والے کا ذہن اللہ کی طرف ہوتا ہے۔ لوگ ان کی طرف آتے ہیں…. اُس بندے کو فکر رہتا ہے کہ مہمان آئیں گے۔ اگر اس کا اسٹور بھرا ہوا ہے تو اس کا ذہن اس طرف نہیں جاتا لیکن اگر نہیں ہے تو کہتا ہے کہ بھئی کوئی چیز ہی لے آتے…. یہ اس لئے ہے تاکہ اس کی ریاضت اور ربط دنیا کی طرف نہ ہو۔ تھوڑا تھوڑا ہی بہت ہوتا ہے۔ آپ جب مراقبہ ہال آئیں تو کچھ نہ کچھ لیتے ہی آیا کریں۔ میاں صاحب اکیلے آدمی ہیں انہیں فکر رہتا ہے۔

حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا لنگر پہلے بڑا تھا۔ اب تاریخ میں داتا صاحب کا لنگر بہت ہی بڑا ہے…. سب سے بڑا ہے۔ ریڈی میڈ (Ready Made) لگتا ہے۔ خواجہ ؒ صاحب کے دَور میں تین ہزار تا ساڑھے چار ہزار کا لنگرچلتا تھا اب تو کوئی حساب ہی نہیں۔

پھر فرمایا کہ انگلینڈ میں کیمرے سے اَورا (Aura) کی تصویر لیتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے مراقبہ ہال کی خاتون کی جب انہوں نے تصویر اتاری تو تصویر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک سفید روشنی کی بیم (Beam) ہے۔ تو انہوں نے تصویر دیکھ کر کہا آپ تو رُوحانی خاتون ہیں۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ میں نے مراقبہ میں اپنے شیخ کا تصور کیا تھا۔ مراقبہ میں تصور کرنے سے لاشعوری تحریکات نُور کے نزول کرنے سے زیادہ ہوجاتی ہیں۔

پھر فرمایا کہ لاشعور کی تحریکات بچوں میں زیادہ ہوتی ہیں لیکن ہمارے یہاں بچوں کی باتوں کو ردّ کر دیتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں پاگل سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں ۸ یا ۱۲ بچے جینیئس ہیں جن میں سے ایک سعیدہ باجی کا نواسہ ہے۔ ان سب کا تمام خرچہ حکومت خود برداشت کرتی ہے اور ان کیلئے الگ دوسروں سے مختلف نصاب اور اساتذہ ہیں اور ہم ان سے، ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے بہت پیچھے ہیں۔

 

سوال: دعا کا رُوحانی فلسفہ کیا ہے ؟

 

جواب:

بھئی دعا ایک درخواست ہے…. جو لوگ عمل کرتے ہیں ان کا عمل ہی دعا بن جاتا ہے۔

پھر ایک واقعہ سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ…. ایک محلے میں دو عورتیں جو کہ ہمسایہ تھیں… رہا کرتی تھیں۔ دونوں کا ایک ایک بچہ تھا۔ ان میں سے ایک عورت اپنے بچے کو صبح سویرے تیار کرتی اسے ناشتہ کراتی اور اسکول چھوڑ کر آتی، گھر آکر سارا دن اس کی کامیابی کیلئے دعا مانگا کرتی، دوپہر کو جب وہ واپس آتا تو اسے نہلاتی اور سلا دیتی۔ شام کو کھیلتا رہتا اور رات کو تھک رک سو جاتا…. الغرض یہ اس کی روٹین تھی۔

اِس کے بر عکس دوسری عورت بھی اپنے بچے کا خیال بالکل اسی طرح رکھتی لیکن رات کو وہ روز اسے اسکول کا کام کرواتی اور سکول کا کام کرنے کے بعد اسے سونے دیتی۔ دوسری عورت میں یہ خاص بات تھی کہ وہ اپنے بچے کی کامیابی کیلئے دعا نہیں مانگتی تھی۔ جب امتحان کا نتیجہ آیا تو دوسری عورت کا بچہ پاس ہو گیا اور جو صرف دعا مانگا کرتی تھی اس کا بچہ فیل ہوگیا۔ آپ دعا کے ساتھ کوشش بھی کیجئے۔

 

اس کے بعد ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:

کسی گاؤں میں ایک باپ بیٹا رہا کرتے تھے ان کی روزی کا ذریعہ کاشتکاری تھا لیکن ان کی زمین کا جو قطعہ تھا اس کے اَندر ایک پہاڑ آتا تھا۔ اس پہاڑ کی وجہ سے ان کی زمین کاشت کے قابل نہ تھی۔ اس کے پاس اس کا صرف ایک ہی حل تھا کہ اس پہاڑ کو وہاں سے ختم کردیا جائے…. نئی زمین خریدنے کیلئے ان کے پاس اتنی رقم نہ تھی جس سے وہ نئی جگہ کاشت کیلئے خرید سکیں…. چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس پہاڑ کو وہاں سے ختم کر دیاجائے۔ جب گاؤں والوں کو ان کی اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے ان باپ بیٹے کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ تو بالکل نا ممکن ہے کہ اتنے بڑے پہاڑ کو تم دو باپ بیٹا ختم کردو گے۔ تمہاری زندگی ختم ہوجائے گی لیکن یہ پہاڑ ختم نہ ہو گا۔ لیکن باپ بیٹوں نے ان کی باتوں کی بالکل پرواہ نہ کی اور تیشہ اٹھا کر پہاڑ ختم کر نے چلے گئے۔ کچھ دن تک تو دونوں کام کرتے رہے لیکن پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ پہاڑ کو کچھ ہوا ہے کہ نہیں۔ ایک دن اللہ کو ان کی محنت پسند آگئی انہوں نے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ پہاڑ کو اس زمین پر سے غائب کردو۔ فرشتے نے حکم کی تعمیل میں رات کو پہاڑ ختم کردیا۔ صبح جب باپ بیٹے پہاڑ توڑنے کیلئے آئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ انہوں نے جگہ ہموار کی اور کاشکاری کیلئے بیج بویا اور ہل چلایا جس سے انہیں ایک عمدہ فصل حاصل ہوئی۔ گاؤں والے یہ سب دیکھ کر حیران رہ گئے۔

آپ بھی رُوحانی ترقی کیلئے پابندی سے مراقبہ کریں، لٹریچر پڑھیں، اور یاحيُّ یا قَیّوم پڑھیں۔ دعا قبول ہونے میں کچھ وقت تو لگتا ہے۔ یہ ایک باقاعدہ پراسیس (Process) ہے۔ جس طرح اگر آپ کبھی کسی کام کے لئے پٹواری کو درخواست دیں تو وہ درخواست پٹواری سے تحصیلدار کے پاس جائے گی۔ تحصیلدار سے اسسٹنٹ کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر سے ڈپٹی کمشنر، ڈپٹی کمشنر سے کمشنر، کمشنر سے ہوم سیکرٹری، ہوم سیکرٹری سے وزیر اعظم، وزیر اعظیم سے صدر تک درخواست منظوری کیلئے جائے گی اور جب صدر اس درخواست کو منظور کر لے گا تو منظوری کے بعد پھر انہی مراحل میں سے ہوتی ہوئی پٹواری تک درخواست پہنچ جائے گی…. اس کے بعد آپ کا کام ہوجائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا سسٹم بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہزاروں کروڑوں فرشتے ایسے ہیں جو اس  سسٹم میں کام کر رہے ہیں۔

اسی طرح حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کا واقعہ بھی ہے کہ ایک چور چوری کرنے آیا اور آپ نے اسے ابدال بنادیا۔ اسے ابدال بننے میں کتنا وقت لگا یہ تو کوئی دیکھتا ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں نے دعا کے معنی کو غلط سمجھ لیا ہے اسی لئے مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔

 

سوال: دنیاوی کام سر انجام دیتے ہوئے بندے کا ذہن کس طرح ہر وقت مرشدِ کریم کی طرف لگا رہے ؟

 

جواب: آپ دنیاوی کام سر انجام دیتے ہوئے سورج کی روشنی کو کیسے محسوس کر لیتے ہیں؟ آپ سانس کیسے لے رہے ہیں؟

جواباً عرض کیا…. غیر ارادی طور پر….

