سرکشن پرشاد کی حاضری

مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ

مصنف : سہیل احمد عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14653

مہاراجہ سرکشن پرشاد حیدرآباد دکن کے طبقۂ امراء سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک عرصہ تک حیدرآباد دکن کے وزیراعظم بھی رہے۔ مہاراجہ شیروسخن کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی خاصہ درک رکھتے تھے۔ مہاراجہ کے سفرنامے اردو زبان کے معیاری سفرناموں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سرکشن پرشاد کے مطبوعہ سفرناموں میں ’’ سیر ناگپور‘‘ نامی ایک مختصر سفرنامہ ہے۔ اس سفر نامہ میں باباتاج الدین ؒ ناگپوری کا تذکرہ مرکزی حیثیت رکھتاہے۔ ذیل میں ہم اسی سفرنامے کے اہم مندرجات پیش کر رہے ہیں۔

تین مہینے ہوئے میرے عزیزباتمیز سیدمعین الدین خان نبیرۂ سردار عبدالحق، دلیرالملک مرحوم نے مجھ سے برسبیلِ تذکرہ کہا تھا کہ ناگپور کے پرے واکی اسٹیشن کے قریب ایک بزرگ تاج الدین شاہ ولی کے نام سے مشہور ہیں۔ نہایت کامل اور مستجاب الدعواۃ ہیں۔ ان کی رطب السانی کا تخم میرے دل میں بویا گیا اور شوق وذوق دید و درشن کی آبیاری سے اس کی پرورش شروع ہوئی۔ کم سنی سے مجھے بزرگوں کے ساتھ بلا قید ملت و مذہب کی ایک خاص قسم کی عقیدت ہے۔ یہ سمجھنا چاہئے کہ میری گھٹی میں عقیدت کا پٹ پڑاہے۔ اگر چہ انہیں دنوں میں طائرِ ارادہ کو تحریک ہوئی کہ چل کر درشن کرلوں، لیکن کُلُّ اَمْرٍمَرْحُوْنٌبِاَوْقَاتِھَاکے سبب پر پرواز شکستہ تھے۔ اس لئے یہ بات اور ارادہ رفت و گزشت ہوگیا ۔ دنیا عالم اسباب ہے۔ کسی سبب کا پیدا ہونا ضروری تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا تیسرا لڑکا عثمان پرشاد عدمؔ بروزِ دندان کے باعث علیل ہوگیاتھا، اس میں طوالت پیدا ہوئی اور بخار لازمی ہوگیا۔ ۱۰۰ ؍اور ۱۰۲ ؍کے درمیان اس کا اتار چڑھاؤ ہوتاتھا۔

ماہر ڈاکٹروں اور نامی گرامی اطباء کا علاج ہوتارہا لیکن بچہ کی طبیعت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ لوگوں کے مشورے پر سرکشن پرشاد بچے، اس کی والدہ اور بہن کو ساتھ لے کر وقارآباد چلے گئے تاکہ تبدیلِ آب و ہوا سے بچہ کے طبیعت پر خوشگوار اثر پڑے۔ وقارآباد کا فاصلہ حیدرآباد سے بذریعۂ ریل دوگھنٹہ کا تھا۔ اس دوران مہاراجہ کی لڑکی کی شادی بھی تھی۔ وقار آباد میں بھی بچے کی طبیعت میں افاقہ نہیں ہوا بلکہ بگڑگئی۔ شادی کی مجبوری سے مہاراجہ حیدرآباد واپس آئے۔ اور۷؍جمادی الآخر کو منگنی کی رسم ادا کی۔ اسی رات دو بجے بچے کی طبیعت مزید خراب ہوئی اور دوسری صبح بہت بگڑگئی۔ مہاراجہ سخت پریشان ہو گئے۔ وہ لکھتے ہیں

’’طبیعت نے گوارہ نہ کیا کہ اپنے پیارے کی حالت یہاں رہ کر دیکھوں۔ فوراً ریل کے سیلون کا انتظام کرکے میں نے اپنے والدِماجد کو لکھ دیا کہ فی الحال شادی ملتوی کردی جائے۔ ہفتہ عشرہ کے لئے میں بغرضِ تبدیلِ  آب وہوا جاتا ہوں ورنہ میری صحت پر برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ ۸؍تاریخ روزِ پنجشنبہ، وقتِ مغرب سب کو خدا حافظ کہہ کر گھر سے بحالتِ استرار روانہ ہوا اور  برخوردار کی والدہ سے کہہ دیا کہ خدا پر نظر رکھ کر دعا کرتی رہیں۔ ان شاء االلہ جب بخار میں کمی محسوس ہوگی۔ اس وقت واپس ہوؤں گا‘‘۔

