ایک حسین و جمیل دولہن

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17795

اب سنو موت کیا ہے اور مرتے وقت انسان کو کیا محسوس ہو گا۔

موت ایک نہایت ہی حسین شے ہے جو اس دنیا میں تمام نعمتوں سے زیا دہ قیمتی ہے۔ موت انسان کو فکر و غم سے آزاد کرتی ہے۔ زمہ داریوں سے آزاد کرتی ہے۔ موت انسان کو ایک ابدی زندگی بخشتی ہے۔ موت انسان کی خواہشات کا نچوڑ ہے۔ موت انسان کو روحانی سکون بخشتی ہے لیکن اس حسین شئے کو حاصل کرنے کی قیمت نیکیاں ہیں۔ اعمال حسنہ ہیں جو انسان زندگی میں کرتا ہے۔ اگر انسان کے پاس موت کو حاصل کرنے کی یہ قیمت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔برے انسان کے لیے موت ایک بھیانک دیو سے کم نہیں ہے۔ مرتے وقت خوفناک شکلیں اسے ڈرائیں گی یہ خوفناک اور دہشت ناک دیو اسے طرح طرح کی تکلیفیں دیں گے۔ انسان بھاگنا چاہے گا لیکن کہاں جائے گا، ہر طرف دیو ہی دیو ہوں گے اور وہ ایک بے بس پرندے کی طرح جس کے دونوں پر کاٹ دیے گئے ہوں ان دیوؤں کے قبضے میں ہو گا۔

اس لیے موت  کا استقبال ایک حسین و جمیل دولہن کی طرح کرو۔ اپنی نیکیوں سے اس کا سنگھار کرو تاکہ مرتے وقت  وہ جب قریب آئے تو اپنے نور کی شعاعوں سے تمھاری  قبر  کا اندھیرہ دور کر دے۔ اپنے اعمال بد سے اس کا چہرہ مسخ نہ کرو کہ وہ  تمہیں قبر کے خوفناک اندھیرے  میں ایک دہشت ناک  دیو  معلوم ہو۔

یہ تمام الفاظ مجھے اللہ تعالے نے ودیعت کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان  کو جتنے بھی علم دئیے گئے ہیں وہ تمام اللہ تعالے ہی کے لئے ہیں۔ اس لئے حسین  اور خوب صورت الفاظ میں انہیں یاد کرو۔ ان پر اپنے الفاظ کا جادو بکھیرو۔ انہوں نے جو بھی مجھے بتایا جو دعائیں بھی پڑھوائیں ان کے الفاظ بہت شیریں تھے اور قرآن شریف کے الفاظ کس قدر شیریں ہیں کہ باوجود یہ کہ ہم عربی نہیں جانتے ہم تلاوت کرتے ہیں تو کھو کر رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے جب بھی مخاطب ہو ادب کے ساتھ بہترین الفاظ میں اس کے حضور نذرانہِ عقیدت پیش کرو۔

دیکھو یہ انسان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ حق کی آواز پہچانے، حق کی آواز انسان کے اپنے ضمیر کی آواز ہے۔ مجھے اس کے پہچاننے کی تعلیم دی گئی ہے۔  تو ب

میں پچھلا خط آپ کو رات گئے تک لکھتی رہی، بچوں کو لٹا کر ان کے پاس ہی لکھنے بیٹھ گئی کیونکہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں جلد از جلد آپ کو لکھ دوں لیکن رات کافی ہو گئی تھی مگر لائٹ ہونے کی وجہ سے بچے سو نہیں رہے تھے دو تین مرتبہ میرے دل میں خیال آیا کہ لائٹ بند کر کے میں سو جاؤں  تو بچے بھی سو جائیں گے مگر خط بھی لکھنے کا شوق مجھے ہو رہا تھا میں لکھتی رہی اور ضمیر کی آواز پر میں نے دھیان نہیں دیا۔ اسی وقت پھٹ سے بلب فیوز ہو گیا اور گھپ اندھیرا ہو گیا۔ بہت ہی زور سے کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ تم حق کی آواز نہیں پہچانتی ہو، ہم تمہیں کب سے کہہ رہے ہیں کہ سو جاؤ، خط صبح لکھ لینا۔ ڈر کے مارے تو میری آدھی جان نکل گئی، اسی وقت میں نے قلم کاغذ تکیے کے نیچے رکھا حتیٰ کہ اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اٹھ کر چشمہ بھی رکھوں وہیں پلنگ کے نیچے ہی رکھ کر جیسی تھی لیٹ کر سو رہی۔ پھر انہوں نے سمجھانے کے انداز میں مجھے کہا دیکھو جس کام کے کرتے وقت یا شروع کرتے وقت تمہارے دل میں یہ خیال آئے کہ نہیں کرنا چاہئیے وہ کام نہیں کرنا چاہیے ، وہ کام فوراً چھوڑ دو چاہے تمہیں کتنا ہی ضروری محسوس ہوتا ہو اپنے ضمیر کی آواز سنو، ضمیر کی آواز ہی حق کی آواز ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اگر انسان بار بار اپنے ضمیر کی آواز یعنی حق کی آواز کو ٹھکرا دے تو ضمیر رہنمائی نہیں کرتا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 111 تا 113

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)