یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

جگہ اور اوقات

مکمل کتاب : مراقبہ

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12325

ماحول جس قدر پر سکون اور فرحت بخش ہوتا ہے اسی مناسبت سے مراقبہ میں انہماک اور یکسوئی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مراقبہ ایسی جگہ کرنا چاہئے جہاں نہ زیادہ گرمی ہو اور نہ اتنی ٹھنڈک کہ سردی محسوس ہونے لگے۔ گرد و پیش میں چیزیں جتنی کم ہوں گی اسی قدر ذہن ہلکا رہے گا۔ جگہ ہوا دار اور گھٹن سے پاک ہونی چاہئے۔ مراقبہ کرتے وقت زیادہ سے زیادہ اندھیرے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ بتیاں بجھا دینی چاہئیں اور اگر کسی کھڑکی سے روشنی آ کر چہرے پر پڑ رہی ہو تو اسے پردے سے ڈھک دیں لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کمرے میں آکسیجن کی کمی نہ ہو۔

بستر پر بیٹھ کر مراقبہ کرنے سے ذہن آرام کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ مراقبہ فرش، تخت، چوکی یا کسی ہوئی چارپائی پر کیا جائے۔ مراقبہ کے وقت لباس ایسا ہونا چاہئے جس سے جسم بے آرام نہ ہو۔

مراقبہ کے لئے چار اوقات بہتر ہیں۔

  • صبح سورج نکلنے سے پہلے۔
  • دن کے وسط میں زوال کے بعد۔
  • عصر کے بعد اور
  • نصف رات کے بعد۔

ان اوقات میں نیچر کے اوپر سکوت طاری ہو جاتا ہے اور انسانی حواس میں بھی ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے ان اوقات میں مراقبہ کرنے کے فوائد زیادہ ہیں۔

ان سب اوقات کی اپنی جگہ کچھ خصوصیات ہیں۔ لیکن وہ اوقات بہتر ہیں جو غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب کے درمیان ہیں۔ اس کے بعد عصر کا وقت ہے جو غروب آفتاب کے قریب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات میں وہ حواس متحرک ہو جاتے ہیں جن سے غیبی دنیا کا انکشاف ہوتا ہے۔

زمین دو طرح چل رہی ہے۔ ایک گردش محوری ہے اور دوسری طولانی۔ زوال کے بعد زمین کی گردش میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ گردش کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عصر کے وقت تک یہ گردش اتنی کم ہو جاتی ہے کہ حواس پر دباؤ پڑنے لگتا ہے۔ انسان، چرند و پرند، سب پر دن کے حواس کی بجائے رات کے حواس کا دروازہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہر ذی فہم انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ عصر کے وقت اس کے اوپر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کو وہ تھکان اور اضمحلال کا نام دیتا ہے۔ یہ کیفیت شعور پر لاشعوری تحریکات کی ابتداء ہوتی ہے۔

نصف رات کے بعد لاشعوری حواس کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اور اسی لحاظ سے مراقبہ کے لئے یہ بہترین وقت ہے۔

لاشعوری حواس صبح سورج نکلنے سے پہلے تک غالب رہتے ہیں۔ اس لئے طلوع آفتاب سے پہلے مراقبہ کرنا زیادہ فوائد کا حامل ہے۔ سورج نکلنے سے پہلے مراقبہ کرنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ رات کی نیند دن بھر کے تھکن کے اثرات اور دماغی اضمحلال دور کر دیتی ہے اور مراقبہ کے وقت یکسوئی حاصل رہتی ہے۔ بیدار ہونے کے بعد بھی کچھ وقت لاشعوری تحریکات کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے مراقبہ کے اثرات ذہن کے اندر اتر جاتے ہیں۔

اکثر لوگوں کے لئے تقسیم کار اور معاشی مصروفیات کی بناء پر نصف رات کے بعد مراقبہ کرنا مناسب نہیں ہوتا کیونکہ دن بھر کی تھکن سے نیند غالب آ جاتی ہے اور مراقبہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے لوگوں کے لئے سورج نکلنے سے پہلے کا وقت بہترین وقت ہے۔

مراقبہ کتنی دیر کرنا چاہئے۔ یہ آدمی کی اپنی ذہنی کیفیت اور دماغی یکسوئی پر منحصر ہے۔ مراقبہ کا وقت دس پندرہ منٹ سے لے کر کئی گھنٹے تک ہو سکتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مراقبہ کے دوران وقت گزرنے کا احسا س نہیں ہوتا۔ جب آنکھیں کھلتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ حد سے زیادہ وقت گزر گیا ہے۔ کبھی آدمی کی آنکھیں مقررہ وقت سے پہلے کھل جاتی ہیں اور طبیعت میں مراقبہ کا رجحان نہیں رہتا۔ لیکن مراقبے کا اوسط دورانیہ بیس منٹ سے لے کر پینتالیس منٹ ہے۔

