زمین ناراض ہے

مکمل کتاب : اسم اعظم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=762

زمین ایک ہے۔ آسمان سات اور دن چھ ہیں جب کہ شعوری حواس بتاتے ہیں کہ دن چھ نہیں سات ہیں۔ جمعرات بدھ ، منگل، پیر، اتوار، سینچر اور جمعہ۔
دن چھ ہیں یا آسمان سات ان کا تذکرہ اسی وقت ہوتا ہے جب بندہ بشر زمین پر زندہ ہو۔ بشر کی زندگی اس وقت قابل بیان ہے جب وہ زمین پر پیدا ہو۔ زمین پر پیدائش اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ماں نہ ہو۔
اور ماں کا وجود اپنی ماں کے وجود کے تابع ہے۔ ماں کی ماں یعنی نانی دادی کا وجود ماں کے پیٹ پر منحصر ہے کوئی بھی ہو ہر فرد ماں کا پیٹ ہے۔ نشوونما دینے نسل چلانے نسل کے لئے وسائل فراہم کرنے اور بطن مادر کو تخلیقی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے والی ایجنسی زمین ہے۔
زمین مٹی ہے۔
زمین مٹی ہے تو زمین میں سے پیدا ہونے والی ہر شئے مٹی ہے۔ مٹی نہ ہوتی تو زمین پر لہلہاتے کھیت ہرگز نہ ہوتے۔ مٹی نہ ہوتی تو پھول نہ ہوتے۔ پھولوں میں رنگ نہ ہوتے۔ رنگوں میں اگر شوخی نہ ہوتی تو کشش نہ ہوتی۔ کشش نہ ہوتی، خزاں اور بہار کا تصور ختم ہو جاتا۔ خزاں اور بہار کا عمل نہ ہوتا، عاشق و معشوق کی وارفتگی عدم کا فسانہ بن جاتی۔ کہکشانی چمک زمین پر نہ اترتی تو اندھیری رات میں لاکھوں جگنو چراغ نہ جلتے بجھتے۔ چڑیوں کی چمک نہ ہوتی تو فضا میں سناٹے کے علاوہ کچھ نہ ملتا۔ پپیہے کی آواز کانوں میں رس نہ گھولتی تو دل کی دنیا بے قراری کے عمیق سمندر میں ڈوب جاتی۔ بانسری فراق کے گیت نہ گاتی تو آنسو خشک ہو جاتے۔ ہریالی نہ ہوتی تو دنیا ویرانہ بن جاتی۔ القصہ مختصر۔
شجر حجر آبشاریں، ندی ، نالے، دریا، سمندر، چرند پرند، حشرات الارض سب زمین کی وجہ سے ہیں۔ جمادات میں لوہا سیسہ تانبا پیتل سونا چاندی کیا ہیں۔
زمین کی طبقاتی تقسیم میں جس طرح زمین میں سے نکلے ہوئے لوہے کے ڈھیلوں کو بھٹی میں پگھلا کر لوہا اور فولاد بنا لیا جاتا ہے اسی طرح تانبا، پیتل اور المونیم کو پگھلا کر برتن بنا لئے جاتے ہیں۔ چاندی اور سونا بھی جمادات سے متعلق ہیں۔ سونے کی ریت کو یا سونے کے ذرات کو بھٹی میں پگھلا کر سونے میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ اس دھات کی انسانی معاشرے میں زیادہ قدر و قیمت ہے حالانکہ سونا نہ کھلایا جا سکتا ہے اور نہ سونے سے پیاس بجھتی ہے۔
اے انسان!
ذرا سوچ تو، کہاں جا رہا ہے، کیا کر رہا ہے؟ کبھی تم نے سوچا ہے کہ زمین کے ذرات ہر قدم پر تیرے محکوم ہیں۔ تیرے پیدا ہونے سے پہلے ہر چیز اس میں سونا چاندی سبھی شامل ہے پہلے سے موجود تھی۔ تو جو یہاں ایک محدود وقت کے لئے مسافر ہے۔۔۔۔۔۔
تو نے اپنی ذات سے زیادہ مٹی کے ذرات کو اہمیت دی۔
اے انسان!
