بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=305

بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم

قسم ہے زمانے کی، انسان خسارہ اور نقصان میں ہے مگر وہ لوگ اس سے مستثنٰی ہیں جو رسالت اور قراۤن کی تعلیمات کو اپنا کر اس پر عمل پیرا ہوگئے۔

القراۤن

 

پیدائش کے بعد انسان کا تعلق تین نظاموں سے ہے۔ پہلا نظام وہ ہے جہاں اس نے خالقِ حقیقی کو دیکھ کر اس کے منشا کو پورا کرنے کا عہد کیا۔ دوسرا نظام وہ ہے جس کو ہم عالمِ ناسوت، دارالعمل یا امتحان گاہ کہتے ہیں۔ اور تیسرا نظام وہ ہے جہاں انسان کو امتحان کی کامیابی یا ناکامی سے باخبر کیا جاتا ہے۔

انسان کی کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ یہ جان لے کہ اس نے اللہ کے سامنے عہد کیا ہے کہ اللہ اس کا خالق اور رب ہے۔ علماء باطن کہتے ہیں کہ انسان ستّر ہزار پرت کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان جب عالمِ ناسوت میں اۤتا ہے تو اس کے اوپر ایک پرت ایسا غالب اۤجاتا ہے جس میں سرکشی، بغاوت، عدم تحفظ، عدم تعمیل، کفرانِ نعمت، ناشکری، جلد بازی، شک، بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہی وہ ارضی زندگی ہے جس کو قراۤنِ پاک نے اسفل السافلین کہا ہے۔

انبیاء کرام کی تعلیمات یہ ہیں کہ پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں۔ ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری طرز اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے۔ وہ ناپسندیدہ طرز جو بندے کو اللہ سے دور کرتی ہے اس کا نام شیطنت ہے اور وہ پسندیدہ طرز فکر جو اللہ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے۔

روحانیت کے راستے پر چلنے والے مبتدی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ انسان کا کردار اس کی طرزِ فکر سے تعمیر ہوتا ہے۔ طرزِ فکر میں اگر پیچ ہے تو اۤدمی کا کردار بھی پُر پیچ بن جاتا ہے۔ طرزِ فکر الٰہی قانون کے مطابق راست ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی اور راست بازی کارفرما ہوتی ہے۔ طرزِ فکر اگر سطحی ہے تو بندہ سطحی طریقہ پر سوچتا ہے۔ طرزِ فکر میں گہرائی ہے تو بندہ شئے کی حقیقت جاننے کے لئے تفکر کرتا ہے۔

حقیقت پسندانہ طرزِ فکر ہر اۤدمی کے اندر موجود ہے لیکن ہر اۤدمی اسے استعمال نہیں کرتا۔ اۤدمی دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی غیر حقیقی باتوں کو اصل اور حقیقی سمجھتا ہے۔ سالک جب راہِ سلوک میں قدم بڑھاتا ہے تو والدین اور معاشرہ سے ملی ہوئی غیر حقیقی طرزِ فکر تبدیل ہوجاتی ہے۔

جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اسی طرز کے نقوش کم و بیش ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں۔ جس حد تک یہ نقوش گہرے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرزِ فکر تشکیل ہوتی ہے۔ ماحول اگر ایسے کرداروں سے بنا ہے جو ذہنی پیچیدگی، بے یقینی، بددیانتی، تخریب اور ناپسندیدہ اعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں تو فرد کی زندگی امتلا میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ ماحول میں اگر راست بازی اور اعلیٰ اخلاقی قدریں موجود ہیں تو ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا فرد پاکیزہ نفس اور حقیقت اۤشنا ہوتا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ مادری زبان سیکھنے کے لئے بچے کو قاعدہ پڑھنا نہیں پڑتا۔ شک اور بے یقینی کا پیٹرن جس طرح بچے کے اندر ماحول سے خود بخود منتقل ہوجاتا ہے، اسی طرح پاکیزہ ماحول اور روحانی استاد کی قربت سے سالک کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے۔

جتنے بھی پیغمبر تشریف لائے سب کی طرزِ فکر یہ تھی کہ ماورائی ہستی کے ساتھ ہمارا رشتہ قائم ہے۔ یہی روحانی طرزِ فکر اور یہی رشتہ کائنات کی رگِ جان ہے۔