ابّا جی نے فرمایا کہ…. بات ہوتی ہے عشق کی…. محبت اور لگن کی…. یقین کی بات ہوتی ہے اور یہ سب یقین سے پیدا ہوتا ہے…. یہ پریکٹس سے آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ جب آپ کو یقین ہوگا کہ میں بھی سورج کی طرح مَوجود ہوں تو آپ مجھے بھی دیکھنے لگیں گے۔

ایک دفعہ مجنوں لیلیٰ کے عشق میں گلیوں میں دیوانوں کی طرح پھر رہا تھا کہ لوگوں نے کہا کہ یہ کتا لیلیٰ کا ہے۔ مجنوں نے اسے اٹھایا، چومنے لگا اور پیار کرنے لگا۔ پھر ایک دفعہ مجنوں دریا کے کنارے پر ریت میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ کہا کہ لیلیٰ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ ریت کے ذروں کی چمک میں مجھے لیلیٰ نظر آرہی ہے۔ بھئی یہ سب یقین سے ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک محبوب اپنے عاشق سے کسی بات پر ناراض ہو گیا اور محبوب نے اسے گھر سے باہر نکال دیا۔ عاشق بیچارہ گھر سے باہر دروازے پر بیٹھ گیا۔ وہ بیٹھا رہا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اس نے تو تمہیں گھر سے باہر نکال دیا ہے تو اس عاشق نے کہا کہ چلو محبوب کسی کام کیلئے دروازہ کھولے گا تو ہمیں بھی دیدار ہوجائے گا۔

 

سوال: زوال کے وقت سے کیا مراد ہے ؟

 

جواب:

ظاہری معنی تو سورج کے غروب ہونے یا گھٹنے کا وقت ہے۔ زوال کے وقت ظاہری حواس یعنی بیداری کے حواس پر بوجھ پڑتا ہے۔ عصر اور مغرب کے وقت بندہ بیزاری محسوس کرتا ہے کونکہ دن کے حواس رات کے حواس میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں اس لئے رات کے حواس غالب ہونے سے بیزاری کی کیفیت ہوتی ہے۔

پھر ابا جی فرمانے لگے کہ پشاور میں ہمارے بزرگ دوست عبید اللہ درانی ؒ صاحب اور میں ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ خواجہ صاحب، قلندر بابا اولیاء ؒ جنّت اور دوزخ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

میں نے عرض کیا کہ ایک طرف سائبیریا کے لوگ رہتے ہیں جو نہایت ہی ٹھنڈا اور برفباری والا علاقہ ہے اور دوسری طرف افریقہ کے لوگ رہتے ہیں۔ اگر سائبیریا یعنی ٹھنڈے علاقے کے لوگ افریقہ یا گرم علاقوں میں چلے جائیں اور افریقہ والے سائبیریا چلے جائیں تو ان کیلئے وہ دوزخ ہوگی لیکن اِن کے درمیان میں جنّت ہے اور دوسری طرف آگ دوزخ ہے۔ بھئی سائبیریا کے لوگ کدھر جائیں گے دوزخ میں جائیں گے کیونکہ ان کیلئے تو یہی جنّت اور دوسروں کیلئے جنّت دوزخ ہے۔ وہ یہ جواب سن کر بہت ہنسے وار کہنے لگے کہ آپ بہت شریر ہیں۔

 

سوال: عرس کے بارے میں وضاحت فرمائیں۔

 

جواب:

یہاں پر جب کوئی بندہ مرتا ہے تو وہاں (اعراف) میں پیدا ہوتا ہے۔ وہاں اس کے آنے کی خوشی میں سالگرہ ہوتی ہے۔ اور یہاں عرس منایا جاتا ہے۔ عرس کے معنی عروس یعنی دولہا کے ہیں۔

معراج کی رات تقریبات ہوتی ہیں اور حضرت جبرائیل ؑ اس کے میزبان ہوتے ہیں۔ سب لوگ تو نہیں جاتے جو اس قابل ہیں وہ چلے جاتے ہیں۔

 

سوال: مقام کے بارے میں وضاحت فرمائیں؟

 

جواب:

رُوحانیت میں مقام نہیں ہے مقام تو محدودیت ہے۔ آپ کا شعور محدود ہے۔ اور ہم محدود ہیں۔ ہم اس کو محدود کر کے سمجھ رہے ہیں۔ جہاں رکے وہاں مقام ہے۔

 

سوال: سلسلہ چھوڑنے سے (بیعت ہونے کے بعد) زندگی خراب کیوں ہوجاتی ہے ؟

 

جواب:

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا تھا کہ جو بندہ سلسلۂِ عظیمیہ ؔ میں آتا ہے وہ لا شعور کے قریب ہوجاتا ہے…. یعنی نُور کے قریب ہوجاتا ہے…. تو جب سلسلہ کو چھوڑ کر دُور ہو جاتا ہے تو اس کا شعور رک جاتا ہے…. یعنی وہ خود کوشش کرتا ہے کہ لاشعور سے دُور ہو جائے جبکہ وہ لاشعور کے نزدیک ہوتا ہے۔ اسی کشمکش میں اس کی فہم ختم ہوجاتی ہے اور وہ بس زندگی کی روٹین کو پورا کرتا ہے….. بعض اوقات تو پاگل بھی ہوجاتا ہے۔

پھر فرمایا حضور قلندر بابا اولیاء ؒ  نگینے ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور ہر نگینہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ بعض بندے اتنے قریب آتے ہیں کہ بعد میں دُور چلے جاتے ہیں اور بعض کوئی وجہ بتائے بغیر چلے جاتے ہیں اور پھر کبھی نظر نہیں آتے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنی پوری زندگی میں ۲۹ دوست(مرید) بنائے اور نہ جانے اب وہ کہاں چلے گئے۔

 

سوال: جنگل کی بکریاں کم بیمار ہوتی ہیں اور گھر والی بکریاں اکثر بیمار رہتی ہیں، کیوں؟

 

جواب:

بکری کبھی بیمار نہیں ہوتی سب بیماریاں انسان کے اَندر ہیں۔ پرندوں کو کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی۔ وہ نہ زمین میں کاشت کرتے ہیں پھر بھی انسان سے اچھا کھاتے ہیں، انسان کی طرح پریشان بھی نہیں ہوتے۔ پرندے شادیاں بھی کرتے ہیں ان کے بچے بھی ہوتے ہیں، وہ ان کو پالتے بھی ہیں صرف انسان طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہے پریشان ہے مگر پھر بھی اشرف المخلوقات ہے یہ کیسے ؟