زمین تجھ سے ناراض ہے کہ تو زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ زمین میں سے کھاتا پیتا ہے۔ زمین پر سوتا جاگتا ہے اور تو نے صرف زمین کے سنہرے ذرات کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ تو ان ذرات کے پیچھے اس طرح دیوانہ بن گیا ہے کہ تجھے اپنا ہوش بھی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔
اور جب تجھے اپنا ہوش بھی نہیں رہا تو تیرے اندر اربوں کھربوں ذرات کو فیڈ کرنے والی انرجی چند سنہری ذارت میں خرچ ہو گئی ہے۔ جب کہ تیری زندگی چند مخصوص ذرات پر قائم نہیں۔ زمین کے اوپر زمین کے اندر اور فضا بکھرے ہوئے تیرتے ہوئے سنکھوں ذرات پر قائم ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام عازم سفر ہوئے تو ایک یہودی بھی ساتھ لگ گیا۔ درخواست کی کہ میں سفر میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ چلتے چلتے جب سورج کی تپش اور دھوپ کی تمازت بڑھی تو دونوں نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا۔ کھانے کے لئے دونوں نے اپنے اپنے دسترخوان کھولے۔ یہودی نے یہ دیکھ کر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس دو روٹیاں ہیں اور یہودی کے پاس تین روٹیاں ہیں۔ اس نے دسترخوان سمیٹ لیا اور کہا کہ میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں۔ زیادہ تھک گیا ہوں، کھانا کھانے کے لئے ساتھ پانی نہیں ہے اس لئے مہربانی فرما کر آپ پانی لے آئیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پانی لینے کے لئے چلے گئے۔ یہودی نے جلدی سے ایک روٹی کھا لی۔ دوبارہ جب کھانے کے لئے بیٹھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تیرے دسترخوان میں تین روٹیاں تھیں۔ یہودی نے کہا آپ کو شک گزرا ہے، روٹیاں دو تھیں۔ حضرت عیسیٰ خاموش ہو گئے۔ یہودی کھانا کھانے کے بعد لیٹا تو اس کی آنکھ لگ گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مٹی کی تین ڈھیریاں بنائیں اور پھونک مار دی۔ وہ تینوں ڈھیریاں سونے کے ذرات میں تبدیل ہو گئیں۔ یہودی اٹھا تو سونے کی تین ڈھیریاں دیکھ کر حیران رہ گیا، پوچھا یہ سونا کس کا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ایک ڈھیری تیری ہے، ایک میری ہے اور تیسری اس کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی ہے۔ یہودی فوراً بول پڑا وہ روٹی میں نے کھائی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ روٹی تو نے کھائی ہے تو یہ تیسری ڈھیری تیری ہے۔
یہودی سونے کی دو ڈھیریوں کا مالک بن کر بہت خوش ہوا اور اس نے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ کہا، آپ اللہ کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ آپ کو سونے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تیسری ڈھیری بھی مجھے دے دیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ سفر شروع کرتے وقت ساتھ رہنے کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کو تو منسوخ کر دے۔ یہودی نے کہا کہ میں اکیلا ہی سفر کر لوں گا آپ جا سکتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا کمبل اٹھایا اور وہاں سے رخصت ہو گئے۔