چلتے وقت بعض احباب نے مشورہ دیا کہ جب سفر پر روانہ ہو ہی رہے ہیں تو بہتر ہے کہ ناگپورکی طرف جاکر حضرت تاج الدین ؒ بابا کے بھی درشن کرلیں۔ یہ بات مہاراجہ کے دل کو لگی اور وہ ناگپورکی سمت روانہ ہوئے۔

ناگپورپہنچ کر راجہ صاحب کو پتہ چلا کہ بابا تاج الدینؒ راجہ رگھوجی کے مکان میں رہتے ہیں۔ راجہ صاحب نے بغیر تعرف اور اجازت کے وہاں جانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ اپنے منصب دار مرزا احمدبیگ کو باباصاحب کی خدمت میں سلام پہنچانے کا حکم دیا۔ مرزا احمدبیگ جس وقت باباصاحب کی خدمت میں پہنچے، باباصاحب لیٹے ہوئے تھے۔ موقع مناسب دیکھ کر مرزااحمد نے مہاراجہ کا سلام پہنچایا۔ باباصاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔

’’چراغ رکھ کر چراغ کی فکر کرتاہے، کہہ دے گھر کو چلا جائے۔‘‘

مہاراجہ کشن پرشاد کو جب یہ جواب سنایاگیاتو انہوں نے اسے اپنے لئے ایک خوش خبری سمجھا لیکن ایک بات ان کے دل کے گوشے میں کھٹک رہی تھی کہ باباصاحب مجزوبانہ طبیعت رکھتے ہیں۔ اس اشارے سے ان کا کوئی اور مطلب تو نہیں۔

دوسرے دن صبح گھر سے تار آیا کہ رات کو بچے کی حالت زیادہ خراب تھی۔ مہاراجہ کشن پرشاد بےچین ہوگئے۔ اور ایک مصاحب رام چندر پرشاد سے کہا کہ آج کسی نہ کسی طرح باباتاج الدین صاحب کے درشن سے فیض حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا کوئی موٹر خواہ کرائے کی ہو حاصل کرو۔

تھوڑی کوشش کے بعد موٹر مل گئی۔ ۴؍بجے لباس تبدیل کرکے اپنے دو مصاحبوں کے ساتھ  ہوا خوری کے لئے نکلے۔ مہاراجہ لکھتے ہیں:

جہاں تک گیا اور دیکھا ناگپورکی بستی کو خوشنما پایا۔ سڑکیں سینۂ بے کینہ کی طرح صاف، اس کے دو رویہ گھنے درخت مسافر اور رہ گزر پرسایہ ڈالتے ہیں، مکانات کی باقاعدہ سجل قطار راستے وسیع۔

چلتےچلتے راجہ کے اس باغ تک پہنچے جہاں باباصاحب مقیم تھے۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ باباصاحب موجود ہیں مہاراجہ کشن پرشاد فوراًموٹر سے اتر کر اندر داخل ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’دیکھتا کیا ہوں کہ زائرین کا تانتا بندھا ہوا ہے اورمنتظرِ فضلِ باری ہیں اور مجزوب کے مظہر کو اپنا قاضی الحاجات سمجھ کر امید کا دامن پھیلائے ہوئے ہیں۔ اور مظہرِذاتِ نامتناہی عبودیت کے خلوت سے مزین ہوکر مجزوب کی تصویر بن کر ہر ایک کے درد کی دوا کرنے میں اپنی مسیحائی دکھا رہاہے۔ جل جلالہ جل شانہ۔ اس وقت باباصاحب دوسری طرف متوجہ تھے۔ میرے پسِ پشت جاکر کھڑے ہوتے ہی چونک کر فوراً میری طرف دیکھ کر نظرملائی۔ نظر کا ملنا تھا کہ میرے قلب پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی جس کا اظہار قلم سے ممکن نہیں۔ درحقیقت ان کی نسبت نہایت قوی اورنظرمیں برقی قوت تھی۔ میں نے بھی ان کی دید سے نظر نہیں چرائی۔ دس منٹ یا اس سےکچھ زائد عرصہ ہوا ہوگا۔ بقول شخصے

دید تو مغز است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

اس دید بازی کے مزے خوب ملے۔ اس کے بعد باباصاحب نے کہا۔ ’’شرارتیں کرتے ہو، جاؤ سیدھے گھر جاؤ۔‘‘

