بارش

مکمل کتاب : قوس و قزح

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8251

اس رنگ رنگ دنیا کو رونق بخشنے کے لئے قدرت نے حیات و ممات کا ایک مکمل سسٹم بنایا ہے۔ زمین پر جو بھی چیز موجود ہے و ہ حیوانات ہوں، جمادات ہوں، نباتات ہوں۔ حیوانات میں پرندے ہوں، چرندے ہوں، درندے ہوں یا انسان ہوں اور زمین کے اوپر یا زمین کے اندر حشرات الارض ہوں۔
زمین پر تین حصے پانی کی حکمرانی ہے۔ پانی کی مخلوق میں گھونگے ہوں، سیپ ہوں، موتی ہوں، مرجان ہوں، دریائی گھوڑا ہو یا اور بیشمار پانی سے جنم لینے والی مخلوقات ہوں۔ نباتات میں درخت ہوں، پودے ہوں، پھول ہوں، کھانے پینے کے لئے گھاس ہو، ترکاریاں اور سبزیاں ہوں۔ جمادات میں معدنیا ت ہوں، معدنیات میں ہیرے جواہرات ہوں، زینت و زیبائش کے لئے طرح طرح کے خوبصورت اور قیمتی پتھر ہوں تانبہ ہو، پیتل ہو، ایلومینیم ہو، گیس ہو، پیٹرول ہو، چاندی ہو یا سونا ہو۔ سب کی تخلیق کا قانون ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر چیز پیدا ہوتی ہے جوان ہوتی ہے اور کہن سالی میں منتقل ہو کر اس زمین سے غائب ہو جاتی ہے۔ پیدائش کا سسٹم ہو اس سسٹم میں جوانی بڑھاپا یا موت ہو سب ایک معین قانون کے تحت حرکت کرتے ہیں اور یہ حرکت اس دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں بھی جاری رہتی ہے۔ قدرت کا نظام جس طرح پیدا کرنے کا پابند ہے اسی طرح ہر چیز کی حفاظت بھی۔ اس نظام کی ذمہ داری ہے۔
زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ نے چھت بنائی ہے اور اس چھت کو ستاروں سے چاند سے سورج سے ایسا مزین کیا ہے کہ انسان دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے اور حیرت زدہ بھی ہوتا ہے۔ حسن کا معیار یہ ہے کہ کوئی خوبصورت ہوتا ہے، کوئی کم صورت ہوتا ہے، کوئی بدصورت ہوتا ہے۔ یہ خوبصورتی کم صورتی اور بدصورتی زمین پر موجود ہر نوع کے افراد میں مشترک ہے۔ جس طرح انسانوں میں لوگ خوبصورت ہوتے ہیں کم صورت ہوتے ہیں مضبوط ہوتے ہیں کمزور ہوتے ہیں۔ اسی طرح نباتات میں بھی مضبوط درخت نازک درخت بدصورت درخت ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہیں۔
زمین کے اوپر اگر نباتات کی دنیا نہ بسی ہوئی ہوتی تو زمین اجاڑ لگتی۔ زمین کے اندر کشش باقی نہ رہتی۔ نباتات کی دنیا نہ ہوتی تو انسان کو کھانے کے لئے اجناس میسر نہ آتیں۔ درخت نہ ہوتے تو کوئلہ نہ بنتا۔ کوئلہ نہ ہوتا تو خورد و نوش میں انسان اور شیر برابر ہو جاتے، کوئلہ یا لکڑی یا گیس کھانا پکانے میں کام آتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آگ سے انسانی زندگی کی ایجادات کا براہ راست تعلق ہے۔ یہ آگ ہی ہے جو لوہے کو پگھلا کر انسانی زندگی کے لئے آرام و آسائش میسر کرتی ہے۔ یہی کوئلہ جو انسان کو زندگی فراہم کرتا ہے اگر کسی کمرے میں جلا کر کھڑکیاں اور دروازہ بند کر دیا جائے تو آدمی کا دم گھٹ جائے گا۔
کوئلہ کو خوبصورتی کا نام نہیں دیا جا سکتا لیکن اس بدصورت شئے کے اندر قدرت نے جو صلاحیت محفوظ کر دی ہے اس سے مردہ اقوام زندہ ہو گئی ہیں اور زندہ اقوام جنہوں نے کوئلے کی صلاحیت کا سراغ نہیں لگایا اور کوئلے کی صلاحیت سے اجتماعی فوائد حاصل نہیں کئے وہ مردہ ہو گئی ہیں۔