یہودی ابھی ڈھیریوں کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کہ تین آدمی نمودار ہوئے انہوں نے جب سونے کو دیکھا تو قریب آ کر کہا یہ سونا کس کا ہے؟ یہودی نے کہا میرا ہے۔ اب تین میں سے ایک نے کہا کہ یہ سونا تیرا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم تین آدمی ہیں، تین ڈھیریاں ہیں ہم سونے کے حق دار ہیں۔ یہودی نے بڑا واویلا مچایا، غصہ کیا اور پھر خوشامد پر اتر آیا کہ ایسا ظلم نہ کرو، تمہارا اس سونے پر کوئی حق نہیں ہے۔
طے یہ پایا کہ ایک ڈھیری یہودی کو دے دی چائے اور دو ڈھیریاں یہ تینوں تقسیم کر لیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ یہودی بازار میں جائے اور ان تینوں کے لئے کھانا لائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈاکو ہیں شہر میں نہیں جا سکتے۔ یہ پیسے لو اور ہمارے لئے کھانا لے آؤ اور ایک ڈھیری لے کر چلتے بنو۔ یہودی پیچ و تاب کھاتے ہوئے غصے کے عالم میں بازار پہنچا، وہاں سے کھانا خریدا اور کھانے میں زہر ملا دیا تا کہ وہ تینوں ڈاکو کھانا کھا کر مر جائیں اور پورا سونا یہودی کے ہاتھ لگ جائے۔
جیسے ہی وہ کھانا لے کر آیا تینوں میں سے ایک اٹھا اور اس نے تلوار کھینچ کر سر قلم کر دیا۔ تینوں بڑے خوش ہوئے کہ حصہ برابر تقسیم ہو جائے گا۔ کھانا کھا کر یہ تینوں بھی مر گئے اور سنہری ذرات ہوا میں اڑ کر منتشر ہو گئے۔ مٹی مٹی میں مل گئی۔
یا الہٰی!
کیا گھاٹے کا سودا ہے۔
خسر الدنیا والآخرۃ
ذالک ھوالخسران المبین
’’اے آدم کے فرزند!
حوا کی دختر!
یہ دنیا اس لئے جہنم بن گئی ہے کہ آدم کو اولاد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم کو دنیا کے لئے بنایا گیا ہے۔ دنیا ہمارے لئے نہیں بنائی گئی۔
تجربات و مشاہدات ماضی حال بتاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی بچہ جب آتا ہے تو اس کے لئے وسائل پہلے سے مہیا ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہںا ہوا۔ بچہ زمین پر آئے تو اس کے بعد اس کی ضرورت کے مطابق وسائل پیدا ہوتے ہوں۔
یہ کیسا ظلم ہے۔
ہائے!
یہ کیسی جہالت ہے کہ ہم قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف چل کر سکون و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
زمین ہماری طرح عقل و شعور رکھتی ہے۔ زمین ہماری طرح زندہ ہے۔ جس طرح ماں کے پیٹ میں مسافرت کر کے ہم یہاں آتے ہیں اسی طرح سارے وسائل جن پر ہماری زندگی کا انحصار ہے زمین کے پیٹ میں مسافرت کر کے ہمارے لئے دست بستہ حاضر ہیں۔ وسائل پابند ہیں کہ ہماری خدمت کریں۔ ہمارے کام آئیں۔ ہمیں زندگی بخشیں۔
صد افسوس!
