یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

حضرت محمد ﷺ اور تجارت

مکمل کتاب : بچوں کے محمد ﷺ (جلد اول)

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=31106

پیارے بچو!

مکہ شہر میں رہنے والے لوگ دو طریقوں سے کاروبار کرتے تھے۔

۱۔ تجارت کے ذریعہ۔

۲۔مویشیوں(بھیڑ، بکری، گائے اور اونٹ) کی پرورش کے ذریعہ۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے خاندان کے زیادہ تر لوگ تجارت کرتے تھے ۔  آپ ﷺ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اور آپ ﷺ نے بچپن میں ان کے ساتھ کئی تجارتی سفر کئے تھے۔

عرب میں رواج تھا کہ لوگ اپنا مال کسی تجربہ کار اور دیانت دار شخص کے حوالہ کر دیتے تھے۔وہ شخص ان کا مال دوسرے شہروں میں لے جا کر فروخت کرتا تھا اور منافع میں شریک ہوتا تھا۔

حضرت محمد ﷺ جب بڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے بھی کاروبار کیا۔حضرت محمد ﷺ امین، صادق اور وعدے کے پابند تھے۔حساب کتاب میں دیانت دار تھے۔آمدو خرچ کے حساب میں ایک پیسے کا خرچ نہیں ہوتا تھا۔حضرت محمد ﷺ نے کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔کسی کو اپنے مال کےبارے میں مغالطے میں نہیں رکھا۔مال میں جو نقص ہوتا تھا وہ بتا دیتے تھے۔

حضرت محمد ﷺ کے اچھے اخلاق کا اتنا اثر تھا کہ مکہ والے انہیں صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے اور اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس رکھواتے تھے۔

حضرت صائب ؓ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ مل کر تجارت کرتے تھے۔وہ کافی عرصہ بعد  حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے صائب ؓ سے فرمایا:

صائب!  مجھے پہچانتے ہو؟

حضرت صائب ؓ نے عرض کیا:

“کیوں نہیں آپ ﷺ تو میرے نہایت ہی اچھے شریک تجارت تھے نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات میں جھگڑتے تھے۔ “

حضرت محمد ﷺ جب بھی تجارت کی غرض سے سفر پر روانہ ہوتے  تو مکہ کے دوسرے تاجر یہ خواہش کرتے تھے کہ آپ ﷺ ان کا سامان اپنے ساتھ لے جائیں۔انہی تاجروں میں سے ایک خاتون حضرت خدیجہؓ تھیں۔

حضرت خدیجہؓ  ایک معزز شریف خاندان کی نیک سیرت اور ذہین تاجرہ تھیں حضرت خدیجہؓ کا کاروبار بہت وسیع تھا۔

حضرت خدیجہؓ نے حضرت محمدﷺ کی تعریف سنی تو آپ ﷺ کو پیغام بھجوایا کہ اگر آپ ﷺ میرا مال لے کر سفر پر جائیں تو میں جو معاوضہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے دو گنا منافع آپ ﷺ کو پیش کروں گی۔

حضرت محمد ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کے مشورہ سے اس پیش کش کو مننظور کر لیا اور تجارتی معاملات طے کرنے کے بعد سفر پر روانہ ہو گئے۔اس سفر میں حضرت محمدﷺ کو بہت زیادہ منافع ہوا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 14 تا 16

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)