جہنم

مکمل کتاب : قوس و قزح

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8599

دن ماہ و سال پر محیط جس زمانی وقفہ کو زندگی کا نام دیا جاتا ہے اس کا تعلق دراصل مادی مظاہر سے ہے۔ جب یہ مادی مظاہر مفقود ہو جاتے ہیں اور ہنستا بولتا چلتا پھرتا حرکت کرتا جسم، گوشت پوست کا پتلا ساکت و بے حس ہو جاتا ہے اور زندگی کے تمام آثار ختم ہو جاتے ہیں۔ ہم اسے مردہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس مردہ جسم میں ہر عضو موجود ہے جو مرنے سے پہلے جسم میں موجود تھا۔ دل دماغ پھیپھڑے گردے خون وغیرہ ہونے کے باوجود جسم میں حرکت باقی نہیں رہتی۔ اس حقیقیت کے پیش نظر یہ ماننا پڑے گا کہ جسم میں ضرور کوئی تبدیلی ہوئی ہے جس کی بناء پر جسم کے تقاضے ختم ہو گئے ہیں۔
مذہب بتاتا ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں حساب کتاب ہو گا جبکہ قبر کے اندر جسم مٹی کے ذرات سے تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔ مرنے کے بعد جس انسان سے احتساب ہوتا ہے وہ یہ مادی جسم نہیں ہے بلکہ روشنیوں کا ایک اور وجود ہے جو ہمارے جسم کے اوپر روشنیوں کے ہالے کی صورت میں رہتا ہے۔ مرنے کے بعد یہی جسم ہمارے اس کرۂ ارض میں زمین سے اوپر ایک زون(Zone) میں چلا جاتا ہے۔ یہ روشنی کا جسم وہاں معینہ مدت تک زندگی گزارتا ہے۔ اس (Zone) کے تقاضے بھی ہماری زندگی کے تقاضوں کی طرح ہیں۔
قرآن پاک میں جہاں اس مقام (Zone) کا ذکر آیا ہے وہاں دو مقام ’’بلندی و پستی‘‘ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان دو مقامات کا ہماری مادی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی اگر مذہبی اصولوں کے مطابق گزاری جائے تو انسان زون کے اعلیٰ مقام میں رہتا ہے اور اگر مذہبی اصولوں سے روگردانی کی جائے تو اسفل اور پست مقام پر زندگی گزارتا ہے۔ اعلیٰ مقام پر رہنے والے لوگ خوش رہتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کا خوف اور غم لاحق نہیں ہوتا جبکہ پست مقام پر رہنے والے لوگوں پر خوف دہشت بے یقینی اور اضطراب مسلط رہتا ہے۔ وہ پریشانی سے نجات حاصل کرنا بھی چاہیں تو نجات نہیں پاتے۔
ہر انسان کی فطری مجبوری ہے کہ وہ کسی نہ کسی عقیدہ پر اپنے مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔ اس لئے کہ حالات اسے بتاتے ہیں کہ وہ حالات کے ہاتھ میں چابی دار ایک کھلونا ہے۔ حالات چابی بھر دیتے ہیں تو کھلونا چلتا ہے دوڑتا ہے آوازیں نکالتا ہے۔ چابی ختم ہو جاتی ہے تو کھلونے میں کوئی حرکت نہیں رہتی۔ حالات کیا ہیں؟ چابی کہاں سے بھری جا رہی ہے؟ اس کے بارے میں انسان کوئی علم نہیں رکھتا ۔ یہ لاعلمی اسے ان دیکھی طاقت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ان دیکھی طاقت کے اوپر اس کا یقین اتنا ہی ہوتا ہے جیسے چشم دید چیزوں کے بارے میں ہوتا ہے۔ مذہب نے اس ان دیکھی طاقت کو خدا کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ جو لوگ مذہب بے زار ہیں وہ بھی نادیدہ طاقت کو ماننے پر مجبور ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس کا نام خدا کی بجائے نیچر (Nature) یا کوئی اور نام رکھ دیتے ہیں۔
میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے۔ تعارف کرایا کہ میں خدا کو نہیں مانتا۔ سب کچھ میں خود ہوں۔ یہ ساری دنیا میرے سامنے بازیچہ اطفال ہے۔
میں نے پوچھا۔ جی جناب! یہ تو فرمایئے کہ یہ دنیا کیسے بن گئی۔ انہوں نے وہی پرانی گھسی پٹی تھیوری بیان کر دی۔ زمین ایک کرہ ہے۔ خلا میں آتش فشاں پھٹا تو لاوا بہہ نکلا اور لاوے سے دنیا بن گئی ۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے عرض کیا جناب! یہ سب صحیح مان لیا جائے تب بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ دنیا میں توازن ہے۔ سورج اور چاند کے لئے منزلیں متعین ہیں۔ کائنات میں ہر موجود شئے کی ایک ڈیوٹی ہے اور ہر موجود نے اپنی ڈیوٹی سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ آخر یہ سب موجودات جب کسی نظام کے تحت سرگرم عمل ہیں تو۔ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں تو اس کی باگ دوڑ ہو گی؟
بولے۔ ہاں! یہ سب نیچر کا کام ہے۔ نیچر سب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ نیچر جانتی ہے کہ کائناتی نظام کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ میں نے سوال کیا۔ جناب مسلمان نیچر کو خدا‘ہندو‘بھگوان‘پارسی‘یزدان‘یہود‘ایل ایلیا‘انگریز گاڈ(God) کہتے ہیں۔ آپ نے خدا نہیں نیچر کہہ دیا۔ کیا یہ خود کو دھوکہ دینے والی بات نہیں ہو گی۔ آدمی ہوشیار تھے کچھ دیر خاموش رہے۔ اور گفتگو کا رخ بدل کر گویا ہوئے۔
اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ خد ا کا وجود ہے تو خدا نظر کیوں نہیں آتا۔
میں نے مؤدبانہ عرض کیا۔ جناب! آپ خود کو جانتے ہیں۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ پھر زور دار قہقہہ لگایا۔ ہنستے ہنستے بولے۔ کیا اچھا سوال کیا ہے؟ کیا تم خود کو جانتے ہو؟
میرے بھائی۔ میرے بزرگ کون ہے جو خود کو نہیں جانتا؟
میں نے ان کی بات سن کر کہا۔
تم خود کو جانتے ہو تو !
کیا تم اس خون کو دیکھ رہے ہو جو تمہاری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ تمہارے اندر ایک کائنات آباد ہے۔ کبھی تم نے اس کا مشاہدہ کیا ہے؟ میں نے ان سے پوچھا کہ تم زندگی کے کسی بھی اسٹیج پر بوڑھا ہونا پسند کرتے ہو؟ کیا تم اس رنگ و روشنی کی دنیا سے کلیتاً آزاد ہونا چاہتے ہو؟
کیا تم زندگی کے کسی بھی دور میں پریشان حال اور مصیبت زدہ رہنا چاہتے ہو؟
سامنے بیٹھے ہوئے صاحب نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ جیسے میں زندگی سے منحرف کوئی مایوس آدمی ہوں‘ جس کی زندگی میں امید کی کوئی رمق باقی نہیں رہ گئی ہے۔ گلا صاف کر کے اور ذرا مسکرا کر کہنے لگے ۔ اگر دنیا میں ٹوٹ پھوٹ نشوونما عروج و زوال اور فنا بقا نہ ہو تو پھر یہ دنیا، دنیا نہیں رہے گی۔
میں نے کہا! میرے دوست! بات یہ نہیں ہے کہ دنیا فنا بقا کا ایک کھیل ہے یا شکست و ریخت سے ہی نئے نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔ میں نے آپ سے پوچھا ہے کہ کیا آپ مرنا چاہتے ہیں اور جب آپ مرنا نہیں چاہتے تو کیوں مر جاتے ہیں۔ آپ خود کو بڑھاپے کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے لیکن آپ کے سیاہ خوبصورت بال چاندی کے تاروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
