حقیقت پسندانہ طرز فکر – 2

مکمل کتاب : توجیہات

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3076

ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ بچہ وہی زبان بولتا ہے جو ماں باپ کی زبان ہے اور اس زبان کو سیکھنے کے لئے بچہ کے لئے کوئی درس و تدریس کا سلسلہ قائم کرنا نہیں پڑتا۔ بچہ جس طرح ماں باپ کو بولتے دیکھتا ہے وہی الفاظ اپنی زبان میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔ عمر کی مناسبت سے الفاظ ٹوٹے پھوٹے ہوتے ہیں بالآخر وہ اپنی مادری زبان اس طرح بولتا ہے جیسے یہ ہمیشہ سے سیکھا سکھایا پیدا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین جس طرح خورد و نوش کا انتظام کرتے ہیں بچہ بھی اسی طرح کھانا کھاتا ہے۔ جس طرح ماں باپ کھاتے ہیں اس کو یہ بتانا نہیں پڑتا کہ کھانا اس طرح کھایا جاتا ہے۔ والدین جس قسم کا لباس پہنتے ہیں بچہ بھی اسی قسم کا لباس زیب تن کرتا ہے۔ ماحول اگر پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے تو بچے کا ذہن بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا رہتا ہے۔ والدین اگر گالیاں بکتے ہیں تو گھر میں بچے کے لئے گالی دینا کوئی خلاف معمول یا بری بات نہیں ہوتی۔ مختصر یہ کہ بچے کے اوپر وہ تمام اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اس کے ماحول میں موجود ہیں۔ گھر کی چاردیواری اور والدین کی آغوش سے نکل کر جب بچہ گھر سے باہر کے ماحول میں۔۔۔۔۔۔قدم رکھتا ہے تو اس کے اوپر تقریباً وہ تمام اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ماحول میں موجود ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے دنیا میں نیا آنے والا کوئی فرد ذہنی طور پر آدھا ماحول کے زیر اثر ہوتا ہے اور آدھا والدین کی ذہنی افتاد سے مطابق ہوتا ہے۔ اس غیر اختیاری تربیت کے بعد ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے وہ یہ کہ والدین اپنے لخت جگر کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟ والدین اگر بچہ کے اندر خاندانی روایات اور خود نمائی کی عادات منتقل کر دیتے ہیں تو بچہ کے اندر خود نمائی کے اثرات غالب آ جاتے ہیں۔ والدین اگر بچہ کو صحیح تربیت کے ساتھ ایسے علوم سکھاتے ہیں جن علوم میں اخلاقیات کا زیادہ دخل ہوتا ہے تو بچہ بااخلاق ہوتا ہے اور شعور کی منزل میں داخل ہو کر ایک ایسا پیکر بن جاتا ہے جو معاشرے کے لئے عزت و توقیر کا باعث ہوتا ہے۔ والدین کی طرز فکر اگر دولت پرستی ہے تو اولاد کے اندر بھی دولت پرستی کے رجحانات زیادہ مستحکم ہو جاتے ہیں اس کا مفہوم یہ نکلا کہ تربیت کے دو طریقہ کار ہیں:

ایک غیر اختیاری اور ایک اختیاری۔ غیر اختیاری یہ کہ بچہ جو کچھ گھر کی چار دیواری اور اپنے ماحول میں دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اختیاری صورت یہ ہے کہ والدین اسے ایک مخصوص تربیت کے ساتھ معاشرہ میں روشناس کراتے ہیں اور جب یہ نابالغ فرد بالغ ہو جاتا ہے اس کی ایک شخصیت بن جاتی ہے اور وہ اپنی شخصیت کو سامنے رکھ کر والدین اور ماحول سے ملے ہوئے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک کردار متعین کرتا ہے اور یہ کردار اس کا اپنا تشخص بن جاتا ہے۔ ان الفاظ کو مختصر الفاظ میں یوں کہا جاتا ہے کہ کسی بندے کے کردار کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اسے مخصوص طرز فکر حاصل کرنے کے لئے قربت حاصل ہو۔ جس طرح ایک عام فرد کے لئے ماحول والدین رشتہ دار اور تعلیمی درسگاہیں قربت کا ذریعہ بن کر اس کے کردار کی تشکیل کرتی ہیں اسی طرح روحانی آدمی کے کردار کی بھی تشکیل ہوتی ہے اور وہ اس طرح ہوتی ہے کہ اسے ایسے کسی بندے کی قربت حاصل ہو جائے جس کا کردار روحانی قدروں پر محیط ہے۔ پیر و مرشد یا مراد وہ شخصیت ہے جس کا کردار عوام الناس سے اور ان لوگوں سے جو روحانی حقیقتوں سے بے خبر ہیں ممتاز ہوتا ہے اس ممتاز شخصیت سے جس حد تک قربت ہوتی جاتی ہے اسی مناسبت سے مرید کے اندر وحانی اوصاف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور مراد کی طرز فکر کا ایک ایک جزو مرید کے دماغ کی سکرین پر نقش ہو جاتا ہے یہی وہ طرز فکر ہے جس کا نام سلوک ہے یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر کوئی سالک اپنے اندر موجود روحانی قوتوں سے متعارف ہوتا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس کے اوپر اس بات کا دارومدار ہے کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے کتنا متعارف ہے اور اسے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت کس حد تک حاصل ہے۔ قرآن پاک میں بیان کردہ پیغمبروں کے واقعات، پیغمبروں کی زندگی، پیغمبروں کے مشن اور اوصاف پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ پیغمبروں نے ایک مخصوص طرز فکر کا پرچار کیا ہے اس مخصوص طرز فکر میں بہت گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ پیغمبرانہ وصف میں یہ بات شامل ہے کہ ہر بندہ برائی اور اچھائی میں تمیز کر سکے، یعنی پیغمبروں نے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آشنا کیا ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ جہاں تک زندگی کے تقاضوں کا تعلق ہے تقاضوں کے اعتبار سے اللہ کی سب مخلوق یکساں حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری مخلوق کے سامنے اگر انسان کی ممتاز حیثیت ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اچھائی اور برائی کے تصور سے واقف ہے اسے اس بات کا علم دیا گیا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے مخصوص طرزیں انسان کو اچھا بناتی ہیں اور زندہ رہنے کے لئے مخصوص طرزیں اچھائی سے دور کر دیتی ہیں۔ اچھائی کے تصور کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی انسان کا علم بن جاتی ہے کہ اچھا فرد وہ ہے جو اپنی اصل سے واقف ہو اور باخبر ہو۔ اصل باخبری اسے ایک ایسے علم سے روشناس کراتی ہے کہ جو علم اسے اپنے اندر کام کرنے والی مخفی صلاحیتوں سے واقف کراتا ہے اور یہ مخفی صلاحیتیں دراصل روحانی قدریں ہیں جو بندہ جس مناسبت سے روحانی قدروں سے واقف ہے اتنا ہی وہ کردار کے اعتبار سے مصفا اور پاکیزہ ہے اور جو آدمی روحانی قدروں سے جس حد کت ناواقف ہے اسی مناسبت سے اس کا کردار غیر مصفا اور دھندلا ہے۔ ایک بکری اور انسان کی زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی بات کہنے پر آدمی مجبور ہے کہ بکری اور انسان میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کو بکری سے ممتاز کرنے والی صلاحیت یہ ہے کہ انسان اپنے اندر روحانی قدروں سے واقف ہو جاتا ہے اور اگر کوئی انسان اپنے اندر روحانی قدروں سے ناواقف ہے یا اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل نہیں ہے تو وہ ہرگز بکری یا کسی دوسرے جانور سے ممتاز نہیں ہے۔ روحانی اقدار حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے اپنے ایسے باپ کی آغوش میسر ہو جس کے اندر روحانی قدروں کا دریا موجزن ہو اور اسے ایسا ماحول میسر ہو جس ماحول میں پاکیزگی موجود ہو۔ باپ سے مراد پیر و مرشد ہے اور ماحول سے مراد یہ ہے کہ اس پیر و مرشد کی ایسی اولاد جو اس سے روحانی رشتہ میں وابستہ ہے زمین پر پیدا ہونے والے بچے کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ بچے کا شعور والدین کی گود، گھر کی چار دیواری اور ماحول سے بنتا ہے ماحول میں اگر کثافت ہے تعفن ہے، گھٹن ہے، گندگی ہے، بے سکونی ہے، اضطراب ہے تو بچہ بھی ذہنی طور پر ذہنی سکون سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر گھر میں سکون ہے، آرام ہے، والدین کی آواز میں شیرینی اور مٹھاس ہے، لہجے میں پیار ہے اور دماغی اعتبار سے وہ پرسکون ہیں اس کا ماحول بھی پر سکون ہے بچہ بالکل غیر اختیاری طور پر سکون کردار کا حامل ہوتا ہے۔
یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ چیخ کو بولنے والے ماں باپ کے بچے بھی چیخ کر بولتے ہیں۔ غصے اور نفرت سے بولنے والے والدین کے بچوں کے اندر بھی غصہ اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ ندیدے اور لالچی والدین کے بچے بھی ندیدے اور لالچی ہوتے ہیں۔ کبر و نخوت کے دلدادہ والدین کے بچوں کے اندر بھی کبر و نخوت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ضدی اور سرکش والدین کے بچے بھی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس حلیم الطبع والدین کی اولاد بھی حلیم الطبع ہوتی ہے۔ پیغمبروں کی زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخصوص کردار کے لوگوں کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور جو لوگ اس سلسلے سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ان کی وابستگی قربت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو ان کے اندر وہی قدریں منتقل ہو جاتی ہیں جو اس مخصوص کردار کے بامقصد لوگوں کا حصہ ہیں۔ راہ سلوک میں چلنے والے سالک کو کسی شخص کا ہاتھ پکڑنا اس لئے ضروری ہے کہ اسے ایک روحانی باپ کی شفقت میسر آئے اور اس روحانی باپ کی اولاد کا ایک ماحول میسر آ جائے تا کہ اس ماحول میں رہ کر اس کی ذہنی تربیت ہو سکے۔
ذہنی تربیت کا تجزیہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ تربیت کے مختلف پہلوؤں میں، تربیت کا ہر مختلف پہلو انسانی زندگی میں ایک مستقل کردار ادا کرتا ہے جس ماحول میں ہم لوگ رہتے ہیں اس ماحول کے مطابق کم یا زیادہ ذہن کا متاثر ہونا ضروری ہے مثلاً ایک آدمی ایسے ماحول میں رہتا ہے جس ماحول کے رہنے والے لوگ سب کے سب نمازی ہیں اور ان کی زندگی میں دین کا عمل دخل پوری طرح موجود ہے اس ماحول سے متاثر ہو کر ہم بھی انہی قدروں کو اپنا لیتے ہیں جو قدریں ماحول میں رائج ہیں۔ ایک آدمی طبعی طور پر کتنا ہی خشک کیوں نہ ہو جب وہ ایسے ماحول میں چلا جاتا ہے جہاں رنگ و روشنی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور گانوں کے اونچے نیچے سروں سے فضا معمور ہوتی ہے تو بالآخر وہ بندہ گانے بجانے میں دلچسپی لینے لگتا ہے اور گانے بجانے کے قوائد و ضوابط سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔ ایک آدمی ایسے ماحول میں رہتا ہے جس ماحول میں جوا یا اس قسم کے لہو و لعب کی دنیا آباد ہے وہ بندہ کتنا ہی صاف ستھرا ہو بالآخر اس ماحول کا رنگ آ جاتا ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اگر ایک بچے کی ایسے ماحول میں پرورش کی جائے جس ماحول میں گالی دینا معیوب بات نہ ہو تو بچہ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر گالیاں بکتا رہتا ہے۔ اگر پرورش ایسے ماحول میں کی جائے جس ماحول میں ظلم سختی اور درندگی ہو تو بچے کا ذہن بھی سختی اور درندگی کی طرف ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش کی جائے جس ماحول میں خود غرضی کے علاوہ اور کوئی بات موجود نہ ہو ہر کام اس لئے کیا جاتا ہو کہ اس کے ساتھ کوئی غرض وابستہ ہو۔ ذہنی طور پر ماحول میں سارے بندے کاروباری ذہن رکھتے ہوں تو بچہ بھی کاروباری ذہن پر اٹھتا ہے۔ ماحول میں سخاوت کی بجائے بخیلی اور کنجوسی ہو تو بچوں کا دل بھی کھلا ہوا نہیں ہوتا۔ ان روزمرہ مشاہدات کے پیش نظر یہ بات مسلمہ امر بن گئی کہ دنیا میں جتنے گروہ آباد ہیں ان کا تعلق اپنی اپنی طرز فکر سے ہے اور اس طرز فکر کی بنیاد پر ہی کسی گروہ کا کسی ذات کا کسی برادری کا کسی کردار کا کسی تشخص کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کا بھی کردار ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ثابت ہے جن لوگوں نے پیغمبروں کی مخالفت کی اور پیغمبروں کو قتل کیا۔ تاریخ کے صفحات میں ایسے لوگوں کا کردار بھی موجود ہے جس کردار میں سخاوت عام ہے اور ایسے کردار بھی موجود ہیں جن میں کنجوسی اور بخیلی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی ہے اس بات کو مزید تشریح کے ساتھ اس طرح کہا جائے گا کہ کنجوسی اور بخیلی کے کردار کا باوا آدم قارون ہے۔ جب تک دنیا قائم رہے گی قارون کی ذریت، قارون کی اولاد اور قارون کے کردار سے متاثر لوگ موجود رہیں گے۔
سخاوت کے بیان میں حاتم طائی کا نام لیا جاتا ہے۔ جب تک دنیا موجود ہے حاتم طائی کے کردار کے لوگ یا حاتم طائی کے گروہ کے لوگ بھی موجود رہیں گے۔ دنیا میں پیغمبروں کا کردار بھی موجود ہے۔ پیغمبروں کے کردار کو جب ہم خوردبینی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں اچھائی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر نہیں آتی۔ یعنی وہ ایسے کردار سے متصف ہیں کہ جس کردار میں لطافت حلاوت کے علاوہ کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہو سکتی۔ کردار کے تعین کو اگر مختصر کر کے بیان کیا جائے تو زندگی کی دو قدریں قائم ہوتی ہیں ایک قدر وہ ہے جس میں آدمی شیطانیت سے قریب ہو کر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری انبیاء کی طرز ہے جس کے اندر داخل ہو کر آدمی سراپا رحمت بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شریک ہو جاتا ہے۔ وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہیں شیطانی طرزیں ہیں اور وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہیں پیغمبرانہ طرزیں ہیں۔ پیغمبرانہ طرزوں اور شیطانی طرزوں کا تجزیہ کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جو بندہ رحمانی طرزوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر پیغمبروں کے اوصاف منتقل ہو جاتے ہیں یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پیغمبروں کے اوصاف اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں یعنی جب کوئی بندہ پیغمبرانہ زندگی میں سفر کرتا ہے تو دراصل وہ ان صفات میں سفر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اپنی ذاتی صفات ہیں اور جب کوئی بندہ ان پیغمبرانہ صفات سے منہ موڑ لیتا ہے تو وہ ان طرزوں میں اور شہوت میں زندگی گزارتا ہے جو دراصل تاریک کثیف جہالت سے معمور شیطانی طرزیں ہیں شیطانی طرز یہ ہے کہ آدمی کے اوپر خوف و ہراس مسلط رہتا ہے۔ ایسا خوف و ہراس جو زندگی کے ہر مقام کو ناقابل شکست و ریخت زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہے اس کا دن ہو یا رات وہ ایک خوف میں بسر ہوتا ہے کبھی اسے زندگی ضائع ہونے کا خوف ہوتا ہے کبھی وہ معاشی ضروریات کے پورا نہ ہونے کے خوف میں مبتلا ہے کبھی اس پر بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں اور کبھی وہ مسائل کے انبار میں اس طرح دب جاتا ہے کہ اسے اس انبار سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ موت جس کو بہرحال آنا ہے اس کے اوپر خوفناک شئے بن کر مسلط ہو جاتی ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ موت سے کسی بھی طرح دستگاری حاصل نہیں ہو سکتی اس کے باوجود اس اٹل حقیقت سے گھبراتا رہتا ہے، بھاگتا رہتا ہے۔ شیطانی طرزوں میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی ذہنی اور نظری طور پر اندھا ہوتا ہے وہ چند سو گز سے زیادہ کی چیز نہیں دیکھ سکتا اور یہی چیزیں اس کو درد ناک عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں اس کے برعکس پیغمبرانہ طرزوں میں آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلط نہیں ہوتا وہ عدم تحفظ کے احساس سے دور رہتا ہے۔ موت چونکہ ایک اٹل حقیقت ہے اس لئے وہ مرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور جب وہ مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو موت اس کے لئے دنیا کی سب سے زیادہ خوشنما چیز بن جاتی ہے ۔ اسے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ موت کوئی بھیانک شئے نہیں ہے بلکہ موت ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کا نام ہے جس طرح اس رنگ و بو کی دنیا میں وہ زندگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اسی طرح مرنے کے بعد دوسرے عالم میں وہ کھاتا پیتا ہے، جاگتا ہے، سوتا ہے، روحانی اور جسمانی تمام ضروریات پوری کرتا ہے اور یہ بات محض اس کے قیاس میں داخل نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شگفتہ زندگی کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ بات وہی ہے کہ ایک طرز فکر کے آدمی دوسری طرز فکر کے آدمیوں سے ممتاز رہتے ہیں۔ شیطانی طرز فکر میں زندگی گزارنے والا بندہ انبیاء کے گروہ میں داخل نہیں ہو سکتا اور انبیاء کی طرز فکر سے آشنا بندہ شیطانی گروہ میں کبھی داخل نہیں ہوتا۔ شیطانی طرز فکر میں ایک بڑی خراب اور لا یعنی بات یہ ہے کہ بندہ ہر عمل اس لئے کرتا کہ اس عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے یعنی وہ عمل کرنے کا صلہ چاہتا ہے اور اس صلے کا نام اس نے ثواب رکھا ہے۔ تصوف ایسے عمل کو جس عمل کے پیچھے کاروبار ہو جس عمل کے پیچھے کوئی ذاتی غرض وابستہ ہو نا قص قرار دیتا ہے اور یہی انبیاء کی بھی طرز فکر ہے۔ جہاں تک قرآن پاک میں اس بات کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے لیکن اس بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ نیک عمل اس لئے کرے کہ اسے اس کا اجر ملے گا اور اسے اس اجر میں زر و جواہرات کے محلات ملیں گے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 108 تا 116

توجیہات کے مضامین :

1 - مراقبہ کیا ہے؟ 2 - صاحبِ صلاحیت 3 - صاحب خدمت 4 - عقل وشعور 5 - اللہ کا نور 6 - دوسرے سیاروں کی مخلوق 7 - پر عظمت ہستی 8 - طرزِ فکر 9 - علم حضوری 10 - حقیقتِ مذاہب 11 - غیب بینی 12 - خواب کی حالت 13 - ماوراء ذات 14 - تصرف 15 - علم کا مظاہرہ 16 - علمِ حصولی 17 - اعراف کیا ہے 18 - علم کی طرزیں 19 - جسمِ مثالی 20 - روشنیوں کا ہالہ 21 - Time & Space 22.1 - حقیقت پسندانہ طرز فکر – 1 22.2 - حقیقت پسندانہ طرز فکر – 2 23 - انعام یافتہ 24 - تصورِ شیخ 25 - اللہ کی مہر 26 - اللہ کے دوست 27 - استغناء، توکل اور بھروسہ 28 - وسائل کی فراہمی 29 - خرق عادت 30 - صلاحیتوں کا ذخیرہ 31 - راسخ العلم 32 - حصول یا منتقلی 33 - ترقی اور تنزلی 34 - علم الاسماء 35 - ذاتِ مطلق 36 - بیمار درخت 37 - نیابتِ الہی 38 - رنگین دُنیا 39 - بے جا اسراف 40 - نفسِ واحدہ 41 - کام اور آرام 42 - روشنیوں کا سیب 43 - راہِ سلوک کےآداب 44 - سلطان کیا ہے 45 - مٹھاس کا استعمال 46 - رویائے صادقہ 47 - دُعا کے آداب 48 - فیض کا حاصل ہونا 49 - نماز کی اقسام 50 - بیعت کا قانون 51 - نیگٹو بینی 52 - اعتکافِ رمضان
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)