جنّت کی سیر

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17715

میں آگے بڑھا اور یاقوت و زمرّد سے بنا ہوا  دروازہ  کھول کر  اندر چلا گیا۔ جنّت کو ایک وسیع و عریض لا متناہی رقبہ پر آباد ایک خوش نما شہر دیکھا۔ سچّے موتیوں کی چمک دمک بنی ہوئی اینٹوں سے فلک بوس محلات نظر آئے۔ ہر محل سے پہلے دیدہ زیب  اور خوبصورت باغ، باغوں میں مخروطی اور بیضوی تالاب، تالابوں میں آنکھوں کو خیرہ کرنے والا صاف شفّاف پانی، پانی ایسا میٹھا جیسے شہد ،تالاب یا حوض میں فوارے،  فواروں میں ابلتا ہوا قوس و قزح کی طرح رنگین پانی۔ پانی کی ہر لہر یا دھار کارنگ الگ، جب پانی ابلتا ہے رنگ برنگی ہزاروں قسم کی پھول جھڑیوں کا گمان ہوتا ہے۔ محلات کے اندر آسائش کا ایسا سامان جو زمین پر بسنے والے کے تصوّر  سے باہر ہے۔ پردے ایسے کہ زربفت کم خواب ان کے سامنے کھدّر سے بھی کم دقعت۔ محلات میں خدمت گار حور و غلمان، سراپا نور میں ڈھلے ہوئے۔ آنکھوں میں سچے موتی اور نیلم کی چمک۔ رخسار لعل بدخشان، حوریں سراپا سپردگی، غلمان سراپا سپردگی جذب و کشش۔ میں نے نظر بھر کر حور کو دیکھا تو میرے اوپر کپکپی طاری ہو گئی۔ اور جب اس حالتِ غیر کو حور نے دیکھا تو وہ مسکرائی ایسی مسکراہٹ کہ بجلیاں کوند گئیں۔ دماغ گھوم گیا۔ کھڑے ہونے کا یارانہ رہا۔ ایک میگنٹ تھا جو لہریں بن کر جسم و جان میں دوڑ رہا تھا۔ اللہ تعالٰی کی اس صناعی کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ جذب و شوق نے کروٹ بدلی۔ میں دیوانہ وار آگے بڑھا اور حور میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

جنّت کے باغوں میں ایسے درخت دیکھے جو نور سے مرکّب سراپا نور نظر آئے۔  ایسے طوطی مقال رنگ برنگے پرندے دیکھے جن کے پروں سے روشنی نکل رہی تھی۔ پھول ایسے جن میں کئی کئی رنگوں کا امتزاج، پھول کی پتی کا ہر رنگ ایک قمقمہ، خوشبو کا طوفان، لگتا ہے کہ کروڑوں روشنیوں کے رنگ رنگ قندیل روشن ہیں۔ ہوا چلتی ہے تو پوری فضا جلترنگ ہو جاتی ہے اور اونچے نیچے اور مدّھم سروں میں ساز بجنے لگتے ہیں۔ سازوں میں اتنا کیف و سرور کہ آدمی وجدان سے معمور ہو جاتا ہے۔ باغوں میں دودھ اور شہد کی نہریں۔ پھل اس قدر شریں اور خوش ذائقہ کہ انسان ان کا ذائقہ چکھ لے تو اس کے اوپر نشہ طاری  ہو جائے۔ مجھے وہ مقام بھی دکھایا گیا جہاں حضرت آدم علیہ السلام و حّواسکونت پزیر تھے۔ ۔ وہ درخت بھی مشاہدہ میں آیا جس کے قریب جانے سے اللہ تعالٰی نے منع فرمایا تھا۔ دل چاہتا ہے کہ اس درخت کی تشریح بیان ہو جائے لیکن ہاتف غیبی مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہ بات نوع انسانی کے شعور کی سکت سے باہر ہے۔

جنّت کی مسحور و مخمور فضا میں ہر طرف ہریالی، خوش نما پھل پھول، آبشاریں، نہریں تالاب، حوض اور حوض میں کنول کی طرح پھولوں کی بہتات ہے ۔ سماں ایسا جیسے بارش ہونے کے بعد سورج غروب ہونے سے ہوتا ہے۔ القصہ مختصر، میں ابھی محو حیرت تھا کہ حضور خواجہ غریب نواز  نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔  “کیا سمجھا، یہ سب کیا ہے؟”

اب میں پھر روضہ مقدّس و مطہّر کے اندر حضور خواجہ  صاحب کے سامنے مکمّل عجزو انکسار بنا بیٹھا تھا۔

سلطان العارفین حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا۔۔۔۔۔

“جو دیکھا ۔ کیا سمجھا؟”

اور پھر قرآن کریم کی سورہ المطفّفین تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے۔۔۔

