اللہ اور آدم

مکمل کتاب : پیرا سائیکالوجی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=7893

جذبات کے اندر رہتے ہوئے تقاضے پورے کرنا جبلّت ہے۔ اور جذبات اور حواس کو الگ الگ سمجھنا اور جذبات اور حواس کے مفہوم سے باخبر ہونا خود آگاہی ہے۔ خود آگاہی فطرت ہے۔ جبلّت بدلتی رہتی ہے۔ فطرت میں تغیّر اور تبدل واقع نہیں ہوتا۔ اللہ کریم نے جس چیز کو جس فطرت پر پیدا کر دیا اس میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ انسان کو دوسرے حیوانات اور دوسری مخلوقات سے ممتاز کر کے اللہ نے علم کی صفات کا علم عطا فرمایا۔ یعنی اللہ نے اپنی یکجائی صفات آدم کو سکھا دیں۔ یکجائی صفات سے مراد یہ ہے کہ اللہ کریم نے جس حد تک اور جس قدر مناسب سمجھا آدم کو اپنی تخلیقی صفات کا علم عطا کر دیا۔ اللہ کے اَسماء اللہ کی صفات ہیں چونکہ اللہ خالقِ کائنات ہے اس لئے اللہ کی ہر صفَت اللہ کریم سے ہم رشتہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے اپنی ان صفات کے وہ علوم آدم کو سکھا دیئے جن صفات کے اوپر کائنات کی تخلیق وجود میں آئی۔ یہ اس لئے ہوا کہ خالق چاہتا ہے کہ مجھے پہچانا جائے۔ پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ آدم خالق کی صفات کا علم رکھتا ہو۔ صفات کا یہ علم اللہ نے دوسری مخلوقات فرشتوں کو بھی عطا کیا لیکن تخلیقی صفات کے جو علوم اللہ نے آدم کو عطا کئے وہ فرشتوں کو نہیں بتائے۔
مفہوم یہ نکلا کہ آدم کی فضیلت اس بنیاد پر ہے کہ وہ اللہ کی تخلیقی صفات سے واقف ہے چونکہ اللہ نے اس کو اپنی صفات کا علم عطا کر دیا ہے اس لئے یہ ان صفات کو جاننے کے بعد اللہ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کی دوسری مخلوق اللہ کو نہیں جانتی۔ اللہ کی دوسری مخلوق بھی اس بات سے واقف ہے کہ ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے اور وہی ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے اور اس نے ہی ہمارے لئے وسائل فراہم کئے ہیں۔
جاننے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو جانتا ہے کہ فلاں آدمی دنیا میں موجود ہے۔ کسی حد تک اس کی صفات سے واقف ہے۔
دوسرا آدمی اس آدمی سے متعارف بھی ہے اور اس کو اس کی قربت بھی حاصل ہے۔ قربت کی وجہ سے وہ اس کو دیکھتا بھی ہے۔
اس کی بات بھی سنتا ہے۔ اور اس کے سامنے اپنی معروضات بھی پیش کرتا ہے۔
تمام مخلوق پہلی طرز سے واقف ہے۔ مگر مخلوق آدم چونکہ اللہ کی صفات کا علم رکھتی ہے اس لئے وہ اللہ سے قربت حاصل کر کے اللہ کا عرفان حاصل کر لیتی ہے۔ عرفان سے مراد محض لفظی عرفان نہیں ہے۔ عرفان سے مراد یہ ہے کہ اسے اس بات کا یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ میں مخلوق ہوں اور مجھے پیدا کرنے والا اللہ میرا خالق ہے اور اس یقین کے بعد وہ اللہ کو دیکھتا ہے۔ اللہ کی آواز سنتا ہے۔ اللہ کو محسوس کرتا ہے۔ اللہ سے گفتگو کرتا ہے۔ اللہ جب اس سے کچھ کہتا ہے تو اس کی گفتگو سن کر سرشاری کی کیفیّت میں اس کی تکمیل کرتا ہے۔ وہ یہ بات جان لیتا ہے کہ میرا وجود اللہ کے رحم و کرم اور الہے کی محبت پر قائم ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات پوری طرح قائم ہو جاتی ہے کہ میری زندگی میں ہر حرکت اور میری زندگی کا ہر عمل اس بنیاد پر قائم ہے کہ مجھے اللہ نے سنبھالا ہوا ہے۔ وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ مجھے اللہ نے کس مشیئت کے تحت پیدا کیا ہے؟ میری پیدائش کی غرض و غایت کیا ہے؟ پیدا ہونے سے پہلے میں کس عالَم میں موجود تھا اور مرنے کے بعد میں کس عالَم میں منتقل ہو جاؤں گا۔ وہ اس بات سے باخبر ہو جاتا ہے کہ فرشتے اس کے مسجود ہیں یعنی اس کے سامنے وہ سارا نقشہ آ جاتا ہے جس کا تذکرہ قرآن نے ‘‘انی جاعل فی الارض خلیفہ’’ (سورۃ البقرہ – آیت نمبر 30) میں کیا ہے۔