انسان مر جاتا ہے قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے جب قبر میں انسان کا گوشت پوست اور ہڈیاں مٹی میں تبدیل ہو جاتی ہیں تو یہی مٹی اینٹ بن جاتی ہے۔ یہی مٹی پھول بن جاتی ہے اور یہی مٹی پھلوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھے ایک قصہ سنایا تھا۔ ’’نانا تاج الدین ناگپوریؒ کی خدمت میں کھانے کے لئے ایک امرود پیش کیا گیا۔ قاش جب ہونٹوں سے لگی تو انہوں نے فرمایا ’’یہ کسی مردے کا گوشت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر امرود کی قاش انہوں نے پھینک دی۔ حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگوں کو تجسس ہوا کہ امرود کی قاش سے مردہ گوشت کا کیا تعلق ہے۔ وہ معزز حضرات مجلس سے اٹھے اور فروٹ کی اس دکان پر پہنچے جہاں سے امرود خریدے گئے تھے۔ دوکاندار نے سبزی منڈی میں آڑھتی کا پتہ بتایا۔ آڑھتی نے اس زمیندار کا پتہ بتایا جہاں سے امرود اس کے پاس آئے تھے۔ زمیندار نے بتایا کہ جس باغ کے یہ امرود ہیں یہاں ایک قبرستان تھا۔ قبرستان میں ہل چلوا کر امرود کا باغ لگایا گیا ہے۔‘‘
قطار در قطار درختوں پر اور چھتری کی طرح سایہ دار درختوں پر اور پودوں پر سائنس نے ریسرچ کی ہے اور یہ ریسرچ اب اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ زرعی یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں۔ پودوں کی دو قسمیں ہیں۔ وہ پودے جو بیج میں سے دو پتے بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ اس میں ایک پتا نکلتا ہے۔ جب پودا جڑ پکڑ جاتا ہے یہ پتے سوکھ جاتے ہیں۔ نباتات میں بھی Cellsخلیئے ہوتے ہیں۔ ہر خلیئے کی بیرونی دیوار آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن سے تیارہوتی ہے۔ اس بات کا ہر وقت مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جڑ کے آخری کنارے پر اور پوری جڑ پر ایک غلاف چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ جڑ کی نوک میں اتنی طاقت اور Forceہوتی ہے کہ وہ سخت پہاڑوں کو بھی چیر کر نکل جاتی ہے۔
ہر شئے کی بنیاد پانی ہے۔ پانی کے اوپر ہی تخلیق کا پورا نظام چل رہا ہے۔ پانی نہ ہو تو زمین بے آب و گیاہ و بنجر بن جائے گی۔ پودوں درختوں اور نباتات کی دوسری چیزوں کی نشوونما کے لئے نمی ہوا اور گرمی کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فاسفورس، پوٹاشیم اور نائٹروجن نہ ہو تو تب بھی نشوونما نہیں ہو گی اور یہ سب چیزیں قدرت نے پانی میں جمع کر دی ہیں۔ جب پانی زمین میں دوڑتا ہے تو جڑیں پانی کو چوس کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں۔ درختوں کے ساتھ اگر پتے نہ ہوں تو انہیں درخت نہیں کہا جاتا۔ درختوں کی زیبائش ہی پتوں کے ساتھ ہے لیکن یہ پتے صرف زیبائش کا ہی کام نہیں کرتے ان کے اوپر درخت کی زندگی کا انحصار بھی ہے۔
ہر پتے میں رگیں ہوتی ہیں۔ مسامات ہوتے ہیں۔ یہ مسامات کاربن کو پتوں کی رگوں میں دوڑاتے ہیں اور یہی مسامات آکسیجن کو باہر نکالتے ہیں۔
