ریشم کا کیڑا

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6207

شعوری آنکھ دور جدید دیکھتی ہے تو حیران ہو جاتی ہے۔ اسے انسانی صلاحیتوں اور اس کی اختراعات کا مظاہرہ ششدر کر دیتا ہے۔ زمین یا فضا اس کے دائرہِ بصارت میں آتی ہے تو ایجادات کا لامتناہی سلسلہ سامنے آ جاتا ہے۔ خالق کائنات کی تخلیق کی ذیلی صناعی اور تخلیق کے شگوفےدھرتی کے اس کونے سے اُس کونے تک نظر آتے ہیں۔
سڑکوں پر دوڑتی ہوئی گاڑیاں، مزید تیز سفر کے لیئے ریل اور فضا کا سینہ چیرتے ہوئے ہوائی جہاز جو ہزاروں ٹن وزن لے کر مہینوں اور سالوں کا سفر گھنٹوں اور دنوں میں طے کر لیتے ہیں اور جن کی رفتار آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہے۔ مواصلاتی نظام جن کے ذریعے ایک جگہ کی آواز اور تصویر کسی قابل ذکر وقفہ کے بغیر ایک سرے سے دنیا کے دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے۔ حساب کے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیئے کمپیوٹر جو کئی کئی دنوں کا حساب منٹوں میں کر دیتے ہیں۔ ایٹم کی قوت کا استعمال اور برقی توانائی کے ذریعے روشنی سے جگمگاتے شہر اور صنعتی اداروں میں گردش کرتے ہوئے پہیے۔ راکٹ، میزائیل اور ان کی تبا ہ کاریاں، خلا میں پہنچنے کی پے در پے کوشیش، لیزر شعاعوں کآجا دو، برقیات کی حیرت انگیز ترقی، سرجری اور طب کے شعبوں میں آئے دن کی پیش رفتیں۔ یہ وہ ذیلی تخلیقات ہیں جو دن کے اُجالے اور رات کے اندھیرے میں یکساں متحرک ہیں۔ احسن خالقین کی بہترین تخلیق، انسان رات دن کی مسلسل اور ان تھک محنت سے اختراعات کا ایک طویل سلسلہ قائم کرنے میں کامیاب تو ہو گیا ہے لیکن اس نے ایجادات و اختراعات کے جال میں اس بات کو تلاش نہیں کیا کہ اگرچہ وہ ان اشیاء کا خالق ہے لیکن ان کے درمیان خود اس کی حیثیت کیا ہے۔ فطرت کے قوانین کی تسخیر کا دعویٰ کرنے والے انسان کو یہ نظر نہیں آتا کہ وہ خود اپنی بنائی ہوئی اشیاء کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے اور خود ا پنے بنائے ہوئے جال میں بے بس مکھی کی طرح ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ انسان کی پست ذہنی پرواز اس بات کو محسوس ہی نہیں کرتی کہ اس نے جو کچھ بنایا ہے وہ سب اس کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا مظہرہے۔ لیکن وہ ان صلاحیتوں کو محدود رنگ و روپ دے کر خود ان کا غلام بن گیا ہے۔ فضا کا سینہ چیرنے والے ہوائی جہاز کا خالق اپنی تخلیق کو زمین پر کھڑا بے بسی سے دیکھتا ہے۔ فضا میں اچھلتا ہے تو گیند کی طرح لڑھک کر گر پڑتا ہے۔ کمپیوٹر جیسی حیرت انگیز مشین کو وجود میں لانے والا آدمی دو (۲) اور دو (۲) چار (۴) کے حساب میں الجھا رہتا ہے۔ آواز کو ہزاروں میل دور پہچاننے والے آلات کے موجد کی سماعت کا یہ حال ہے کہ سو (۱۰۰) دو سو (۲۰۰) گز دور کی آواز سننے قاصر ہے۔ تصاویر کو ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ فضا سے زمین پر منتقل کرنے والے آلات کے خالق کی بصارت اتنی کمزور ہے کہ کسی دور دراز علاقہ کی بات تو الگ وہ اپنے پیچھے دیکھنے سے معذور ہے۔ مظاہر فطرت کی تسخیر کا دعویٰ کرنے والا آدمی آج اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے اور غیر جانب داری سے جائزہ لے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ فی زمانہ اس کی ذہنی پریشانی، اعصابی کھنچاؤ، بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس اپنے عروج پرہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فاصلوں کی جکڑبندیوں میں پھنسے ہوئے انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں موجود ہیں کہ زمین کی طنابیں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک سیّارے سے دوسرے سیّارے ایک نظامِ شمسی سے دوسرے نظامِ شمسی تک کے فاصلے خالق کائنات نے اس کو جو بصارت عطا کی ہے وہ مکانی اور زمانی فاصلوں سے ماورا ہے آدمی کو اس کے بنانے والے نے خلاصہْ کائنات بن اکر اپنی تخلیق کا اعلیٰ ترین نمونہ بنایا ہے لیکن انسان نے خالق کے اس عظیم انعام کی ناقدری کی، اس کا کفران کیا ۔ اس نے اپنی صلاحیتوں کو پابند کیا ، لا مکانی اور لازمانی صفات کو چھوڑ کر چھوٹی اور بہت چھوٹی، حقیر اور بہت حقیر مادّیت پر اکتفا کیا اور ریشم کا کیڑا بن کر خود اس میں قید ہو گیا۔ کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ خالق خود اپنی تخلیق کا محتاج ہے۔
آسمانی صحائف میں بتایا گیا ہے کہ وسائل پر حکمرانی یہ ہے کہ ارادہ کے ساتھ وسائل حرکت میں آجاتے ہیں۔ ارادہ کیا ہے ؟ ارادہ رُوح کی لامتناہی تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہے۔
اپنے اندر رُوحانی صلاحیتوں کومتحرک کرنے اور ان سے کام لینے کے لیئے ضروری ہے کہ ہمیں کتاب کا علم آتا ہو اور علمِ کتاب کے وہ فارمولے ہمارے اوپر منکشف ہوں جن کے اوپر یہ ساری کائنات ٹھہری ہوئی ہے۔ جب تک یہ علم حاصل نہیں ہوتا آدمی اَدبار کے انبارمیں دبا رہے گا۔ مٹی کا خول آدم زاد کا وہ ورثہ ہے جس کے دوش پر بہ حسرت و یاس ہمارے جدّ ِامجد آدم جنت(اعلیٰ مقام) سے اسفل (زمین) میں پھینک دیئے گئے۔
اے لوگو! دانشورو! کچھ ہوش و خرد سے کام تو لو۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ آدمی خود اپنی نسل کو برباد کرنے کے لیئے مسلسل کوشاں ہے اور تباہی کا نام اس نے ترقی رکھ چھوڑا ہے۔ یہ کیسی دانشوری ہے کہ آدم زاد نے ایک ایٹم کی قیمت، لاکھوں آدمیوں سے بڑھا دی ہے اورترقی کے خوش نما پردوں میں ذہنی سکون، اطمینان اور تحفظ کے احساس کو چھپا دیا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 71 تا 74

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)