یہ بات بہت زیادہ غور طلب ہے کہ آدم کی اولاد آدم ہے اور آدم کی اولاد بحیثیت آدم کے اس بات کا مشاہدہ کر سکتی ہے جن مشاہدات سے آدم گزرا ہے۔ اگر آدم زاد اس بات کا مشاہدہ نہ کرے جس حالت کا مشاہدہ آدم نے کیا ہے یعنی خود کو فرشتوں کا مسجود دیکھنا۔ اللہ اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ ہونا۔ اللہ کریم کا یہ ارشاد فرمانا کہ ہم نے آدم کو اپنی تمام صفات کا علم سکھا دیا ہے اور فرشتوں کا یہ کہنا کہ ہم صرف اس حد تک واقف ہیں جس حد تک آپ نے ہمیں عطا فرما دیا ہے۔ یہ تمام فلم اگر آدم زاد بندے کے سامنے نہ آئے تو وہ ہرگز آدم کی اولاد کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ اس کی حیثیت اس آدم کی ہرگز نہیں ہے جس آدم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ میرا نائب اور خلیفہ ہے۔ اس کے اختیارات استعمال کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ ہرگز نائب نہیں ہے۔
اس تمام گفتگو کا اجمال یہ ہوا کہ آدم زاد اگر ازل میں اس واقع سے واقف نہیں ہے اور ان واقعات کو اس زندگی میں نہیں دیکھتا جن کی بنیاد پر آدم کو نائب اور خلیفہ بنایا گیا ہے تو وہ آدم کی صف میں شمار نہیں ہوتا اور اگر کھینچ تان کر محض شکل و صورت کی بنیاد پر اس کو آدم زاد کہہ بھی دیا جائے تو اس کو ناخلف اولاد سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے کہ وہ اپنے باپ کے ورثے سے محروم ہے۔ باپ کے ورثے سے محروم اولاد ناخلف ہوتی ہے، بدنصیب ہوتی ہے، مفلوک الحال ہوتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اللہ کے اَسماء کا علم نہیں جانتا تو وہ اللہ کا نائب نہیں ہے۔ آدم زاد کو دوسری مخلوقات پر جو شرف حاصل ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آدم زاد اللہ کے اَسماء کا علم جانتا ہے اور اس علم کی بنیاد پر وہ اللہ کا نائب ہے۔ چونکہ آدم اللہ کا نائب ہے اس لئے وہ اللہ کے اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔ اللہ کے اختیارات بحیثیت خالقِ کائنات کے وہ اختیارات ہیں جنہیں تخلیقی اختیارات کہا جاتا ہے۔
اللہ نے اپنے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ میں احسن الخالقین ہوں یعنی میں تخلیق کرنے والا ہوں۔ میں بہترین خالق ہوں۔ آیت مبارکہ سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہے یعنی اللہ نے بندوں کو بھی تخلیقی صلاحیتیں منتقل کی ہیں۔ یہ تمام صلاحیتیں وہ اَسماء ہیں جن کے بارے میں خالقِ کائنات نے ارشاد فرمایا:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسماء كُلَّهَا (سورۃ البقرہ – آیت نمبر 31)
اور ہم نے آدم کو تمام اَسماء کا علم سکھا دیا۔
علم الاَسماء سے مراد کائنات میں وہ تخلیقی فارمولے ہیں جن تخلیقی فارمولوں سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 79

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)