پتوں کی بھی ایک پوری دنیا ہے۔ پتے درخت کو زندہ بھی رکھتے ہیں اور یہی پتے اگر بیمار ہو جائیں تو درخت بھی بیمار ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ یہی پتے جب زمین پر گرتے ہیں تو زمین کے اوپر نباتات کے لئے کھاد کا کام دیتے ہیں۔ انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی زمین پر کھاد ڈال سکے۔ بارش برستی ہے بجلی کڑکتی ہے بجلی کی کڑک سے اور بارش کی بوندوں سے کھیتوں کو بیش بہا نائٹروجن مہیا ہوتی ہے۔
دنیا میں ہر چیز ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ ہر چیز دوسری چیز کے لئے ایثار کر رہی ہے۔ ہر چیز دوسری چیز کی خدمت میں مصروف ہے۔ پھولوں میں رنگ و بو بھنورے اور مکھیوں کو اپنی طرف کھین رہی ہے۔ انجیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انجیر کے درخت پر پھول نہیں لگتا۔ انجیر کے اندر ایک زوجین چھوٹا سا غنچہ ہوتا ہے۔ ایک خاص قسم کی بھڑ نر اور مادہ غنچوں میں انڈے دے جاتی ہے۔ جب بچے نکلتے ہیں تو نر انجیر مادہ انجیر میں چلے جاتے ہیں۔
بعض بیلیں براہ راست زمین سے غذا حاصل نہیں کرتیں بلکہ دوسرے درختوں کے رس پر پلتی ہیں اور یہ درخت رفتہ رفتہ خشک ہو جاتے ہیں۔ درختوں کی جڑیں کیونکہ پانی کو جذب کر لیتی ہیں اس لئے زمین پر دلدل نہیں بنتی۔ فضا جب درختوں کے سانس سے بھر جاتی ہے تو بادل وزنی ہو کر برسنے لگتے ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے گفتگو کے درمیان ایک مرتبہ بتایا۔
’’ریگستان میں اگر بے شمار بانس کھڑے کر دیئے جائیں اور ان بانسوں کو مختلف رنگوں سے رنگ دیا جائے تو قانون یہ ہے کہ ریگستان میں بارش برسے گی اور جب تک بانس لگے رہیں گے بارش برستی رہے گی۔ تا آنکہ ریگستان نخلستان اور جنگل میں تبدیل ہو جائے۔‘‘
سمندر کے اندر کی دنیا پر غور کیا جائے تو وہاں بھی یہی نظام عمل کار فرما ہے۔ ہر چیز دوسری چیز کے کام آ رہی ہے اور ہر چیز دوسری چیز کی خوراک بن رہی ہے۔
غیر حقیقی طرز گفتگو یہ ہے کہ انسان گندم کھا رہا ہے جب کہ مشاہدات یہ ہیں کہ گندم کھانے والا انسان مر جاتا ہے اور گندم باقی رہتی ہے۔ حقیقی طرز تکلم یہ ہے کہ گندم انسان کو کھا رہا ہے۔
حیوانات کی زندگی کا دارومدار آکسیجن پر ہے اور نباتات کی زندگی کا انحصار کاربن پر ہے۔ اگر آکسیجن کم ہو جائے تو حیوانات ہلاک ہو جائیں گے اور کاربن کا ذخیرہ نہ رہے تو نباتات فنا ہو جائیں گے۔ کائناتی سسٹم نے کاربن کو نباتات کی اور آکسیجن کو حیوانات کی غذا بنا دیا ہے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ حیوانات ایک سال میں ۶۰ کروڑ ٹن کاربن سانس کے ذریعے خارج کرتے ہیں جس میں ۲۰ کروڑ ٹن خالص کوئلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح حیوانات ایک سال میں آٹھ کھرب مکعب میٹر آکسیجن استعمال کرتے ہیں۔