مراقبہ کے لئے جو وقت بھی مقرر ہو اس کو پوری طرح استعمال کیا جائے۔ نہایت سکون اور اطمینان سے مراقبہ شروع کیجئے۔ خود کو ہر طرح ذہنی یکسوئی کے لئے تیار کر لیں۔ جس طرح ہم کسی کتاب کے مضمون سے مستفید ہونے کے لئے زیادہ سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ مطالعہ کے لئے ماحول کو پر سکون بناتے ہیں۔ اسی طرح مراقبہ کے لئے بھی توجہ، انہماک اور سکون کا ہونا ضروری ہے۔
مراقبہ کی نشست میں بیٹھ کر پہلے ذہن کو بالکل آزاد چھوڑ دیں اور زیادہ سے زیادہ پر سکون ہو جائیں۔ اس کے لئے الفاظ کے ذریعے بھی ترغیب دی جا سکتی ہے۔ مثلاً:

’’ہر طرف سکون اور ٹھہراؤ ہے، میرے اندر بھی یکسوئی اور ٹھہراؤ داخل ہو رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

یہ الفاظ دل ہی دل میں آہستگی سے ادا کئے جائیں تا کہ ان کا اثر ذہن میں گہرائی میں اتر جائے۔ جب جسم، ذہن اور سانس میں توازن پیدا ہو جائے تو مراقبہ شروع کیا جائے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 207 تا 210

یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

مراقبہ کے مضامین :

انتساب 1 - انفس و آفاق 2 - ارتکاز توجہ 3 - روحانی دماغ 4 - خیالات کی لہریں 5 - تیسری آنکھ 6 - فلم اور اسکرین 7 - روح کی حرکت 8.1 - برقی نظام 8.2 - تین کرنٹ 9.1 - تین پرت 9.2 - نظر کا قانون 10 - كائنات کا قلب 11 - نظریہ توحید 12.1 - مراقبہ اور مذہب 12.2 - تفکر 12.3 - حضرت ابراہیم ؑ 12.4 - حضرت موسیٰ ؑ 12.5 - حضرت مریم ؑ 12.6 - حضرت عیسیٰ ؑ 12.7 - غار حرا 12.8 - توجہ الی اللہ 12.9 - نماز اور مراقبہ 12.10 - ذکر و فکر 12.11 - مذاہب عالم 13.1 - مراقبہ کے فوائد 13.2 - شیزو فرینیا 13.3 - مینیا 14.1 - مدارج 14.2 - غنود 14.3 - رنگین خواب 14.4 - بیماریوں سے متعلق خواب 14.5 - مشورے 14.6 - نشاندہی 14.7 - مستقبل سے متعلق خواب 15.1 - لطیف احساسات 15.2 - ادراک 15.3 - ورود 15.4 - الہام 15.5 - وحی کی حقیقت 15.6 - کشف 16 - سیر 17 - فتح 18.1 - مراقبہ کی اقسام 18.2 - وضاحت 18.3 - عملی پروگرام 18.4 - اندازِ نشست 18.5 - جگہ اور اوقات 18.6 - مادی امداد 18.7 - تصور 18.8 - گریز 18.9 - مراقبہ اور نیند 18.10 - توانائی کا ذخیرہ 19.1 - معاون مشقیں 19.2 - سانس 19.3 - استغراق 20.1 - چار مہینے 20.2 - قوتِ مدافعت 20.3 - دماغی کمزوری 21 - روحانی نظریہ علاج 22.1 - رنگ روشنی کا مراقبہ 22.2 - نیلی روشنی 22.3 - زرد روشنی 22.4 - نارنجی روشنی 22.5 - سبز روشنی 22.6 - سرخ روشنی 22.7 - جامنی روشنی 22.8 - گلابی روشنی 23 - مرتبہ احسان 24 - غیب کی دنیا 25.1 - مراقبہ موت 25.2 - اعراف 25.3 - عظیم الشان شہر 25.4 - کاروبار 25.5 - علمائے سوء 25.6 - لگائی بجھائی 25.7 - غیبت 25.8 - اونچی اونچی بلڈنگیں 25.9 - ملک الموت 25.10 - مراقبہ نور 26.1 - کشف القبور 26.2 - شاہ عبدالعزیز دہلویؒ 27 - روح کا لباس 28.1 - ہاتف غیبی 28.2 - تفہیم 28.3 - روحانی سیر 28.4 - مراقبہ قلب 28.5 - مراقبہ وحدت 28.6 - ’’لا‘‘ کا مراقبہ 28.7 - مراقبہ عدم 28.8 - فنا کا مراقبہ 28.9 - مراقبہ، اللہ کے نام 28.10 - اسم ذات 29 - تصورشیخ 30 - تصور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام 31 - ذات الٰہی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)