پھر فرمایا کہ ایک دفعہ خواب میں مجھے میرے والد صاحب ملے۔ رو رہے تھے۔ میں نے سبب پوچھا کہ آپ تو اتنی عبادت کرتے تھے پانچ حج بھی کئے جن میں سے ایک حج پیدل جدّہ سے مکّہ تک کیا۔ تو فرمایا کہ میرے ۶۵ سال کہاں گئے؟ میری پینسٹھ۶۵ سال کی عبادت کہاں گئی؟ سب ختم ہو گیا بس پِیر و مُرشد کی نظر کام کر گئی۔

سوال: ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے مراقبہ میں کامیابی نہیں ہوئی اتنا عرصہ ہو گیا ہے ؟

جواب: میں نے اس سے پوچھا کہ میٹرک کتنے عرصے میں کیا؟ …. تو بولے ۱۰ سال میں۔ تو میں نے کہا کہ ۲ اور ڈالو نرسری والے اب ہوئے ۱۲ سال تو ان ۱۲ سال میں اگر آپ روزانہ ۱۰ گھنٹہ پڑھائی کو دیتے ہیں تو ایک سال میں 3600  اور دس سال میں تقریبا چھتیس ہزار گھنٹوں میں آپ نے میٹرک کی۔ اور میٹرک کرنے سے آپ کچھ بن نہیں جاتے۔ آپ میٹرک سے چپراسی بنیں گے…. گزٹڈ آفیسر نہیں۔ پھر ۸ سال اور لگا لیں تو یہ بنے ۷۲۰۰۰ ہزار گھنٹے۔ ان بہتر ہزار گھنٹوں سے آپ ڈاکٹر بنے….. تو یہ صرف بہتر ہزار گھنٹے آپ نے پیٹ کیلئے، کھانے پینے، گزارہ کرنے کیلئے خرچ کئے۔ پیٹ کیلئے، کھانے پینے کیلئے…. جانور بھی یہ سب کر لیتے ہیں۔ بلی بھی پیٹ پالتی ہے۔ پرندے بھی ایسے کر لیتے ہیں۔ آپ نے ایسا کون سا کارنامہ کر دیا اور آپ….!  رُوحانیت کیلئے ۷۲ گھنٹے بھی نہیں دیتے۔

۱۵ منٹ مراقبہ کرتے ہیں وہ بھی صحیح نہیں۔ اچھا اب مراقبہ کرتے ہیں تو ذہن کاروبار میں لگ جاتا ہے۔ مراقبہ میں صرف اولاد کیلئے دعا کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ یکسوئی نہیں ہوتی۔

یہ بتائیں کہ جب آپ کاروبار کرنے کیلئے میز پر بیٹھتے ہیں تو پھر یکسوئی کہاں سے ہو جاتی ہے۔ اسی طرح آفس میں کام کرتے وقت، فائلیں بناتے وقت آپ کو یکسوئی ہوجاتی ہے۔ بھئی آخر یہ ۱۵ منٹ مراقبہ میں ہی یکسوئی کیوں نہیں ہوتی….؟ اچھا مراقبہ اگر کرتے بھی ہیں تو اس میں ناغے ہوتے ہیں۔ اصل میں مراقبہ مسائل دور کرنے کیلئے کر تے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو مجھے کہتے ہیں کہ میرا فلاں مسئلہ حل کر دو…. میرا کاروبار صحیح نہیں چل رہا…. تعویذ دے دو اور دعا بھی کریں، پڑھنے کیلئے بھی دیں۔

میں تو یہ کر دیتا ہوں لیکن اصل مقصد کیلئے رجوع نہیں کرتے۔

ایک شعر میں نے سنا  کہ:

نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

سب پہلا مصرعہ پڑھتے ہیں دوسرا کوئی پڑھتا ہی نہیں۔ بھئی اگر ذوق یقین پیدا ہوجائے تو تقدیر بدل جاتی ہے۔ جیسے کچھ لوگ:

لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ (سورۃ النساء – 43)

کہ صلوٰۃ کے قریب مت جاؤ…. تو پڑھتے ہیں لیکن یہ نہیں کہتے کہ جب تم نشے کی حالت میں ہو…. (وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ)۔

رُوحانیت مذاق نہیں ہے…. ایک دفعہ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اماں نے بھیجا ہے۔ اماں سلام کہتی ہیں اور کہہ رہی تھیں کہ ہمارا کاروبار ٹھیک نہیں چل رہا۔ کچھ پڑھنے کیلئے بتا دیں اور تعویذ وغیرہ بھی دے دیں۔ میں نے پڑھنے کیلئے بھی دے دیا اور تعویذ بھی دے دیا۔ آخر جب وہ جانے لگا تو مجھے خیال آیا کہ پوچھنا تو چاہئے کہ کیا کاروبار کرتے ہو۔ تو جب میں نے پوچھا بھئی کیا کام کرتے ہو؟ …. تو کہنے لگا کہ…. میں گورکَن ہوں….!!

اسی طرح ڈاکٹر جب دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں رزق دے تو اس کا مطلب ہے کہ….

اے اللہ…. بندوں کو بیمار کر دے…. تاکہ وہ میرے پاس آئیں۔

جس طرح گورکن نے دعا کی…. یعنی اے اللہ بندوں کو مار…. تا کہ میرا رزق مجھے ملے۔

بھئی بندوں کے مرنے میں ہی اس کا رزق ہے۔

 

ایک دفعہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ مجھے فرمانے لگے۔ گرو جو کہتا ہے… وہ کرو…. جو کرتا ہے…. وہ نہ کرو۔

 

پھر ابا جی فرمانے لگے کہ ایک پیر صاحب تھے اور ان کا ایک چیلا تھا جو کہ بہت موٹا تھا۔ وہ دونوں چلتے چلتے ایک ملک میں پہنچے تو وہاں کی ہر چیز ٹکے کے بھاؤ مل رہی تھی۔ چیلے کو حلوہ بڑا پسند تھا تو حلوہ بھی ٹکے بھاؤ مل رہا تا۔ پیر نے چیلے سے کہا یہاں سے چلو، یہاں ہر چیز ٹکے کے بھاؤ ہے….  کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے…. لیکن وہ چیلا صاحب تو حلوہ کھانے کیلئے وہیں رک گئے اور نہ مانے۔ پھر گرو یعنی اس پیر صاحب نے اپنے چیلے کو پڑھنے کیلئے کچھ بتایا اور کہا جب کوئی افتاد پڑے تو یہ پڑھ لینا ہم آجائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔

اس شہر میں ان دنوں ایک قتل ہوگیا۔ قاتل کی بڑی تلاش کی گئی لیکن کچھ نہ پتا چلا تو بادشاہ نے کہا کہ جس کی گردن اس پھندے میں فِٹ آجائے اسے پھانسی پر لٹکا دو۔ ملازم دیکھتے بھالتے اس چیلے کے پاس بھی پہنچ گئے۔ جب گردن دیکھی تو وہ پوری فٹ نکلی۔ اسے اسی وقت پکڑ کر لے گئے۔ چیلے نے بہت شور مچایا لیکن کچھ بس نہ چلا۔ آخر چیلے کو جو پڑھنے کیلئے بتایا تھا اس نے پڑھا اور اگلے دن پیر صاحب چیلے کے پاس پہنچ گئے تو چیلا قدموں میں گر گیا کہ حضور مجھے یہاں سے بچائیں تو پیر صاحب بولے کہ…. میں نے تجھے پہلے نہیں کہا تھا کہ یہاں معاملہ اندھیر نگری چوپٹ راج والا ہے۔ پھر کہا اچھا کچھ کرتے ہیں۔ کل جب تجھے پھانسی دینے لگیں تو تُو کہنا کہ…. مَیں نے مرنا ہے۔ اور مَیں کہوں گا کہ…. نہیں…. مجھے پھانسی دو….! سب ادب ایک طرف…. جیسے میں کہہ رہا ہوں ویسے کرو۔

چنانچہ کل جب ایسا ہی ہُوا تو بادشاہ حیران ہُوا۔ اس نے دونوں کے مرنے کی وجہ پوچھی تو پیر صاحب بولے کہ اس گھڑی جو مرے گا سیدھا جنّت میں جائے گا تو بادشاہ فوراً بولا کہ مجھے پھانسی دے دو…. چنانچہ اس طرح اس ملک کی بادشاہ سے جان چھوٹی۔ اس لئے کہتے ہیں کہ…. گرو جو حکم دے وہ ضرور کرو….

 

اسی طرح ایک شخص کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک کمہار کے گھر میں تھی اور ایک کسان کے۔ جب ان کا باپ ان سے ملنے گیا تو پہلی بیٹی جو کمہار کے گھر والی تھی بولی:

ابّا جی! دعا کر دیجئے کہ بارش نہ ہو…. کیونکہ ہمارے تمام برتن مٹّی کے ہیں۔ بارش سے برتن ختم ہوجائیں گے۔

وہی باپ جب دوسری بیٹی کے پاس گیا تو وہ بولی ابا جی دعا کریں کہ بارش ہوجائے…. کپاس کا بیج ڈالا گیا ہے…. وہ ٹھیک اگے گا…. اب بیچارہ باپ کس کیلئے دعا کرے یا نہ کرے…. وہ مجبور ہے۔

 

سوال: ذوقِ یقین کیسے پیدا کیا جائے ؟

 

جواب:

جو کہا جائے وہ کرتے رہو، کرتے رہو…. کرتے رہو…. کرتے کرتے…. ذوق یقین پیدا ہوجائے گا….

 

سوال: امیری اور غربت کا رُوحانیت سے کیا تعلق ہے ؟

 

جواب:

سلسلہ کی ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے شوہر کام نہیں کرتے، سارا دن گھر میں پڑے رہتے ہیں۔ ابّا جی نے فرمایا کہ جب اس کے شوہر سے کہا تو اس نے آگے سے جواب دیا کہ… ابّا جی کون سا کام کرتے ہیں…. تو بھئی مرشد کی عملی زندگی کو اپناتے نہیں…. اور جو مرشد اگر نہیں کرتا تو کہتے ہیں کہ…. وہ نہیں کرتا تو ہم بھی نہیں کرتے۔

یہ تو نظام ہی غلط ہے۔ بھئی ابا جی کے دسترخان پر ۱۵ بندے کھانا کھاتے ہیں تو آپ کے کتنے کھاتے ہیں اسلئے کچھ کرنا چاہئے۔ پریکٹیکل (Practical) یعنی عملی زندگی گزارنی چاہئے۔

سب کچھ لوحِ محفوظ پر لکھا۔ اگر لوحِ محفوظ پر سواری لکھا ہے تو اب یہ ذہنِ انسانی پر (Depend)کرتا ہے کہ وہ کیسی سواری پسند کرتا ہے۔ اس کی ذہنی وسعت پر سب کچھ منحصر ہے۔ وہ چاہے تو  اپنے لئے سائیکل پسند کر لے، سوزوکی گاڑی یا گدھا گاڑی…. لوحِ محفوظ پر تو سواری لکھا ہے۔ اب تو یہ اس کے ذہن پر منحصر ہے کہ اس کا ذہن کتنا وسیع ہے کہ کیا سواری پسند کرتا ہے۔ اور جو پسند کرتا ہے وہ ملتا بھی ہے….

جو کچھ کرتا نہیں…. وہ کہتا ہے کہ ہم نیکی کر رہے ہیں…. رُوحانیت پر چل رہے ہیں۔ اسی لئے تو مصیبتیں آرہی ہیں…. حالانکہ وہ خود نہیں جانتے کہ وہ چل بھی رہے ہیں کہ نہیں۔

جو بندہ(Status)بنا لیتا ہے…. اسے کہتے ہیں کہ یہ اسمگلر ہے۔ اور جو غریب ہوتا ہے وہ اپنی غریبی کو نیکی کا نام دیتا ہے….. حالانکہ…. غریبی کا نیکی سے کوئی تعلق نہیں…. ہمت کرنے سے آدمی کچھ کر بھی لیتا ہے۔ کئی آدمیوں میں تو کسی سے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کسی کی سفارش بھی نہیں کر سکتے…..

مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ وسائل کے پھیلاؤ سے پریشانی بڑھ جاتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک پیر صاحب تھے ان کے ایک دوست تھے، جب کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد پیر صاحب کو اپنے دوست کے بچوں کا خیال آیا کہ ان سے ملا جائے۔ تو وہ چھوٹے بیٹے کے پاس گئے۔ جب چھوٹے لڑکے سے ملاقات کی تو بہت گرم جوشی سے ملے اور اپنے گھر لے گئے۔ ان کے گھر میں بہت تنگدستی اور عُسرت تھی۔ خیر…. پیر صاحب نے وہاں قیام کیا اور رات کو ان سے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو۔ تو چھوٹے لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب نے بہت سمجھایا کہ پڑھ لکھ لو لیکن میں نے کوئی توجّہ نہ دی بلکہ برے لوگوں کی صحبت میں وقت گزارا۔ اب میں چِڑی مار ہوں۔ تو پیر صاحب بولے کہ اچھا صبح ہم تمہارے ساتھ چلیں گے…. تو لڑکے نے کہا کہ حضور آپ میرے والد صاحب کے پیر صاحب ہیں۔ آپ کہاں جائیں گے۔ آپ یہاں قیام کریں۔ میں جلدی آجاؤں گا لیکن پیر صاحب نہ مانے اور بولے کہ نہیں میں تو ضرور آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ پھر صبح کو وہ پیر صاحب کو بھی ساتھ لے گئے۔  جال لگا دیا۔ بہت چڑیاں، طوطے اور پرندے آئے لیکن جب بھی لڑکا جال کھینچنے لگتا تو پیر صاحب بولتے نہیں رہنے دو۔ وہ جو دانہ تھا پرندے سب چگ گئے۔ شام کو خالی ہاتھ واپس آگئے۔ کچھ عرصہ یونہی چلتا رہا، جال لگایا جاتا لیکن پرندوں کو پکڑنے سے پہلے ہی روک دیا جاتا رہا۔ اتنے میں تمام رزق جو جمع تھا…. ختم ہوگیا۔ اب وہ قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کرنے لگے۔ ایک وقت ایسا بھی آ گیا کہ لوگوں نے قرض دینا بند کر دیا۔ پیرصاحب سے عرض کیا…. انہوں نے اپنے پاس سے روپے دے دئیے اور کچھ عرصہ یونہی کام چلتا رہا۔ ایک دن جال لگائے بیٹھے کہ ایک پرندہ آ گیا۔ پیر صاحب نے کہا کہ فوراً جال کھینچ لو۔ جال کھینچ لیا۔ پرندہ پکڑ کر دیکھا تو وہ باز تھا۔ پیر صاحب نے لڑکے کو سختی سے تاکید کی کہ باز کو شہر میں اچھے داموں میں فروخت کرنا۔ اس نے باز فروخت کر دیا…. جس سے حاصل ہونے والی رقم سے ان کے حالات اچھے ہوگئے۔ پھر پیر صاحب نے فرمایا کہ تیری قسمت یعنی لوحِ محفوظ میں پرندے پکڑنا لکھا تھا…. چڑی بھی ایک پرندہ ہے اور باز بھی ایک پرندہ …. دونوں میں کیا فرق …..؟ بس تو باز ہی پکڑا کر….