خرابی ہے ڈنڈی مارنے والوں کی، جن کا یہ حال ہے جب لوگوں سے ماپ لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ماپ یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گٹھا دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟ اس دن جب کہ سب لوگ اللہ ربّ العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ ہر گز نہیں یقیناً بدکاروں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر کیا ہے؛”  ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ تباہی ہے اس روز ان لوگوں کے لئے جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں اور روز جزا کو وہی لوگ جھٹلاتے ہیں جو حد تجاوز کر جانے والے بد عمل ہیں۔ انہیں جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو  یہ کہتے ہیں  یہ تو اگلے وقتوں کی  کہانیاں ہیں۔ ہر گز نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں پر  اور ان کے بُرے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے۔ ہر گز نہیں یقیناً اس روز یہ اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جاِیئں گے۔ پھر یہ جہنم میں جا پڑیں گے۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلادیا کرتے تھے۔ ہر گز نہیں ۔ بے شک نیک آدمیوں کا نامہ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے، اور تجھ کو کیا خبر ہے کیا ہیں اوپر والے؛ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ اس کو دیکھتے ہیں فرشتے نزدیک والے۔ بے شک نیک لوگ ہیں آرام میں، اونچی مسند اور تختوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے  ہوں گے۔ ان کے چہروں پر تم آرام اور تازگی محسوس کروگے۔ ان کو نفیس ترین شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر لگی ہوئی ہوگی۔ جو لوگ دوسروں  پر بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ اس شراپ میں تسنیم کی آمیزش ہو گی۔ یہ پاک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقّرب لوگ شراب پیئں گے۔

مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جب انکے پاس سے گزرتے تو آنکھیں   مار مار کر ان کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ اپنے گھروں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے  ہوئے پلٹتے تھے اور جب دیکھتے تو کہتے تھے یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں حالاں کہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے۔

آج ایمان لانے والے کفّار پر ہنس رہے ہیں ۔ مسندوں پر بیٹھے ہوئے ان کا حال دیکھ رہے ہیں۔ اب بدلہ پایا منکروں نے جیسا کرتے تھے۔ )پارہ ۳۰  ۔ سورہ ۸۳(

اللہ کے دوست سیدّنا حضور علیہ ولصلوۃ ولسلام کے وارث، اولیا اللہ کے سردار حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن کریم کی تلاوت کے بعد کہا” تو کیا سمجھا؟ ذہن پر زور ڈال اور تفکر کر”۔

خواجہ صاحب کی زبان سے تلاوت قرآن پاک سن کر میرے اوپر سکتہ کی سی کیفیت تھی۔ میں کچھ بھی تو نہ بول سکا۔ گم سم خاموش بیٹھا رہا۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ یوں گویا ہوئے۔” تو یہ بات جانتا ہے کہ زندگی دوسرے معنوں میں  خبر ہے۔ مسلسل اور متواتر خبر۔ ایسی خبر جو علم کی حثیت رکھتی ہے۔” اور پھر جب یہ آیت تلاوت کی۔ اور ہم نے آدم کو اپنے اسماء کا علم سکھایا” تو پھر شہود کے عالم میں چلا گیا۔ آدم کی تخلیق کس طرح ہوئی، کھنکھناتی بجتی مٹی کا مفہوم کیا ہے۔ یہ سب اجزا  کڑی در کڑی سامنے آ گئے۔ مختصر یہ کہ آدم ایک خلا ہے، ایسا خلا جو بجتا ہے اور جو چیز بجتی   وہ خبر یا علم ہے۔ اللہ تعالٰی کو منظور ہوا تو کسی موقع پر آدم کی تخلیق کے فارمولے منظرعام پر آ جایئں گے۔

قانون یہ ہے کہ جب کوئی بات سمجھائی جاتی ہے اور کوئی علم سکھایا جاتا ہے تو وہ بات یا علم  ڈسپلے (DISPLAY)ہوتا ہے۔ یعنی جب  کوئی صاحبِ روحانیت ۔ گہیوں کہتا ہے تو ہمارے سامنے محض گندم کا دانہ ہی نہیں ہوتا بلکہ گندم جن انوار اور روشنیوں سے بنا ہے پہلے وہ انوار اور روشنیاں سامنے آتی ہیں اور اگر یہ بتایا جائے کہ گندم زمین سے اگتا ہے تو گندم کا یہ اُگنا اس طرح ڈسپلے ہو گا کہ گندم کے اندر روشنیاں، گندم کو ہاتھ سے چھوڑا، فضا میں جو روشنیاں اور گیسز(GASES) ہیں، وہ روشنیاں اور گندم کے اندر کام کرنے والی روشنیاں برہم دگر مل کر کیفیت پیدا کرتی ہیں، یہ بات سامنے آتی ہے۔ اور جب گندم زمین پر گرتا ہے تو زمین کی ساخت ، زمین کن انوار،کن روشنیوں اور کن گیسز سے مرکب ہے۔ یہ سب چیزیں آنکھوں کے سامنے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں۔ پھر یہ بات علم بن جاتی ہے کہ گندم ذخیرہ ہے اپنی مخصوص مقداروں کا۔ فضا میں پھیلی ہوئی کھربوں روشنیاں اور زمیں کے اندر کام کرنے والی لہروں کا علم مشاہدہ بن جاتا ہے۔

خالقِ کائنات کے دوست، مقّدس اور برگزیدہ ہستی قبلہ عالم حضرت  خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رح نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور فرمایا” واپس جا اور تفکر کو اپنا شعار بنا لے”

اب میں کھُلے آسمان کے نیچے چھت پر بیٹھا تھا اور جسم سردی سے کپکپا رہا تھا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 54 تا 59

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)