جو چیز ہمارے لئے بنائی گئی ہے جو چیز ہمارے لئے محکوم کر دی گئی ہے۔ ہم اس کے غلام بن گئے ہیں۔ ہم نے اپنی ذات مٹی کے سنہرے ذرات پر قربان کر دی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
زمین پر موجود شماریات سے زیادہ ذرات میں سب سے زیادہ بے وفا سنہرے ذرات ہیں۔ پوری تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے کہ ان ذرات(Gold) نے کسی کے ساتھ وفا کی ہو۔ انسان جب تک ان ذرات کو پیروں تلے رکھتا ہے یہ ذرات غلامی کرتے ہیں اور جب انسان ان ذرات کو تاج بنا کر سر پر رکھ لیتا ہے تو انتہائی حد تک بے وفائی کرتے ہیں اور انسان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر کے مار دیتے ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 173 تا 178

اسم اعظم کے مضامین :

1.1 - نظریہ رنگ و روشنی 1.2 - فوٹان اور الیکٹران 1.3 - کہکشانی نظام اور دو کھرب سورج 1.4 - دو پیروں اور چار پیروں سے چلنے والے جانور 5.8 - مراقبہ مرتبہ احسان اور روشنیوں کا مراقبہ 1.5 - چہرہ میں فلم 1.6 - آسمانی رنگ کیا ہے؟ 1.7 - رنگوں کا فرق 1.8 - رنگوں کے خواص 2.1 - مرشد کامل سے بیعت ہونا 2.2 - مرشد کامل کی خصوصیات 2.3 - تصور سے کیا مراد ہے؟ 2.4 - علمِ حصولی اور علمِ حضوری میں فرق 2.5 - اسم اعظم کیا ہے 2.6 - وظائف نمازِ عشا کے بعد کیوں کیئے جاتے ہیں 2.7 - روزہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے 2.8 - نام کا انسانی زندگی سے کیا رشتہ ہے اور نام مستقبل پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟ 2.9 - جب ایک ہی جیسی اطلاعات سب کو ملتی ہیں تو مقدرات اور نظریات میں تضاد کیوں ہوتا ہے؟ 3.1 - نماز اور مراقبہ 3.2 - ایسی نماز جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق حضور قلب اور خواہشات، منکرات سے روک دے کس طرح ادا کی جائے؟ 3.3 - روح کا عرفان کیسے حاصل کیا جائے؟ 3.4 - مخلوق کو کیوں پیدا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے؟ 3.5 - چھ دائرے کیا ہیں، تین پرت سے کیا مراد ہے؟ 3.6 - روح انسانی سے آشنا ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ 3.7 - مراقبہ کیا ہے۔ مراقبہ کیسے کیا جائے؟ 4.1 - تعارف سلسلہ عظیمیہ 4.2 - سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط 5.1 - مراقبہ سے علاج 5.2 - مراقبہ کی تعریف 5.3 - مراقبہ کے فوائد اور مراقبہ کی اقسام 5.4 - مراقبہ کرنے کے آداب 5.5 - سانس کی مشق 5.6 - مراقبہ کس طرح کیا جائے۔ خیالات میں کشمکش 5.7 - تصورِ شیخ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے 5.9 - مراقبہ سے علاج 6.1 - سانس کی لہریں 6.2 - روحانی علم کو مخفی علم یا علم سینہ کہہ کر کیوں عام نہیں کیا گیا 6.3 - اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اور توکل کرنے کے کیا معانی ہیں 6.4 - رحمانی طرز فکر کو اپنے اندر راسخ کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے 6.5 - واہمہ، خیال تصور اور احساس میں کیا فرق ہے؟ 6.6 - ہمارا ماحول ہمیں کس حد تک متاثر کرتا ہے؟ 7 - کیا نہیں ہوں میں رب تمہارا؟ 7.2 - لوح اول اور لوح دوئم کیا ہیں 7.3 - علمِ حقیقت کیا ہے 7.4 - علمِ حصولی اور علم حضوری سے کیا مراد ہے 7.5 - روح کیا ہے 8 - انسان اور آدمی 9 - انسان اور لوحِ محفوظ 10.1 - احسن الخالقین 10.2 - روحانی شاگرد کو روحانی استاد کی طرز فکر کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ 10.3 - روحانی علوم حاصل کرنے میں زیادہ وقت کیوں لگ جاتا ہے؟ 10.4 - تصورات جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں 10.5 - یادداشت کیوں کمزور ہو جاتی ہے؟ 10.6 - تصور سے کیا مراد ہے 10.7 - کسی بزرگ کا قطب، غوث، ابدال یا کسی اور رتبہ پر فائز ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ 10.8 - تصور کیا ہے 10.9 - کرامت کی توجیہہ 10.10 - مختلف امراض کیوں پیدا ہوتے ہیں 11 - تصوف اور صحابہ کرام 12 - ایٹم بم 13 - نو کروڑ میل 14 - زمین ناراض ہے 15 - عقیدہ 16 - کیا آپ کو اپنا نام معلوم ہے 17 - عورت مرد کا لباس 18 - روشنی قید نہیں ہوتی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)