روحانی طرزِ فکر مسلسل ایک عمل ہے جو سالک کے اندر خون کی طرح دور کرتا رہتا ہے۔ اس عمل میں بڑی رکاوٹ صدیوں پرانی وہ روایات ہیں جن کا مطمحِ نظر مادیت ہے۔ اۤدمی جس ماحول میں جوان ہوتا ہے وہ ماحول خاندان اور قبیلوں کی روایات بن جاتی ہیں۔ روایات کہ امین والدین ہوتے ہیں، بھائی بہن ہوتے ہیں، کنبہ برادری کے لوگ اور تمام قرابت دار ہوتے ہیں۔ انسانی برادری میں دوطرح کے لوگ ہیں۔

۱۔ جو خاندانی روایات میں زندہ رہتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے اور اگر ہو رہا ہے تو کیوں ہورہا ہے۔ ان کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہمارے باپ دادا اس طرح کرتے تھے۔

۲۔ دوسرا گروہ سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔

مشرکین مکہ باوجود یہ کہ جانتے تھے کہ تین سو ساٹھ (۳۶۰) بت ہمارے جیسے اۤدمیوں نے پتھروں سے تراشے ہیں۔ یہ اۤدمیوں کی طرح بول نہیں سکتے، سن نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خاندانی روایات کا اتنا زیادہ غلبہ تھا کہ وہ ان بے جان پتھروں کے مجسم ٹکڑوں کو خدا کا درجہ دیتے تھے نہ صرف خود خدا مانتے تھے بلکہ کوئی اس حقیقت کو بیان کرتا تھا کہ ہمارے خدا پتھروں کے بے جان مجسمے ہیں تو اس کے درپے اۤزار ہوجاتے تھے۔ شرمناک حد تک سزائیں دینا ان کے نزدیک بہترین عمل تھا۔ صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گَرد سے اٹا ہوا ماحول ان کے اندر سے فہم کا چشمہ خشک کردیتا ہے۔

ہمارے سامنے ہمارے بچوں کی مثال ہے۔ ہم جب بچوں کو جہالت سے معمور ماحول سے الگ کرکے علمی ماحول میں داخل کرتے ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔ دراصل جہالت کے خلاف اعلانِ بغاوت کرتے ہیں۔ بچے کو اسکول (یعنی جاہلانہ ماحول سے اۤزاد ماحول) میں داخل کرتے ہیں۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں دس سال لگ جاتے ہیں۔ ایک سال کا وقفہ شمار کیا جائے تو ساڑھے تین ہزار گھنٹے صَرف کرکے ہمارا بچہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ سو(۱۰۰) تک گنتی یاد کرلیتا ہے۔

میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں پینتیس ہزار (۳۵۰۰۰) گھنٹوں کا وقت اور ہزاروں روپے صَرف ہوتے ہیں۔ ان پینتیس ہزار گھنٹوں میں ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ پڑھائی میں لگا رہے۔ باپ بھی اس طرف توجہ دیتا ہے کہ بچے کی تعلیم میں کوتاہی نہ ہو۔ بھائی بھی کتابیں کاپیاں لے کر ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ بہن بھی پڑھنے کی تلقین کرتی ہے۔ گھر کے سبھی افراد توجہ دیتے ہیں تب سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم ابھی شروع نہیں ہوئی۔ میڑک کے بعد راستہ کھلتا ہے کہ کس فیلڈ میں اۤگے بڑھنا ہے۔ ڈاکٹر بننا ہے، انجینیئر بننا ہے، اکاؤنٹنٹ بننا ہے، جہاز اڑانا ہے، مشین بنانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ دس سال میں اۤدمی عالم نہیں بن جاتا۔ قابلِ ذکر علوم کے حصول کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ تذکرہ دنیاوی تعلیم کا ہے۔

دوسری طرف روحانی علوم ہیں۔ ایک ہفتہ میں ایک گھنٹہ کا وقت اۤدمی بمشکل نکالتا ہے۔ اس تناسب سے ایک ماہ میں چار گھنٹے اور ایک سال میں اڑتالیس(۴۸) گھنٹے بنتے ہیں۔ اۤدمی کے دیگر معمولات بھی جاری رہتے ہیں۔ کاروبار بھی ہوتا رہتا ہے۔ ملازمت بھی جاری رہتی ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر امور بھی انجام دیئے جاتے ہیں اور صدیوں پرانی روایات اور ماحول سے بھی اۤدمی ذہنی طور پر وابستہ رہتا ہے۔

