‘‘جُو’’ کا واسطہ

مکمل کتاب : لوح و قلم

مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=255

انسانی زندگی کے دو رُخ ہیں۔ ایک ظاہری رُخ اور دوسرا باطنی رُخ۔ ظاہری رُخ دیکھنے والوں کے لئے پہچان کا ذریعہ ہے کہ یہ فلاں شخص ہے یا یہ فلاں چیز ہے۔ اور باطنی رُخ دیکھی ہوئی چیزوں کی یادداشت کا تصویر خانہ ہے۔ یعنی دیکھی ہوئی چیزیں اُس رُخ میں بشکلِ تصویر محفوظ رہتی ہیں۔ ہم اِن دونوں رُخوں کو پوری طرح سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں، جو کچھ ہمارے باطنی رُخ میں منقّش اور موجود ہے، وہ جب ظاہری طور ہر ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو ہم بِلا تأمل اُسے شناخت کر لیتے ہیں، اب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ جو کچھ باطن میں ہے وہی ظاہر میں ہے اور جو چیز باطن میں موجود نہیں ہے وہ ظاہر میں موجود نہیں ہو سکتی۔ گویا ظاہر باطن کا عکس ہے۔ باطن اصل ہے اور ظاہر اُس کا پَرتَو ہے۔ اور کسی شخص کی ذات میں پوری کائنات کے تمام اجزاء اور اجزاء کی حرکتیں منقُوش اور موجود ہیں۔
انسان کی ذات دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصّہ داخلی ہے اور دوسرا حصّہ خارجی ہے۔ داخلی حصّہ اصل ہے اور خارجی حصّہ اُس ہی کا سایہ ہے۔ داخلی حصّہ وحدت کی حیثیت رکھتا ہے اور خارجہ حصّہ کثرت کی۔ داخلی حصّہ میں مکان اور زمان دونوں نہیں ہوتے، لیکن خارجی حصّہ میں مکان اور زمان دونوں ہوتے ہے۔ داخلی حصّہ میں ہر چیز جزوِ لا تجزأ کی حیثیت رکھتی ہے، کسی مکانیّت کا احاطہ بھی موجود نہیں ہے۔ خارجی حصّہ میں مکانیّت اور زمانیّت دونوں موجود ہیں۔
مثال: ہم کسی عمارت کی ایک سمت میں کھڑے ہو کر اِس عمارت کے ایک زاویہ کو دیکھتے ہیں۔ جب اِس عمارت کے دوسرے زاویہ کو دیکھنا ہوتا ہے تو چند قدم چل کے اور کچھ فاصلہ طے کرکے ایسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے عمارت کے دوسرے رُخ پر نظر پڑتی ہے اور فاصلہ طے کرنے میں تھوڑا سا وقفہ بھی صرف ہُوا۔ اِس طرح نظر کا ایک زاویہ بنانے کے لئے مکانیّت اور زمانیّت دونوں وقوع میں آئیں۔ ذرا وضاحت سے اِس مسئلہ کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ جب ایک شخص لندن ٹاورکو دیکھنا چاہے تو کراچی سے سفر کرکے اُسے لندن پنہچنا پڑے گا۔ ایسا کرنے میں اُس کو ہزاروں میل کی مسافت اور کئی دنوں کا زمانی لگانا پڑے گا۔ اب نگاہ کا وہ زاویہ بنا نا تھا جو لندن ٹاور کو دکھا سکے۔ یہ انسان کی ذات کے خارجی حصّے کا زاویۂِ نگاہ ہے۔
اِس زاویہ میں مکانیّت اور زمانیّت استعمال ہونے سے کثرت پیدا ہو گئی۔ اگر ذات کے داخلی زاویۂِ نگاہ سے کام لینا ہو تو ہم اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذہن میں لندن ٹاور کا تصوّر کرسکتے ہیں۔ تصوّر کرنے میں جو نگاہ استعمال ہوتی ہے وہ اپنی توانائی کی وجہ سے ایک دُھندلا سا خاکہ دکھاتی ہے۔ لیکن وہ زاویہ ضرور بنا دیتی ہے جو ایک طویل سفر کرکے لندن ٹاور تک پہنچنے کے بعد ٹاور کو دیکھنے میں بنتا ہے۔ اگر کسی طرح نگاہ کی ناتوانی دُور ہا جائے تو زاویۂِ نگاہ کا دُھندلا خاکہ روشن اور واضح نظارے کی حیثیّت اختیار کر سکتا ہے اور دیکھنے کا مقصد بالکل اُس ہی طرح پُورا ہو جائے گا جو سفر کی جدّوجہد اور سفر کے بہت سے وسائل استعمال کرنے کے بعد پُورا ہوتا ہے۔ اصل چیز زاویۂِ نگاہ کا حُصول ہے… جس طرح بھی ممکن ہو۔
یہ واضح ہو گیا کہ ایک انسان کی روح نفسہٖ جزوِ لا تجزأ ہے۔ ہر انسان زاویۂِ نگاہ کے تحت اپنی ذات میں پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے… اُس کائنات کا جو خود بھی جزوِ لاتجزأ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ذات کا داخلی حصّہ وحدت اور ذات کا خارجی حصّہ کثرت ہے۔ وحدت وہ حصّہ ہے جس میں مکانیّت ہے نہ زمانیّت… صرف شاہد اور مشہود اور مشاہدہ… یعنی احساس کے تین حصّوں کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ اور ذات کے خارجی حصّہ میں محض اِس احساس کا عکس ہے جس کا نام کثرت رکھ لیا گیا ہے۔ یہ عکس مکانیّت اور زمانیّت دونوں کا احاطہ کرنے کے بعد احساس کو ٹھوس شکل میں پیش کرتا ہے۔ جیسے ہی انسان ایک سمت میں چلا گیا اور ذرا سا وقفہ گرزا، اُس نے اپنے احساس میں ایک دباؤ محسوس کیا۔ فوراً احساس کے ٹکڑے ہوتے چلے گئے۔ وہ سوچنے لگا، وہ دیکھنے لگا، سننے لگا، سونگھنے لگا اور چُھونے لگا۔ یہ احساس بھی جو شاہد کی حیثیت میں سب کچھ کر رہا ہے، جزوِ لاتجزأ ہے۔ مشہود کی حیثیت میں جو کچھ بھی محسوس ہو رہا ہے وہ بھی جزوِ لاتجزأ ہے اور مشاہدہ کی حیثیت میں جو شاہد اور مشہود کا درمیانی واسطہ ہے وہ بھی جزوِ لاتجزأ ہے۔

