حواس کا سکڑنا

مکمل کتاب : قدرت کی اسپیس

مصنف : حضور قلندر بابا اولیاٗ رحمتہ اللہ علیہ

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=23

دماغ کا خاص گیٹ (MAIN GATE)ایک ہے۔ اس کے اطراف میں اور (GATES) ہیں۔ وہ گیٹ کلوز ہو جانے سے دیگر (GATES) بھی کلوز ہو جاتے ہیں اور حواس سکڑنے لگتے ہیں سننے کے، دیکھنے کے، سونگھنے وغیرہ کے سب حواس سکڑتے سکڑتے اتنے سکڑ جاتے ہیں کہ بیماری بن جاتی ہے اور اکثر عضلات کا فالج ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی فرد ضدی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جو بات اس کے خیال میں ہے وہی ہونا چاہئے اور وہ دوسروں کی بات نہیں سنتا تو اس کے بھی حواس سکڑنے لگتے ہیں۔ یہ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ اس کے حواس سکڑ گئے ہیں۔ ایسے شخص کے منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔ آنکھوں کو جو چیزیں اچھی ہیں، اچھی نہیں لگتیں یا پھر اس کے برخلاف جب وہ آواز سنتا ہے تو سریلی آواز بھی اسے اچھی نہیں لگتی بلکہ وہ نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ سب باتیں حواس کے سکڑنے کی نشانیاں ہیں۔ حواس کے سکڑنے سے چہرہ بھی پھیکا پڑ جاتا ہے۔ یہ بھی ایک بات ہے جس سے کہ بیماری پرکھی جا سکتی ہے۔ چہرے پر جیسی چمک ہونی چاہئے ویسی چمک نہیں رہتی، چاہے چہرہ کسی بھی رنگ کا ہو۔
علاج

اس کا علاج یہ ہے کہ شہادت کی انگلی پر
’’ان اللّٰہ علی کل شئی قدیر‘‘
پڑھ کر دم کریں اور انگلی کو کچھ (SECONDS) تک تالو پر پھیریں، اس طرح پھیریں کہ دماغ کے خاص گیٹ کو چھوئے۔ اگر پھر بھی کچھ سکڑن باقی رہے تو ایک بڑا پتلا بنائیں اور ایک مخصوص طریقے کے مطابق سوئیاں لگائیں۔ ہر پن کے اوپر
’’ان اللّٰہ علی کل شئی قدیر‘‘
دم کرتے جائیں اور پن لگاتے جائیں اس سے بیماری بالکل ختم ہو جائے گی، حواس بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ اگر ذہن میں ارادہ کر لیں کہ بیماری ختم ہو جائے تو بیماری ختم ہو جاتی ہے۔

دوسرا علاج

ہر انسان (فرد) کے دماغ میں دو کھرب خلئے ہیں ان دو کھرب خلیوں میں ہر خاص گیٹ کے اطراف پانچ اور (GATES) ہوتے ہیں اس طرح کل بارہ کھرب خلئے ہوتے ہیں۔ خاص گیٹ وہ ہے جس میں وہم (CONCEPT) پرورش پاتا ہے اس کے ساتھ ایک اور گیٹ اوپن ہوتا ہےجو خیال کا ہے اور اس کے ساتھ تیسرا گیٹ کھلتا ہے جو حواس بن جاتا ہے، چوتھا گیٹ اوپن ہوتا ہے جس سے حرکت واقع ہوتی ہے۔

پھر سوچ کے عمل کا پانچواں گیٹ اوپن ہوتا ہے تو عمل وقوع پذیر ہوتا ہے اور جب چھٹا گیٹ اوپن ہوتا ہے تو نتیجہ برآمد ہوتا ہے یہ چھ (GATES) دراصل ایک ہی گیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں (MAIN GATE) وہم ہے، اگر اس (MAIN GATE) کو کلوز کیا جائے تو دوسرا گیٹ (MAIN GATE) بن جاتا ہے۔ یعنی وہ گیٹ جس میں عمل پرورش پاتا ہے اور خیال کے بعد فوراً نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 18 تا 21

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)