اس کے بعدبڑے لڑکے کے پاس پیر صاحب چلے گئے۔ وہ بڑی بڑی گرم جوشی سے ملا، اپنے گھر لے گیا۔ اس سے حال احوال پوچھا اس نے کہا کہ حالات بہت اچھے ہیں۔ پیر صاحب نے پوچھا آپ کیا کام کرتے ہیں کہا کہ میں سرکاری اصطبل میں گھوڑوں کی خدمت پر مامور ہوں۔ ایک رات انہوں نے لڑکے کو بلایا اور کہا بھئی آپ ملازمت چھوڑ دیں۔ لڑکے نے کہا جی پھر کیا کریں گے۔ پھر سوچا والد صاحب کے پیر صاحب ہیں اسلئے ادب کی خاطر آخر کار انہوں نے وہاں سے استعفیٰ دے دیا۔ لوگوں نے کہا بھئی خوب ترقی ہوئی ہے سرکاری ملازمت ہے آپ چھوڑ رہے ہیں۔ الغرض ایک دن پیر صاحب نے کہا دلہن کو بلاؤ اس کے زیورات لے کر کہا کہ انہیں بیچ کر اس سے اعلیٰ نسل کا گھوڑے کا بچہ خرید لاؤ۔ وہ خرید لایا۔ پیر صاحب نے کہا کہ اب اس کی خوب خدمت کرو۔ اس نے خوب کھلایا پلایا۔ گھوڑا اچھا صحت مند اور جوان ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اب اسے بازار لے جا کر اچھے داموں فروخت کرو۔ گھوڑا اچھے داموں فروخت ہوگیا۔ پیر صاحب نے کہا کہ اس رقم سے دوسرے دو یا تین گھوڑے آ جائیں گے لے آؤ۔ اسی طرح ان سب کی خدمت کرو اور بیچو…. پھر پیر صاحب فرمانے لگے کہ تیرا رزق اگر گھوڑوں میں ہی تھا تو کیوں نہ گھوڑوں کا سوداگر بن….  گھوڑوں کا ملازم ہی کیوں۔ اس طرح وہ گھوڑوں کا سودا گر بن گیا۔

دراصل سب کچھ انسان کی ذہنی وسعت پر منحصر ہے۔ جیسی چاہے معیشت اختیار کر لے۔ چاہے دال کھائے یا گوشت۔ پوری دنیا دسترخوان ہے۔ لیکن تھوڑی سی محنت اور جدو جہد لازماً کرنی پڑتی ہے۔

 

سوال: آپ لوگوں کو مختلف وظائف بتاتے ہیں جس سے بے شمار لوگوں کوفائدہ ہوا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک ہی مسئلے کیلئے مختلف وظائف مختلف مدّت میں پڑھتے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوتی۔ اگر شادی یا روزگار کیلئے وظیفہ کرنے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وظیفہ پڑھنے یا دعا کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جو کام اپنے وقت مقرر پر ہونا ہوتا ہے وہ اسی وقت ہوتا ہے۔ اور ہماری نہ قبول ہونے والی دعائیں خدا کے حضور جمع ہوتی رہتی ہیں جن کا اجر آخرت میں ملے گا۔ آپ بتائیں جب وقت مقرر ہے تو وظیفہ کیوں پڑھا جائے؟

 

جواب:

بات صحیح ہے کہ ہر کام کیلئے ایک وقت مقرر ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہر کام لوحِ محفوظ پر پہلے سے نقش ہے۔

لوحِ محفوظ سے یہ نقوش نزول کرتے ہیں تو عالَمِ ناسوت میں مظاہر بنتے ہیں۔ لوحِ محفوظ کی تحریر یا نقوش کو مظاہرات کی دنیا  ( وُجود) میں آنے یا لانے کیلئے تدابیر بھی ہوتی ہیں۔ یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ اگر ہم کسی کام کے سلسلہ میں انتظار کرتے ہیں تو دس منٹ کا انتظار بعض اوقات قیامت بن جاتا ہے۔ اور بعض اوقات سالوں کی زندگی اس طرح گزر جاتی ہے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اب وقت اور اس کا تَعیّن دو الگ الگ باتیں ہوگئیں….

وقت کو اگر انتظار کے ساتھ گزارا جائے تو وقت کی طوالت انتظار کی نوعیت سے طویل اور طویل تر ہوجاتی ہے….

مفہوم یہ ہوا کہ وقت دراصل ایک کیفیت ہے…. کیفیت جیسی ہوگی وقت اسی کے حساب سے طویل یا قلیل ہوجائے گا۔

اس وقت ہم جن حواس میں کام کر رہے ہیں، وہ حواس بے یقینی، وساوس اور نااُمیدی کے حواس ہیں۔ ایسی صورت میں اگر حواس کو ایسے کام میں لگا دیا گئے کہ جس میں امید، یقین، روشنی اور نُور شامل ہو تو یہ ایک قسم کا تعمیری و تدبیری عمل بن جاتا ہے اور مایوس و نا مراد، کم ہمت انسان کو سہارا مل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس کا رجحان اللہ کی طرف ہوجاتا ہے۔

خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا… (سورۃ غافر –  60)

لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ محض وظیفے پڑھ لینے سے کام بن جاتے ہیں یہ فطرت کے خلاف ہے۔ دعا کے ساتھ عمل اور مسلسل عمل کی ضرورت ہے۔

بڑوں نے کہا ہے…. جوئندہ….  پائندہ…. یعنی جو کوشش کرتا ہے…. وہ پالیتا ہے….