میں سلام کرکے واپس ہوا۔ اگرچہ بعض کا خیال ہوا کہ میں ان سے کچھ کہوں۔ مگر ان کی زبردست نسبت نے مجھے ہر طرح مطمئن کر دیا تھا۔ جب تھوڑی دور تک میں چلا تو میرے پیچھے ہی آئے اور ایک مائی صاحبہ بیٹھی تھیں ان سے چوڑی لی اور مجھے دےکر کہا ۔’’لو بس اب تو جاؤگے۔‘‘میں نے چوڑی لی اور اس کا تفاول بھی نیک خیال میں آیا۔ میں پھر سلام کر کے واپس ہوا۔ میرے ساتھ آئے، میں کھڑاہوگیا۔ وہاں کبوتر اڑرہے تھے۔ ان کی طرف مخاطب ہوکر درختوں کے گملوں میں سے کچھ مٹی اٹھائی اورکبوتروں کی طرف ڈال کے خدا جانے کیا فرماتے رہے ۔ میں تو ان کی دید میں محو تھا۔ اس اثنا میں ایک معتقد سگریٹ روشن کرکے باباصاحب کی طرف متوجہ ہوا۔ آپ نے فوراًمیری طرف دکھا کر اس سے کہا ’’یہ تو ان کو دو، یہ پئیں گے۔ ان کے واسطے۔ ‘‘ اور وہ سگریٹ مجھ کو عنایت فرمایا۔ میں نے اس کو بھی لے لیا۔  جب میں جانے لگا تو جیسے فوجی سلام کر تے ہیں اسی طرح سلام کر کے یہ الفاظ کہے۔

All right and good morning یعنی سب کچھ بہتر ہے۔ صَبَّحکَ اللہ ۔

اس سے بہتر اور تفاؤل نیک اور جامع اور کیا کیا ہوسکتا تھا۔ میں پھر سلام کر کے رخصت ہوا۔ پھر میرے ساتھ ساتھ وہاں تک آئے جہاں میں موٹر سے اترا تھا۔ وہاں سے وہ دوسری طرف چلے گئے اور میں خداحافظ کہہ کر اپنی فرود گاہ کی طرف روانہ ہوا۔

آخر میں مہاراجہ کشن پرشاد نے اپنے سفرنامۂ ناگپوراس بیان پر ختم کر دیاہے۔

’’ادھر زلفِ یار نے کمر تک رسائی کی اور اِدھر نصف شب نے سیاہ چادر کمر تک تان لی۔جَعَلَنا اللَّیْلَ لِبَاساً کے حکم کے مطابق بستر پر دراز ہوگیا۔ دوسرے روز منماڑ پہنچا۔ وہاں بذریعہ تار اطلاع ہوئی کہ برخوردار کا مزاج رویہ اصلاح ہے۔ ڈاکٹرہنٹ نے کہہ دیا کہ اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔ ٹمپریچر ۰۱ا؍سے زیادہ نہیں ہے۔ الحمداللہ المنت اس نوید مسرّت آمیز کے سننے سے دلِ شاؔد باغ باغ ہوا وہاں سے سیلون بدل دیا گیا۔ میٹر گیج لائن کاایک سیلون لے کر اورنگ آباد کے راستے سے چہار شنبہ کے روز چار بجے کی ٹرین میں الوال میں داخل ہوا اور وہاں سے بذریعۂ موٹر مکان میں آیا۔ اورسب کو خیر وعافیت کے ساتھ پایا۔ سجدۂ شکر بجا لایا اور شادی کے آغاز کے لئے حکم دے دیا۔ خدائے تعالیٰ ہمیشہ ہربات کاانجام بخیر کرے۔‘‘

سفرنامہ کی تاریخ کے متعلق پتہ چلا کہ غزّۂ جمادی الآخر ۳۳۱اھ کو ۸؍مئی ۱۹۱۳؁ء اور روز پنجشنبہ تھا۔ مہاراجہ کے بیان کے مطابق ۷؍تاریخ کو منگنی ہوئی، ۸؍تاریخ روزِ پنجشنبہ کو بچے کی طبیعت زیادہ بگڑگئی۔ اسی روز مہاراجہ حالتِ استرار میں ناگپورکی طرف نکل گئے۔ واپسی چہار شنبہ کو عمل میں آئی۔ اس طرح یہ ثابت ہوا کہ ۸؍جمادی الآخر ۱۳۳۱ھ مطابق ۱۵؍مئی ۱۹۱۳ء روزِ پنجشنبہ کو آغازِ سفر کیا۔ اورساتویں روز ۱۴؍جمادی الآخر مطابق ۲۱؍مئی کو حیدرآباد واپس آئے۔ اس لحاظ سے یہ سفر ۷؍دن کا ہوتاہے۔