الحمدللہ رب العالمین ہر قسم کی تعریفات اللہ کے لئے ہیں جو ایسا منتظم اعلیٰ ہے جس نے عالمین کے لئے ایک مکمل نظام ربوبیت قائم کیا ہے۔ زمین کے اوپر موجود مخلوقات کی یہ بہت مختصر روئیداد اس لئے لکھی گئی کہ ہمارے اندر تفکر پیدا ہو۔ ہم یہ دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں اور اس بات پر یقین کریں کہ نظام کائنات میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر چیز دوسری چیز سے ایک مخفی رشتے سے بندھی ہوئی ہے اور یہ مخفی رشتہ ایسا مضبوط رشتہ ہے کہ مخلوق میں کوئی ایک فرد بھی اس رشتہ سے انکار کر سکتا ہے اور نہ اس رشتے کو توڑ سکتا ہے۔ جب تک کوئی شئے دوسری شئے کے کام آ رہی ہے اس کا وجود ہے ورنہ پھر وہ شئے مٹ جاتی ہے۔ یہ پورا نظام ہے جو پانی کی دنیا میں زمین کے اوپر کی دنیا میں زمین کے اندر کی دنیا میں فضا میں خلا میں آسمانوں میں اور انسانوں میں جاری و ساری ہے۔
قدرت یہ بھی چاہتی ہے کہ زمین کا کوئی خطہ کوئی حصہ قدرت کے فیض سے محروم نہ رہے۔ قدرت نے اسی لئے درختوں کو دور دراز زمین تک پہنچانے کے لئے وسائل بنائے ہیں۔ ہوا نے بیجوں کو اپنے دوش پر بٹھا کر دور دراز مقامات تک پہنچایا۔ نالوں ندیوں اور دریاؤں نے بیجوں اور جڑوں کو زمین کے ہر خطہ تک پہنچا دیا۔
جب کوئی قوم اس سسٹم سے تجاوز کرتی ہے اور ایثار سے خود کو محروم کر دیتی ہے تو قدرت اسے مٹا دیتی ہے۔
’’ٓاگر تم نے کائناتی سسٹم سے منہ پھیر لیا تو یہ زمین کسی اور قوم کے قبضہ میں دے دی جائے گی۔‘‘(القرآن)
جو قوم غیروں کے دسترخوان کے لقموں پر پلتی ہے محنت اور ایثار سے کام نہیں لیتی صرف دعاؤں اور وظیفوں میں مصروف رہتی ہے اور عملی اقدام نہیں کرتی وہ خشک درخت کی طرح ہے جس کا کوئی سایہ نہیں ہوتا جس پر کوئی پھل نہیں لگتا۔ وہ صرف جلانے کے کام آتا ہے۔
اس خوبصورت زمین پر صرف وہ قومیں باقی رہتی ہیں جو مظاہر فطرت کے جاری و ساری قانون سے واقف ہوں اور حیرت انگیز تخلیق اور نظام آفرینش کا مطالعہ کرتی ہوں۔ ظالم اور جاہل نہ ہوں۔ سب سے بڑا ظلم اور جہالت یہ ہے کہ انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ آسمانی دنیا کا مشاہدہ کئے بغیر کوئی قوم کائناتی سسٹم سے واقف نہیں ہوتی اور اپنی ذات کا عرفان نہ ہو تو انسان اور حیوان ایک گروہ کے دو افراد ہیں۔ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ زمین کے خزانوں کو استعمال کئے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔ زمین کے خزانوں کے استعمال کا عمل اور طریقہ قرآن میں تفکر اور زندگی میں ایثار کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کی مثال ہمارے سامنے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا یقین و ایثار ہے۔
حضرت ابراہیمؑ نے باطل عقائد کی تکذیب، کائنات میں تفکر اور اللہ وحدہ لا شریک کی پرستش کو اپنے لئے اولاد کے لئے اور امت کے لئے منتخب کیا۔
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’میں تجھے بنانے والا ہوں انسانوں کے لئے امام۔‘‘
حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کے لئے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’تیری اولاد میں سے ظالم لوگ محروم ہو جائیں گے۔‘‘
(سورہ بقرہ)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 45 تا 53

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)