 

سوال: کیا کوئی شخص ایک جگہ مَوجود ہو تو بعینہٖ …. اُسی وقت…. کسی دوسری جگہ مَوجود ہو سکتا ہے ؟ نیز ایک آدمی کو کمرے میں بند کر دیا جائے اور وہ بغیر دروازہ کھولے باہر نکل جائے…. کیا یہ ممکن ہے ؟ اگر ہے تو کیسے ؟ کیا یہ ریاضتوں کے ذریعے ممکن ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے ؟

 

جواب:

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی چیز ودیعت ہوتی ہے اس پر ریاضت تو کرنا پڑتی ہے۔ مثلاً اولیاء اللہ کا درجہ پیغمبروں سے کم ہے۔ اور پیغمبروں کی زندگی میں ہمارے لئے سب سے بڑی مثال رسول اللہ ﷺ ہیں۔ آپ آخری نبیؐ ہیں اور بحیثیت نبیؐ کے اللہ تعالیٰ نے جو عروج و کمال شبِ معراج میں حضور ﷺ کو عطا کیا ہے وہ کسی نبی کو حاصل نہیں اور نہ ہی کسی پیغمبر کے ساتھ اس طرح بات چیت ہوئی۔ اس کے باوجود حضور ﷺ کو بھی ریاضت کرنا پڑی….

مثلاً غارِ حرا میں مراقبہ کرنا، اور قریشِ مکہ نے جو کچھ حضور ؐ کے ساتھ کیا اور آپ ؐ نے برداشت کیا ، وہ بلاشبہ ریاضت و مجاہدہ ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا اپنے والدین سے جُدا ہونا…. باپ بیٹے میں دیوار کھڑی ہونا، کیونکہ ان کے والدی کی بت پرستی کی وجہ سے باپ بیٹے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زندگی ساری کی ساری ریاضت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز ودیعت ہوتی ہے تو ریاضت کرنا پڑتی ہے۔ اب اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایک چیز پہلے سے ودیعت ہے…. پھر آپ ریاضت کرتے ہیں۔ اس میں وقت کم لگتا ہے۔ اور نتائج زیادہ شاندار مرتّب ہوتے ہیں۔

مثلاً ایک باپ اولاد کیلئے بڑا کاروبار چھوڑ جاتا ہے۔ اور کاروبار سیکھنے کیلئے اولاد کو وقت لگانا پڑتا ہے۔ لیکن وہ تھوڑے سے وقت میں پورا کاروبار سنبھال لیتی ہے۔ اس کے بر عکس ایک آدمی مزدور ہے اور وہ زمین کھودتا ہے، وہ محنت مزدوری کرتا ہے، اسے بہت زیادہ ریاضت اور مشقت کرنا پڑتی ہے۔

فرق یہ ہے کہ اگر کوئی چیز پہلے سے ودیعت شدہ ہے تو تھوڑی سی ریاضت میں بڑے نتائج مرتّب ہوتے ہیں۔

 

سوال: قرآن پاک میں کوئی ایسا واقعہ مَوجود نہیں، نہ ہی رسول پاک ﷺ کے دَور میں یا صحابۂِ کرام ؓ کے دَور میں یا تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک آدمی بیک وقت دو جگہوں پر مَوجود ہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی کئی جگہوں پر مَوجود ہو؟

 

جواب: تاریخی حوالے سے میرے سامنے بھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے، اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کے زماے میں کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے۔ لیکن اس دَور میں اور آج کے دَور میں فرق ہے۔ آج ہمارے ہاں ٹیلیویژن ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے میں تو یہ بھی نہیں ہُوا کہ ایک آدمی بیک وقت لاکھ جگہ نظر آیا ہو۔ ان کے زمانے میں یہ بھی نہیں ہوا کہ آپ یہاں بیٹھ کر امریکہ بات کرلیں۔ تو جیسے جیسے نوعِ انسانی کا ارتقاء ہوتا رہا…. نئے نئے علوم سامنے آتے رہے۔

جہاں تک آدمی کا زائد جگہوں پر مَوجود ہونے کا تعلق ہے…. ایسا ممکن ہے۔

جب ہم رُوحانیت کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو بہر حال…. رُوحانی علوم…. مادّی علوم سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

مثلاً ہم ایک آدمی کو ٹی وی اسٹیشن پر کھڑا کر کے اسے ایک کروڑ جگہ پر ڈسپلے کرسکتے ہیں اور اسے ایک کروڑ سے زیادہ آدمی دیکھ سکتے ہیں۔ مادّی لحاظ سے اگر یہ ممکن ہے تو رُوحانی طور سے یہ کیسے ممکن نہیں ہے؟

ٹی وی اسٹیشن سے جو پروگرام ڈسپلے ہورہے ہیں اسے کئی جگہوں پر دیکھا جا تا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ انسان کی تصویر کو لہروں میں منتقل کر کے مخصوص فریکوئینسی یا مخصوص چینل کے ساتھ فضا میں منتشر کر دیا جاتا ہے۔ اور جب اس چینل سے وہ نقطے یا لہریں ٹی وی اسکرین پر آتی ہیں…. تو جیتی جاگتی تصویر بن جاتی ہے۔ جب مادّی اعتبار سے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا جا سکتا ہے تو رُوحانی اعتبار سے ایک رُوحانی آدمی اپنے آپ کو رُوحانی طور پر کئی جگہ ڈسپلے کر دے تو میرے خیال میں یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

 

سوال: کیا آپ کی ملاقات کسی ایسے آدمی سے ہوئی جس نے اپ کے سامنے اس قسم کا مظاہرہ کیا ہو؟

 

جواب: میں اپنے پِیر و مُرشد حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی خدمت میں شب و روز سولہ(۱۶) برس رہا ہوں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے سوئیٹزرلینڈ سے ایک خط ملا۔ جس میں ایک بھائی نے حضور بابا صاحبؒ کے بارے میں لکھا تھا کہ آپ یہاں تشریف لائے تھے۔ اور ہمیں ملاقات کا کافی وقت ملا، یوں ہُوا اور یوں ہُوا۔ اب خط پڑھ کر میں بڑا حیران ہوا کہ قلندر باباؒ  تو کہیں گئے نہیں۔ پھر یہ خط کیسا ہے ؟ میں نے اپنے میرو مرشد سے اس بارے میں پوچھا تو وہ مسکرا کرخاموش ہوگئے۔

دوسرا واقعہ یوں ہے کہ قلندر بابا اپنے ایک دوست، جس کے گھر اکثر جایا کرتے تھے، کے پاس گئے ہوئے تھے۔ شدید بارش ہورہی تھی۔ میں نے ان کی واپسی کا کافی انتظار کیا۔ پھر یہ سوچ کر سوگیا کہ اس بارش میں اب کہاں واپس آئیں گے۔ رات کو جب آنکھ کھلی تو آپ کمرے میں مَوجود تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اَندر کیسے تشریف لائے۔ اور دروازہ کس نے کھولا ؟ تو فرمانے لگے کہ میں نے دستک اس لئے نہ دی کہ میں نے سوچا کہ آپ کی نیند خراب ہوگی۔

اس کے علاوہ میں نے بہت سے واقعات دیکھے ہیں۔ اور ایسے واقعات بھی ہیں جو میں بیان نہیں کر سکتا۔ مگر میں نے یہ سارے واقعات اُس وقت دیکھے تھے جب میں سال ہا سال ان کی خدمت میں رہا۔

شروع میں مَیں نے کوئی ایسی بات نہیں دیکھی اور نہ ہی میں ان کی کوئی کرامت دیکھ کر بیعت ہوا۔ نہ ہی میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ وہ مجھے کچھ دکھائیں۔ البتہ میں نے ان کے اَندر ایک چیز دیکھی کہ ان کے اَندر محبت اور اخلاص بہت تھا۔ جو مجھے کبھی بھی نہیں ملا۔ اور میں اس محبت اور اخلاص کی بنیاد پر ان سے منسلک ہوگیا۔