مہاراجہ کشن پرشاد دوسری دفعہ بابا صاحب کی خدمت میں آئے تو نظام دکن کا ایک فرمان بھی ساتھ لائے جس میں کچھ جاگیر نظام میں باباصاحب کی نذر کی تھی۔ باباصاحب نے فرمان چاک کرتے ہوئے کہا۔

’’نظامِ دکن کا دماغ خراب ہو گیاہے۔ کہ زمین کے مالک کو زمین نذر کرتاہے۔ اس سے کہو کہ ہم نے تم کو زمین دے رکھی ہے۔ ‘‘

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 64 تا 70

سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :

انتساب پیش لفظ اقتباس 1 - روحانی انسان 2 - نام اور القاب 3 - خاندان 4 - پیدائش 5 - بچپن اورجوانی 6 - فوج میں شمولیت 7 - دو نوکریاں نہیں کرتے 8 - نسبت فیضان 9 - پاگل جھونپڑی 10 - شکردرہ میں قیام 11 - واکی میں قیام 12 - شکردرہ کو واپسی 13 - معمولات 14 - اندازِ گفتگو 15 - رحمت و شفقت 16 - تعلیم و تلقین 17 - کشف و کرامات 18 - آگ 19 - مقدمہ 20 - طمانچے 21 - پتّہ اور انجن 22 - سول سرجن 23 - قریب المرگ لڑکی 24 - اجنبی بیرسٹر 25 - دنیا سے رخصتی 26 - جبلِ عرفات 27 - بحالی کا حکم 28 - دیکھنے کی چیز 29 - لمبی نکو کرورے 30 - غیبی ہاتھ 31 - میڈیکل سرٹیفکیٹ 32 - مشک کی خوشبو 33 - شیرو 34 - سرکشن پرشاد کی حاضری 35 - لڈو اور اولاد 36 - سزائے موت 37 - دست گیر 38 - دوتھال میں سارا ہے 39 - بدکردار لڑکا 40 - اجمیر یہیں ہے 41 - یہ اچھا پڑھے گا 42 - بارش میں آگ 43 - چھوت چھات 45 - ایک آدمی دوجسم۔۔۔؟ 46 - بڑے کھلاتے اچھے ہو جاتے 47 - معذور لڑکی 48 - کالے اور لال منہ کے بندر 49 - سونا بنانے کا نسخہ 50 - درشن دیوتا 51 - تحصیلدار 52 - محبوب کا دیدار 53 - پانچ جوتے 54 - بیگم صاحبہ بھوپال 55 - فاتحہ پڑھو 56 - ABDUS SAMAD SUSPENDED 57 - بدیسی مال 58 - آدھا دیوان 59 - کیوں دوڑتے ہو حضرت 60 - دال بھات 61 - اٹیک، فائر 62 - علی بردران اورگاندھی جی 63 - بے تیغ سپاہی 64 - ہندو مسلم فساد 65 - بھوت بنگلہ 66 - اللہ اللہ کر کے بیٹھ جاؤ 67 - شاعری 68 - وصال 69 - فیض اور فیض یافتگان 70 - حضرت انسان علی شاہ 71 - مریم بی اماں 72 - بابا قادر اولیاء 73 - حضرت مولانا محمد یوسف شاہ 74 - خواجہ علی امیرالدین 75 - حضرت قادر محی الدین 76 - مہاراجہ رگھو جی راؤ 77 - حضرت فتح محمد شاہ 78 - حضرت کملی والے شاہ 79 - حضرت رسول بابا 80 - حضرت مسکین شاہ 81 - حضرت اللہ کریم 82 - حضرت بابا عبدالرحمٰن 83 - حضرت بابا عبدالکریم 84 - حضرت حکیم نعیم الدین 85 - حضرت محمد عبدالعزیز عرف نانامیاں 86 - نیتا آنند بابا نیل کنٹھ راؤ 87 - سکّوبائی 88 - بی اماں صاحبہ 89 - حضرت دوّا بابا 90 - نانی صاحبہ 91 - حضرت محمد غوث بابا 92 - قاضی امجد علی 93 - حضرت فرید الدین کریم بابا 94 - قلندر بابا اولیاء 94.1 - سلسلۂ عظیمیہ 94.2 - لوح و قلم 94.3 - نقشے اور گراف 94.4 - رباعیات
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)