میرے مرشد حضرت قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک مجلس میں فرمایا۔
زمانہ گزرا کہ ایک آدم زاد اتنی بڑی عمر کو پہنچ گیا کہ اس کا دنیا میں کوئی بھی نہیں رہا۔ گزر بسر کے لئے جنگل سے لکڑیاں توڑ کر فروخت کرتے تھے۔ ایک روز لکڑیاں زیادہ جمع کر کے گٹھر تو باندھ لیا مگر اٹھاتے وقت ہاتھوں میں لرزہ آ گیا۔ خون پانی بن کر آنکھوں سے بہہ نکلا۔ بڑی ہی حسرت کے ساتھ آہ بھری اور بولے مجھ سے تو ملک الموت بھی روٹھ گیا ہے۔ اس کو بھی میرے حال پر رحم نہیں آتا۔ میں اب کیوں زندہ ہوں۔ میرے سب مر کھپ گئے۔ مجھے موت کیوں نہیں آ جاتی۔
ابھی لمحہ کا کچھ حصہ ہی گزرا تھا کہ ایک خوبصورت نوجوان سیدھی طرف آ کھڑا ہوا۔ سلام کیا اور پوچھا۔
بزرگو! میں آپ کی کیا خدمت کروں۔ بزرگ نے پوچھا۔
کون ہو تم
نوجوان بولا۔ میں ملک الموت ہوں، ابھی آپ نے یاد کیا تھا، حاضر ہو گیا ہوں۔
بزرگ فوراً بولے ، لکڑی کا یہ گٹھرا اٹھا کر میرے سر پر رکھ دے۔
سامنے بیٹھے ہوئے یہ صاحب جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک پروفیسر ہیں جو کمیونسٹ نظریہ پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور پکے اتنے ہیں کہ کمیونزم کی ستر سالہ عمارت ڈھیر ہونے کے باوجود اپنے نظریہ یا عقیدہ پر قائم ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب سے کہا۔ میرے محترم دوست! جس طرح آج کا دور بے چینی پریشانی کا دور ہے۔ اسی طرح پانچ ہزار سال پہلے بھی پریشانی اپنے عروج پر تھی۔ دنیا دو طبقوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ڈرامہ پوری توانائیوں کے ساتھ دنیا دیکھ رہی تھی۔ علم کی نشر و اشاعت عام تھی مگر عوام کو صرف وعدہ فردا سے دھوکہ دیا جا رہا تھا۔ ایک گروہ نے اپنے مقصد مطلب تاویلات کو مذہب سمجھ لیا تھا۔ منافقت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا۔ عوام چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے۔ کوڑیوں کا ڈھیر ان کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔ ایک گھرمیں سینکڑوں قمقمے روشن ہوتے تھے تو دوسرے گھر میں اندھیرا تھا۔
مذہب کی اجارہ داری جب شیطان صفت انسانوں کے ہاتھوں میں آ گئی اور عوام کو مذہب کے نام پر عزت نفس سے بھی محروم کر دیا گیا تو قانون قدرت نے کروٹ بدلی۔ فراعین کے گروہ کو نیست و نابود کرنے کے لئے ایک موسیٰ ؑ پیدا ہوا اور اعصائے موسیٰ ؑ نے خود کو اژدھے کے روپ میں بدل کر فراعین کے تمام بت کدوں کو نگل لیا۔
اب وہ گھڑی آ گئی ہے کہ مذہب سے کھیلنے والے گروہ کو عصائے موسیٰؑ نگل لے گا اور دنیا پھر سکھ اور چین کا سانس لے گی۔
میری تقریر دل پذیر پروفیسر صاحب نے غور سے سنی اور کہا۔ سچ ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ جو آج ہے وہ کل ہو گا اور جو کل ہو چکا ہے آج ہو رہا ہے۔ آج اور کل لمحات گزرنے کا ایک عمل ہے۔ لمحات کا گزر جانا ماضی ہے۔ ساری کائنات لمحات کی فلم ہے جو اربوں سال پہلے بن چکی ہے۔ مگر ہر زمانہ میں ایک ہی کردار کے مختلف ناموں سے زمین کی اسکرین پر ڈسپلے ہو رہی ہے!

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 104 تا 110

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)