تذکرہ غوثیہ میں حضرت غوث علی شاہ قلندر ؒ نے بھی اس قسم کے کئی واقعات کا تذکرہ کیا ہے ان کے ایک بھائی ابدال تھے۔ ان کا اور اپنی والدہ کا واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا۔ تذکرہ غوثیہ ماورائی علوم کے اوپر بھر پور کتاب ہے۔

 

سوال: قرآن کریم تمام علوم کا منبع ہے اور اس کے بعد حدیث شریف ہے۔ کیا قرآن اور حدیث کی رو سے مراقبے سے ایسے افعال جن کا تعلق عام فطرت سے نہ ہو۔ سر زد ہونا ممکن ہے؟

جواب:

ماورائی واقعات قرآن مجید میں مَوجود ہیں۔ قرآن میں حضرت سلیمانؑ کا واقعہ درج ہے کہ وہ دربار میں تشریف فرما تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ کوئی ہے جو بلقیس کا تخت لے آئے۔ تو ایک جن بولا کہ آپ کا دربار برخاست ہونے سے پہلے تخت لے آؤں گا۔ وہاں ایک انسان بھی مَوجود تھا اس نے کہا میرے پاس کتاب کا علم ہے۔ میں پلک جھپکتے میں تخت حاضر کردوں گا۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے پلک جھپکی تو بلقیس کا تخت حاضر تھا۔ حالانکہ درمیان میں ستائیس یا اٹھائیس سو میل کا فاصلہ تھا۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا واقعہ۔ آگ کا ٹھنڈا ہونا بھی بالکل ایک ماورائی بات ہے۔ آگ کے شعلے اتنے اونچے تھے کے پرندے بھی جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔ لیکن جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکا گیا تو آگ گلزار بن گئی۔

حضرت عزیر کاواقعہ…. ایک درخت کے نیچے سوگئے۔ آنکھ کھلی تو سواری کیلئے جو گدھا ساتھ تھا اُس کی ہڈیاں بھی راکھ بن گئیں۔ لیکن توشہ دان میں کھانا خراب نہیں ہوا۔

 

سوال: کرامت اور رُوحانیت کے بارے میں وضاحت فرمائیے؟

 

جواب:

جہاں تک کرامت کا تعلق ہے یہ اولیاء اللہ کے علاوہ یوگا کرنے والے اور ٹیلی پیتھی کے ماہروں سے بھی سر زد ہوتی ہے۔ مثلاً فلاں یوگی فضا میں اڑ گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔

دراصل رُوحانیت کا منشاء کرامت نہیں ہے اور نہ ہی کرامت کا تعلق رُوحانیت سے ہے۔

رُوحانیت کا منشاء یہ ہے کہ…. بندے کا اللہ کے ساتھ کتنا تعلق قائم ہے….؟

آپ کا تعلق اللہ سے قائم ہوسکتا ہے بشرطیکہ…. جسمانی رشتوں کے ساتھ ساتھ رُوحانی رشتے کو تلاش کریں۔ یعنی اللہ سے رشتہ قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی رُوح سے واقف ہوں۔ اگر نماز میں کنسنٹریشن (Concentration) یا اللہ سے رابطہ نہ ہو…. تو ایسی نماز نمازیوں کیلئے ہلاکت بن جاتی ہے…. (سورۃ الماعون)۔

رُوحانیت یہ ہے کہ اگر اللہ سے آپ کی دوستی نہیں ہے تو آپ آسمان پر بھی اڑیں تو آپ رُوحانی آدمی نہیں ہیں…

 

سوال: قرآن پاک میں کہیں بھی رُوحانی آدمی کا ذکر نہیں ہے۔ وہاں مسلم ہے یا غیر مسلم، مؤمن ہے یا فاسق اس بارے میں وضاحت فرمائیے؟

 

جواب:

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:

یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا یعنی یہ مؤمن نہیں ہیں۔

(سورۃ الحجرات – 14)

شرط یہ ہے کہ آپ پہلے ایمان لائیں پھر مؤمن بنیں۔ جب تک آپ مؤمن نہیں بنیں گے، اس وقت تک اسلام قابل تذکرہ تو ہے لیکن آپ نے اسلام کا حق پورا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اسلام میں پورے کے پورے ․․․․․․ داخل ہوجاؤ…. یعنی ایمان کے ساتھ اسلام میں داخل ہوجاؤ۔

مسلمان ہونا الگ بات ہے…. مؤمن بننا الگ بات ہے…. دراصل ایمان ہی رُوحانیت ہے…. اور مؤمن ہی رُوحانی آدمی ہے۔

اگرآپ کے اَندر ایمان نہیں ہے تو آپ رُوحانی آدمی نہیں ہیں۔

جب تک آپ اپنی رُوح سے واقف نہ ہوں گے…. مؤمن نہیں بنیں گے۔ اور جب آپ مؤمن بن جائیں گے تو خودبخود رُوحانیت سے واقف ہوجائیں گے۔

رُوحانیت کا مطلب ہے ایقان…. یقین ہے…. اور ایمان کا مطلب بھی یقین ہے۔

یقین کی صحیح تعریف مشاھدہ ہے….. اور مشاہدہ کے بغیر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی….

 

سوال: آپ نے ایک کتاب “ٹیلی پیتھی سیکھئے”لکھی ہے۔ اس کتاب کو لکھنے میں آپ کا کیا مقصد ہے؟

 

جواب:

میں نے یہ کتاب اس وقت لکھی جب روس، امریکہ اور دیگر ممالک میں ٹیلی پیتھی کا بہت زور تھا۔ ایک ایسی ہی مجلسِ مذاکرہ میں کہا گیا کہ غیر مسلموں نے ٹیلی پیٹھی کا علم ایجاد کر لیا ہے…. مسلمانوں نے کیا کیا؟ یہ بات میرے تو دل کو لگ گئی اور میں نے ٹیلی پیتھی پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ کتاب لکھنے سے میرا منشاء یہ تھا کہ ان لوگوں کے اَندر فکرِ سکیم پیدا ہوجائے جو غیر مسلموں سے متأثرہو کر ان کی طرف مُتوجّہ ہوگئے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے بلاشبہ بے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ جب لوگوں کی طرزِ فکر میں عیسائیت اور دہریت غالب آگئی تھی، اس کتاب کو پڑھنے اور مشقیں کرنے سے ان کے اَندر سے عیسائیت اور دہریت نکل گئی۔ وہ صراطِ مستقیم کی طرف گامزن ہوگئے۔ اس کتاب میں رسول اللہ ﷺ کے دَور کی بہت سی مثالیں دی گئی ہیں۔ جن میں اونٹ اور کنکریوں کی مثالیں شامل ہیں یہ کتاب شائع کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ لوگوں کے اَندر فکرِ سلیم پیدا ہوجائے اور غیر مسلموں نے ماورائی علوم میں جو ترقی کی ہے، مسلمان بھی فکرِ سلیم کے ساتھ ترقی کریں۔ اس کتاب میں آٹھ اسباق ہیں…. پہلے میں نے خود ان پر عمل کیا…. پھر اُن سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں کتاب لکھی۔

 

