اندر کی آنکھ

مکمل کتاب : محبوب بغل میں

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13745

آدم کو جب اللہ نے بنایا تو اس طرح بنایا کہ آدم اندر زیادہ دیکھتا تھا اور باہر کم۔ باہر دیکھتا تھا تو……باغوں و طیور……نہریں……آبشاریں……بلبل کا ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پُھدکنا……کوئل کی کوک……کبوتر کی غُٹر غُوں……چڑیوں کی چہک……فاختہ کی کُوکُو سنتا تھا……رنگ رنگ پھولوں کا مستی بھرا شباب……جوانی کی خوشبو……اور خوشبو کی مہک سے مُشام جاں، عطر بیز محسوس کرتا تھا۔ آدم ایک بے خود کر دینے والی کیفیت میں گم ہو جاتا تھا……سلیقہ، سلیقہ رَوِشیں، راہ گزر پر قطار در قطار ہوا میں جھومتے پھول……سروقد درخت……چھتری چھتری پیڑ نظر آتے تھے……ان سب میں دل لگانے کے باوجود آدم کے اندر ایک ٹیس ابھرتی تھی، کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ گٹھن آنکھوں سے ٹپکتی تھی کہ آدم کا ہم جنس کوئی نہ تھا۔ ہم جنس کو تلاش کرتے کرتے جب وہ تھک گیا اندر سے ٹوٹ گیا، بکھر گیا۔ تو آدم کو بکھرے ہوئے ذرّات میں اپنی ہم جنس کا عکس دکھائی دیا۔ تصویر کا غلاف آنکھوں……چاند چہرہ……غنچہ دہن ……تبسم تبسم ہونٹ……صراحی گردن……سیمی بدن……گدرگدر انار……مقناطیسی کمر……معطر سراپا……قدرت کا شاہکار تصویر کو دیکھتا تو آدم اس پر فریفتہ ہو گیا۔ جب اسے اپنے اندر اپنی ہی تصویر کا دوسرا رخ نظر آیا تو تصویر پر اس کا ذہن مرکوز ہو گیا۔ ذہن میں مرکزیت آئی تو ارادہ پیدا ہوا۔ ارادہ میں حرکت ہوئی تو اندر میں اس تصویر نے پلک جھپکی، پلکوں کا جھپکنا تھا کہ آدم کے دل میں پہلےسے موجود روشن نقطہ کھل گیا، روشنی اور نور کا ایک ساتھ جھماکا ہوا اور آدم کے اندر سے تصویر باہر آ گئی۔
آدم ایک قدم آگے بڑھا تو تصویر دو قدم آدم کی طرف آئی۔ دونوں کا باہم اتصال ہوا اور آدم اور حوّا ایک دوسرے میں جذب ہو گئے۔ آدم نے جذب ہونے کے لئے خود کو حوّا کے سپرد کر دیا اور حوّا نے آدم کو اس کی پوری صلاحیتوں اور توانائیوں کے ساتھ اپنے اندر سمیٹ گیا۔
یہ جذب ہونا اور سمٹ کر دونوں کا ایک ہو جانا فطرت کو پسند آیا، فطرت نے انگڑائی لی۔ فطرت کو یوں بے تاب دیکھ کر اس کی داد رسی کے لئے جبلت نے اپنا چولا اتار پھینکا، فطرت اور جبلت آپس میں یک جان دو قالب بن گئیں۔
آدم اور حوّا فطرت اور جبلت کے سنجوگ کو دیکھ کر کائنات سرشاری میں نیچے اتر آئی اور اس طرح نزول و صَعود شروع ہو گیا۔
کائناتی قانون یہ بنا کہ جب دو صورتیں ایک دوسرے میں جذب ہوں گی تو تیسری تخلیق عمل میں آ جائے گی۔ قانون کی عملداری کے بعد ایک تصویر سے دوسری تصویر اور دو تصویروں کے ملاپ سے تیسرا وجود عالَمِ مظاہر میں آنے لگا۔
آدم کے بیٹوں اور حوّا کی بیٹیوں سے زمین پر بستیاں آباد ہو گئیں اور بستیاں شہر بن گئیں۔
ایک شہر میں ایک باپ اور اس کے چار بیٹے رہتے تھے۔ باپ نے چار بیٹوں کی تربیت اس طرح کی کہ سب بھائی ایک ہی جان کے الگ الگ حصّہ تھے۔ سب میں ایثار تھا، سب میں محبت تھی اور سب ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ سب میں ایک ہی ماں کا خون دوڑ رہا تھا۔ مامتا ایک تھی، مامتا کے مظاہر چار تھے۔ چاروں گبر و جوان نکلے۔ زمین کی چھاتی پر قدم رکھتے تو زمین اپنے وجود کو اور زیادہ پھیلا دیتی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ زمین ہی سب سے بڑی ماں ہے۔ جب بچوں نے زمین کی کوکھ کو کُریدا تو زمین نے مامتا کے ہاتھ ان کے لئے خود کو لہلہاتے کھیت اور کھلیانوں میں تبدیل کر دیا۔
چار بیٹے جب اپنے اندر کی آگ کی تپش سے جھلسنے لگے تو انہوں نے اپنے باپ آدم کے سبق کو دہرایا۔ بالآخر یہ چاروں بیٹے آدم حوّا کے روپ میں بہروپ بن گئے۔
دو آدم اپنی حواؤں کو لے کر الگ ہو گئے۔ دو بھائی الگ نہیں ہوئے۔ بڑے بھائی نے سوچا کہ چھوٹا بھائی ابھی کمزور ہے، میرے اوپر فرض ہے کہ میں اس کی مدد کروں۔ بڑے بھائی نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزانہ گیہوں کی کوٹھی میں سے بھائی کے لئے اتنا گندم نکال دیتا تھا کہ جتنا روز کا خرچ تھا۔
چھوٹے بھائی نے سوچا میں چھوٹا ہوں بڑے بھائی کے اَعصاب پر اِنحطاط آ گیا ہے چھوٹا بھائی ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ میں بھائی کی خدمت کروں۔ اس نے بھی یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزانہ کا خرچ اپنے گیہوں کی کوٹھی سے نکال کر بھائی کی کوٹھی میں ڈالنا شروع کر دیا۔ ایک سال گزرا، دوسرا سال گزرا، تین سال گزر گئے۔ گھر خوشحال اور سکون کا گہوارہ تھا… چوتھا سال آیا…
بڑے بھائی کی جورو نے یہ کام کیا کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی کوٹھی میں جتنا گیہوں ڈالتا تھا وہ اس سے دوگنا نکال لیتی تھی۔
چھوٹے بھائی کی بیوی نے سوچا کہ میرے شوہر کی کمائی بڑے بھائی کو جا رہی ہے، اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ چھوٹا بھائی اگر بڑے بھائی کی کوٹھی میں ایک کلو گیہوں ڈالتا تھا تو وہ چار کلو نکال لیتی تھی۔
ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ دونوں بھائی کنگال ہو گئے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 129 تا 132

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)