یہ ہے کُنۂِ احساس…. اور … وحدت و کثرت کی حقیقت!

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 23 تا 26

لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - انتساب 0.02 - عرضِ احوال 1 - بسمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم 2 - عالمِ رُؤیا سے انسان کا تعلق 3 - رُؤیا کی صلاحیّتوں کے مَدارِج 4 - لوحِ اوّل یا لوحِ محفوظ 5 - لوحِ دوئم 6 - عالمِ جُو 7 - کثرت کا اَجمال 8 - ‘‘جُو’’ کا واسطہ 9 - احساس کی درجہ بندی 10 - وَحدتُ الوُجود اور وَحدتُ الشُہود 11 - روحِ اعظم، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور لطائفِ ستّہ 12 - اسماءِ الٰہیہ 13 - اسماءِ الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے 14 - خواب اور بیداری 15 - لوحِ محفوظ اور مراقبہ 16 - تدلّٰی 17 - کُن فیَکون 18 - علمِ لدُنّی 19 - ہر اسم تین تجلّیوں کا مجموعہ ہے 20 - اسمِ ذات 21 - روح کی مرکزیّتیں اور تحریکات 22 - لطیفۂِ نفسی کی حرکت 23 - باصرہ اور شُہود نفسی 24 - عملِ اِسترخاء 25 - علم ‘‘لا’’ اور علم ‘‘اِلّا’’ 26 - ‘‘لا’’ کا مراقبہ 27 - قوّتِ اَلقاء 28 - سالک مجذوب، مجذوب سالک 29 - نسبت کا بیان 30 - ٹائم اسپیس کا قانون 31 - زمانیت اور مکانیت کا راز 32 - کائنات کی ساخت 33 - نیابت کیا ہے؟ 34 - لوحِ محفوظ کا قانون 35 - اَنا یا انسانی ذہن کی ساخت 36 - علمُ الیقین، عینُ الیقین، حقُ الیقین 37 - تخلیق کا قانون 38 - انبیاء کے مقامات 39 - تخلیق کا فارمولا 40 - ماضی اور مستقبل 41 - زمان و مکان کی حقیقت 42 - اِدراک کیا ہے؟
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)