ایک سال میں صرف (۴۸) گھنٹے صرف کرکے اگر یہ سوچا جائے کہ کچھ حاصل نہیں ہوا، میں کشف کی لذّت سے اۤشنا نہیں ہوا، مافوق الفطرت باتیں سامنے نہیں اۤئیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانیت کی اہمیت دنیاوی علوم کی ابتدائی کلاسوں سے بھی کم کردی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ دس سال تک ہر سال ساڑھے تین ہزار گھنٹے صرف کرنے کے بعد طالب علم اس قابل ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے کسی شعبہ کا ۱نتخاب کرے تو ۴۸ گھنٹے کا وقت دے کر وہ کس طرح کہتا ہے کہ روحانی علوم حاصل نہیں ہوئے۔

خالص دنیاوی ماحول میں رائج طرزِ فکر سے روحانی استاد کی طرزِ فکر منفرد ہوتی ہے۔ روحانی استاد میں توکل اور استغناء ہوتا ہے، دنیا طلبی نہیں ہوتی۔ اس کی مرکزیت ”توحید” ہے۔

روحانی علوم سیکھنے کے لئے طالبات اور طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر منفی، شیطانی اور غیر اسلامی روایات سے بغاوت کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ صراطِ مستقیم پر چلنے اور مستقل مزاجی سے اۤگے بڑھنے کا عزم ہو۔ سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقوشِ قدم پر قائم رہنے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کے لئے طاغوتی طاقتوں اور نفس کی ہر سرکشی سے ٹکرانے اور انہیں زیر کرنے کی ہمت ہو۔

پیشِ نظر صفحات میں سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ طیّبہ کے وہ پہلو جمع کئے گئے ہیں جن میں مثبت طرزِ فکر کو فروغ دینے میں شر کے نمائندوں کی طرف سے قدم قدم پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا تذکرہ ہے۔ توحید کے راستے میں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اور ذہنی اذیتوں میں گزر گئی۔ اور بالاۤخر وہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب و کامران ہوئے۔ وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ ان سے راضی ہوگیا۔

روحانی علوم کے متلاشی ان افراد کے لئے جو روحانی علوم سیکھنا اور سکھانا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ طیّبہ کا مطالعہ کریں اور سیرتِ طیّبہ کو بار بار پڑھیں اور اس بات پر غور و فکر کریں کہ سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے الٰہی مشن کو پھیلانے کے لئے اور وحدانیت کا پرچار کرنے کے لئے اور کفّار کو حلقۂ توحید میں لانے کے لئے کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ ہم جب حضور پاکؐ کی سیرتِ طیّبہ کو حرزِ جاں بنالیں گے تو روحانی علوم کو فروغ دینے اور ان علوم کو نوعِ انسانی تک پہنچانے میں ہر ہر قدم پر اللہ اور اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیں تعاون ملے گا۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ ہم دنیا میں کامران اور اۤخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ جرأت مندانہ اقدام کرنے، دل شکن حالات سے گزرنے، لوگوں کی الزام تراشیوں کو نظر انداز کرنے کا ہمارے اندر حوصلہ پیدا ہوگا۔

یہ مختصر کتابچہ سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ دین کے سلسلے میں۲۳ سال جدّوجہد اور کوشش فرمائی ہے۔ پیدائش کے بعد سے چالیس سال تک کی عمر بھی سالکان کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

ہم سب خواتین و حضرات جن کے شانوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تعلیمات عام کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے بلاشبہ خوش بخت اور سعید ہیں۔ اس سعادت اور خوش بختی کی حفاظت کے لئے اور اس سعادت اور خوش بختی کا شکر ادا کرنے کے لئے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ ساز سیرت کا بار بار مطالعہ کریں۔ اس عمل سے ہمارے اندر یقین اور مسلسل اۤگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔

خواجہ شمس الدّین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاون، کراچی۔

۱۲ربیع الاوّل۱۴۱۷ ہجری

بمطابق۲۹ جولائی ۱۹۹۶عیسوی

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 4 تا 12

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)