سوال: یہ لوگ جو یوگا اور ٹیلی پیتھی سکھاتے ہیں…. ان سب میں قدر مشترک کیا ہے؟ اور سب کس چیز پر زور دیتے ہیں؟

 

جواب: اِن سب میں قدرِ مشترک یہ ہے اور اِسی چیز پر زور دیتے ہیں کہ آدمی اپنے اندر (Inner) یا ذات سے واقف ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ اس لئے جب ہم اپنے اِنر یا اپنی ذات سے واقف ہوجائیں گے تو خود بخود اللہ تعالیٰ سے ہمارا رابطہ وتعلق قائم ہوجائے گا۔

 

سوال: قرآن پاک میں ارشاد ہے:  زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے، ہر شے اللہ کی تسبیح کرتے ہے (سورۃ التغابن – 1)…. اس سے یہ ثابت ہے کہ ہندو، عیسائی اور کمیونسٹ اور ان کے پیروکار بھی خدا کو مانتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ان کو غیر مسلم کیوں کہا جاتا ہے ؟

 

جواب:

انسانی ساخت کا جب ہم تذکرہ کرتے ہیں تو اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے سامنے دو باتیں آتی ہیں۔

نمبر(۱) انسان کا مادّی جسم

نمبر(۲) انسان کا رُوحانی جسم

مادّی وُجود میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اختیار کے استعمال کا حق دیا ہے چاہے ہم اپنے اختیارات اچھے کاموں میں استعمال کریں یا برے کاموں میں۔ اختیارات کے استعمال کا حق قرآن پاک سے ثاپت ہے….

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ … (البقرۃ – 256)

دین میں کوئی جبر نہیں ہے….

بندہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دین پر چلے یا نہ چلے۔

حضور ﷺ کی باتیں لوگوں نے جب نہ سنیں تو حضور ﷺ پریشان ہوئے…. تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ….

لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ (الغاشیہ – 22)

اے پیغمبر ﷺ ہم نے آپؐ کو لوگوں کے اوپر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا….

آپؐ کا کا م صرف یہ ہے کہ آپ ہمارا پیغام لوگوں تک پہنچادیجئے۔ جس نے سننا ہے وہ سن لے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دین کو قبول کرے یا نہ کرے۔ دین کا قبول کرنا یہ نہ کرنا ہمارے مادّی وُجود کا کام ہے۔ لیکن مادّی وُجود کے ساتھ رُوح کا بھی عمل دخل ہے۔

رُوح ہر چیز جس کے اَندر نشو نما ہے…. جو گھٹ رہی ہے یا بڑھ رہی ہے…. یا جس کے اَندر زندگی ہے…. اس کا تعلق رُوح سے ہے۔

جب یہ تذکرہ آتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہی ہے۔ تو اس میں کائنات کی تمام مخلوقات شامل ہیں۔ اور ہر چیز کی رُوح اللہ کا ذکر ہی کر رہی ہے۔ صرف مادّی وُجود کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اللہ کا ذکر کرے یا نہ کرے۔

کسی ہندو کی روح ہندو نہیں ہوتی…. کسی کمیونیسٹ کی رُوح کمیونسٹ نہیں ہوتی…. اور کسی مشرک کی رُوح مشرک نہیں ہوتی…. بلکہ شرک کا تعلق مادّی وُجود اور شعور سے ہے۔

اس آیت میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں…. سب رُوحانی طور پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہی ہیں۔

 

سوال: اللہ تعالیٰ کا قرب اور اپنی رُوح کا عرفان حاصل کرنے کیلئے کون سا عمل اختیار کیا جائے ؟

 

جواب:

اللہ تعالیٰ کا قرب اور رُوح کا عرفان حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یا عمل صلوٰۃ قائم کرنا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کو یہ اعجاز حاصل ہے کہ انہوں نے ہماری زندگی کی ہر حرکت کو صلوٰۃ میں شامل کردیا ہے۔

  • کھڑے ہونا….
  • جھکنا….
  • بیٹھنا….
  • لیٹنا….
  • پڑھنا….
  • خاموش رہنا …. وغیرہ

اس لئے…. اگر ہم صحیح معنوں میں صلوٰۃ قائم کر لیں تو ہمیں رُوح کا عرفان حاصل ہوجائے گا۔

آج ہم صحیح معنوں میں صلوٰۃ کو اس لئے قائم نہیں کر سکتے کہ ہم کنسنٹریشن (Concentration) یعنی ذہن کو یکسو رکھنے کے عمل سے واقف نہیں ہیں۔

  • ذہن کو یکسو کرنے کیلئے مراقبہ بہترین مشق ہے…. اور
  • جب ذہن یکسو کرنے کی عادت پڑجاتی ہے تو صلوٰۃ میں بھی ہمارا ذہن خود بخود یکسو ہوجائے گا….
  • جب صلوٰۃ میں کنسنٹریشن (Concentration) حاصل ہوجائے گی تو ہمیں مرتبۂ احسان حاصل ہوجائے گا۔
  • مرتبۂ احسان یہ ہے کہ بندہ یہ محسوس کرے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے…. یا بندہ محسوس کرے کہ بندہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
  • حضور ﷺ کا ارشاد ہے: الصّلوٰۃُ مِعراجَ المؤمنِین….
  • معراج کا مطلب ہے…. غیب کی دنیا میں داخل ہونا….
  • اگر انسان صلوٰۃ (نماز) میں کنسنٹریشن یعنی یکسوئی حاصل کر لے تو اس عمل کے ذریعے اسے معراج حاصل ہوجاتی ہے….

یہی وہ عمل ہے جس سے انسان کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی رُوح کا عرفان حاصل کر لیتا ہے….

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 295 تا 327

خطباتِ لاہور کے مضامین :

0.01 - اِنتساب 0.02 - ترتیب و پیشکش 1 - شہرِِ لاہور 2 - لاہور کے اولیاء اللہ 3 - مرشدِ کریم کی لاہور میں پہلی آمد 4 - مراقبہ ھال مزنگ کے افتتاح پر خطاب 5 - محمد حسین میموریل ہال مزنگ میں عظیمی صاحب کا خطاب 6 - جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو کے افتتاح سے خطاب 7 - دوسری بین الاقوامی رُوحانی کانفرنس سے خطاب 8 - جامعہ مسجد عظیمیہؔ کے افتتاح سے خطاب 9 - سہہ ماہی میٹنگ سے خطاب 10 - قلندر شعور 11 - شعور اور لاشعور 12 - کُن فیکُون 13 - تقریبِ رُونمائی کتاب”مراقبہ”سے خطاب 14 - مراقبہ ہال برائے خواتین کے افتتاح پر خطاب 15 - کتاب “محمدؐ رسول اللّٰہ ﷺ”کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 16 - روحانی سیمینار سے خطاب 17 - حضرت ابو الفیض قلندر علی سہر وردیؒ کے مزار پر حاضری 18 - لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب 19 - کتاب “ہمارے بچے “کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 20 - لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب 21 - اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں خطاب 22 - محفلِ میلاد سے خطاب بمقام جامع عظیمیہ لاہور 23 - ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب 24 - سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب 25 - اراکینِ سلسلۂِ عظیمیہ لاہور سے خطاب 26 - سیشن برائے رُوحانی سوال و جواب
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)