سعی کی حکمت

مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14313

صفا اور مروہ کے درمیان سات پھیرے لگانے کو سعی کہتے ہیں۔ یہ پھیرے حضرت بی بی ہاجرہؓ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے لئے پانی کی تلاش میں لگائے تھے۔ بی بی ہاجرہؓ کی اس سعی کے نتیجے میں آب زم زم کا چشمہ ابل آیا۔ حضرت بی بی ہاجرہؓ کا یہ عمل ممتا کی لازوال مثال ہے۔ مامتا اللہ کی صفت ہے۔ خالق اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ صفت ربوبیت ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو محبت کے ساتھ پالتا ہے اور ان کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے وسائل و اسباب مہیا کرتا ہے۔ ہر ماں ذیلی تخلیق کی ذمہ دار ہے ، جو دراصل اللہ کی صفات کا مظاہرہ ہے۔ ماں اپنے بچے سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور اپنے بچے کی پرورش اور کفالت کے لئے اپنی سکت کی انتہا تک کوشش کرتی ہے۔ ان کی کوشش جب قبول بارگاہ ہوتی ہے تو وہ اپنا گوہرِ مُراد حاصل کر لیتی ہے۔
انسان کے اندر زندگی کے تقاضے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جب یہ تقاضے ذہن میں رہتے ہیں۔ ان تقاضوں کی تکمیل کے لئے ذہن تدابیر و ذرائع تلاش کرتا رہتا ہے۔ ہر تقاضا صفت ربوبیت کی ایک روشنی ہے۔ روشنی میں اسباب و وسائل کے نقوش ہیں۔ تقاضے روح کی کیفیات ہیں۔ اس لئے کہ جب روح جسم میں نہیں ہوتی تو تقاضے بھی نہیں ہوتے۔ روح کی کسی کیفیت میں مرکزیت قائم ہو جائے تو تقاضا مظہر بن جاتا ہے۔ سعی کے عمل میں اسی قانون کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ حضرت بی بی ہاجرہؓ کا یہ عمل لوح ِمحفوظ کے قانون کا عکس ہے۔ انہوں نے لوحِ محفوظ کا قانون پورا کر کے رہتی دنیا تک مثال قائم کر دی۔
اللہ رب العالمین اپنی مخلوق سے بہت محبت کرتے ہیں۔ حضرت بی بی ہاجرہؓ نے صفا اور مروہ کے درمیان سات پھیرے لگا کر اس محبت کو مثبت کر دیا جو ایک خالق کو اپنی تخلیقی اولاد سے ہوتی ہے۔ رب وہ ہے جو مخلوق کی کفالت کی تمام ذمہ داریاں پوری کرتا ہے۔ رب وہ ہے جو اسباب و وسائل مہیا کرتا ہے۔
حضرت بی بی ہاجرہؓ نے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیلؑ کی زندگی کے لئے بنیادی وسیلہ پانی کی فراہمی کے لئے تلاش کا فریضہ ادا کیا۔ اور اس فرض میں اتنی مرکزیت قائم ہوئی کہ قدرت نے آب زم زم کا چشمہ جاری کر دیا۔ بی بی ہاجرہؓ کی سعی کے نتیجے میں نمودار ہونے والا آ ب زم زم کی ان کی اولاد حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی نسل کے لئے حیات بن گیا۔ اللہ پاک کی نعمتیں لا محدود اور لازوال ہیں۔ حضرت بی بی ہاجرہؓ کی سعی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا زم زم کا چشمہ بھی لامحدود و لازوال ہے۔ کہ اسے ہزاروں سال سے اللہ کے بندے ہر سال ۲۵ لاکھ اور پورے سال میں لاکھوں عازمین عمرہ یہ پانی پی رہے ہیں اور پانی میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
جب کسی بندے کا ارادہ اللہ کے امر کا تابع ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کر دیتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے کائنات بن گئی۔ بی بی ہاجرہؓ کا عمل امر ربی کے تابع ہو کر پانی کی شکل میں مظہر بن گیا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 117 تا 118

رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :

1.8 - غُسلِ کعبہ 1.16 - فضائلِ حج 1.9 - حجرِاسود 1.10 - ملتزم 1.11 - رُکن یمانی 1.1 - مکہ بحیثیت مرکز 1.12 - میزاب 1.2 - امیرِ حج 1.3 - انبیائے کرامؑ کی قبور 1.13 - حطیم 1.4 - مکہ کے نام 1.14 - مقامِ ابراہیمؑ 1.5 - بیت اللہ شریف کے نام 1.6 - مسجد الحرام 1.13 - حطیم 1.7 - مقاماتِ بیت الحرام 1.15 - زم زم 1.12 - میزاب 1.8 - غُسلِ کعبہ 2.21 - دربارِ رسالتﷺ کی فضیلت 2.11 - مناسکِ حج 2.1 - حج اور عمرے کا طریقہ 2.12 - ایامِ حج 2.2 - عُمرہ 2.13 - 8 ذی الحجہ۔ حج کا پہلا دن 2.3 - زم زم 2.14 - ۹ ذی الحجہ ۔ حج کا دوسرا دن 2.4 - سعی صفا و مروہ 2.15 - وقوفِ عرفات 2.5 - سعی کا آسان طریقہ 2.16 - عرفات سے مزدلفہ روانگی 2.6 - طواف کی مکمل دعائیں اور نیت 2.17 - ۱۰ذی الحجہ۔۔۔حج کا تیسرا دن 2.7 - مقام مُلتزم پر پڑھنے کی دعا 2.18 - ۱۱ذی الحجہ۔۔۔حج کا چوتھا دن 2.8 - مقام ابراہیمؑ کی دعا 2.19 - ۱۲ذی الحجہ۔۔۔حج کا پانچواں دن 2.9 - سعی کی مکمل دعائیں اور نیت 2.20 - طوافِ وِداع 2.10 - سعی کے سات پھیرے اور سات خصوصی دعائیں 3.1 - ارکان حج و عمرہ کی حکمت 3.2 - کنکریاں مارنے کی حکمت 3.3 - سعی کی حکمت 3.4 - طواف کی حکمت 3.5 - حلق کرانے کی حکمت 3.6 - احرام باندھنے کی حکمت 3.7 - آب زم زم کی حکمت 3.8 - چالیس نمازیں ادا کرنے کی حکمت، حکمتِ طواف، حدیث مبارک 4.25 - مولانا محب الدینؒ 4.4 - مشاہدات و کیفیات – شیخ اکبر ابن عربیؒ 4٫37 - شیخ ابو نصر عبدالواحدؒ 4.15 - حضرت ابو سعید خزازؒ 4.48 - حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ 4.26 - شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریاؒ 4.5 - حضرت ابو علی شفیق بلخیؒ 4.38 - حضرت ابو عمران واسطیؒ 4.16 - حضرت عبداللہ بن صالحؒ 4.49 - شیخ الحدیث حضرت مولانا سید بدر عالم میرٹھیؒ 4.27 - ڈاکٹر نصیر احمد ناصر 4.6 - حضرت ابو یزیدؒ 4.39 - حضرت سید احمد رفاعیؒ 4.17 - حضرت لیث بن سعدؒ 4.50 - حضرت مہر علی شاہؒ 4٫28 - حضرت علیؓ 4.7 - حضرت عبداللہ بن مبارکؒ 4.40 - حضرت شیخ احمد بن محمد صوفیؒ 4.18 - حضرت شیخ مزنیؒ 4.51 - شیخ ابن ثابتؒ 4٫29 - حضرت عائشہؓ 4.8 - حضرت شیخ علی بن موفقؒ 4.41 - حضرت شاہ ولی اللہؒ 4.19 - حضرت مالک بن دینارؒ 4٫52 - حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 4.30 - حضرت بلالؓ 4.9 - صوفی ابو عبداللہ محمدؒ 4.42 - حضرت آدم بنوریؒ 4.20 - حضرت جنید بغدادیؒ 4.31 - حضرت ابراہیم خواصؓ 4.10 - حضرت احمد بن ابی الحواریؒ 4.43 - حضرت داتا گنج بخشؒ 4.21 - حضرت شیخ عثمانؒ 4.32 - شیخ ابوالخیر اقطعؒ 4.11 - شیخ نجم الدین اصفہانیؒ 4.44 - حضرت شاہ گل حسن شاہؒ 4.22 - حضرت شبلیؒ 4.33 - حضرت حاتم اصمؒ 4.12 - حضرت ذوالنون مصریؒ 4.45 - پیر سید جماعت علی شاہؒ 4.23 - خواجہ معین الدین چشتیؒ 4.1 - مشاہدات انوار و تجلیات 4.34 - شیخ عبدالسلام بن ابی القاسمؒ 4.13 - شیخ حضرت یعقوب بصریؒ 4.46 - حضرت خواجہ محمد سعیدؒ 4.24 - حاجی سید محمد انورؒ 4.2 - مشاہدات و کیفیات – حضرت امام باقرؒ 4٫36 - حضرت سفیان ثوریؒ 4.14 - حضرت ابوالحسن سراجؒ 4.47 - حضرت خواجہ محمد معصومؒ 44 - مناسکِ حج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)