اسپیس

مکمل کتاب : قدرت کی اسپیس

مصنف : حضور قلندر بابا اولیاٗ رحمتہ اللہ علیہ

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=27

سائنس دان اسپیس ایسی خلاء کو کہتے ہیں جہاں زمین کی کشش ثقل (GRAVITY) موجود نہ ہو۔ زمین کی (GRAVITY) کس کس جگہ موجود نہیں یہ ایک الگ بات ہے۔ زمین کی کشش کی وجہ سے انسان سانس لیتا ہے یعنی کہ ایک ایسی زندگی ہے جو کشش چاہتی ہے اور اس کے بغیر اس کا قیام ممکن نہیں۔ مگر زمین پر بسنے والے انسان، حیوانات، جمادات اور نباتات میں ہی کچھ ایسا موجود ہے جو زمین کی کشش کا اثر نہیں لیتا۔ مثال کے طور پر وہم، خیال، افسوس۔ اس کے علاوہ سوچ، تفکر وغیرہ بھی زمین کی کشش سے لاتعلق ہیں۔ اس کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ مثال کے طور پر انسان سو جاتا ہے۔ کشش اس کو سانس پہنچاتی رہتی ہے مگر اس کا ذہن کشش سے آزاد ہوتا ہے۔ وہ خواب دیکھتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، چلتا ہے، ایک سیکنڈ کے حصہ میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس حالت میں جو کیفیتیں اس پر گزرتی ہیں، یادداشت پر تحریر ہو جاتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے جاگنے کی حالت میں ہوتا ہے یعنی اس کا ذہن جو کچھ دیکھتا ہے، سنتا ہے، سمجھتا ہے وہ زمین کی کشش سے آزاد ہے، اس کے سیدھے سادے معنی یہ ہوئے کہ سائنس کی یہ تعریف غلط ہے کہ اسپیس (SPACE) صرف خلاء کو کہتے ہیں جہاں زمین کی کشش موجود نہ ہو، جب کہ انسان ہر جگہ زمین کی کشش سے آزاد ہے۔ انسان صرف سانس لینے والے کا نام تو نہیں ہے اس لئے کہ جب وہ نیند میں سانس لیتا ہے تو اسے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ اس کے دوسرے معنی یہ کریں گے کہ انسان سوچ بچار، تفکر یا توجہ کا نام ہے۔ یعنی صرف حواس کا نام انسان ہے۔ حواس ہی انسان کی زندگی ہیں۔ میں اس حالت کی تفصیل اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان چاہے زمین پر ہو یا خلاء میں وہ زمین کی کشش سے آزاد ہے۔ اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اگر وہ زمین کی کشش کا پابند ہوتا تو کبھی مرتا نہیں۔ وہ ہمیشہ امر رہتا اس لئے کہ زمین کی کشش اس کی ہر کیفیت کو اپنے اندر سمو لیتی۔ روحانی دنیا میں اسپیس خلاء تک محدود نہیں ہے مگر اسپیس ہر جگہ ہے، ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اسپیس سے الگ نہیں رہ سکتی۔
انسان کے ذہن میں جو پردہ ہے، اس کی چار جگہ (اسپیس) ہیں۔ ایک اندھیرا اور اندھیرے کے پیچھے کی اسپیس، ایک اجالا اور ایک اجالے کے پیچھے کی اسپیس، یہ چار اسپیس ہوئیں۔ انسان اگر چاروں اسپیس پر قدرت اور قابو پانا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے اور اجالے میں پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اسے دیکھ سکتا ہے۔ یہ جاگنے سے ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہو جاتا ہے۔ پہلے چوبیس گھنٹے، پھر اڑتالیس گھنٹے، پھر بہتر گھنٹے پھر بہتر سے زیادہ چوراسی گھنٹے، عموماً بہتر گھنٹے کے بعد وہ چیزوں پر قابو پا لیتا ہے جن پر قابو پا لینا چاہے۔ مثال کے طور پر بہت سی اسپیس پر قابو پا لیتا ہے مطلب یہ کہ چاروں اسپیس دماغ کے پردے سے الگ ہو کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو مستقبل سے متعلق ہوتی ہیں۔ وہ الگ الگ ٹکڑوں میں نظر آتیں ہیں۔
آہستہ آہستہ انسان ٹکڑوں کو جوڑنے لگتا ہے۔ ٹکڑے جوڑنے کے بعد اسپیس میں کچھ معنی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر انسان اس کو سمجھنے لگتا ہے کہ مستقبل میں ایسے حالات پیدا ہونگے۔ آنکھوں کے ساتھ جب دماغ کے چاروں حصے بیدار ہو جائیں گے، حرکت میں آ جائیں گے تو سننے کی اسپیس بھی حرکت میں آ جائے گی اور جب اس طرح دونوں اسپیس مل جائیں گی تو انسان دیکھنے بھی لگے گا اور سننے بھی لگے گا۔ پھر سونگھنے اور چکھنے کی اسپیس مل جائیں گی۔ جب یہ پانچوں اسپیس دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا اور چھونے کے ساتھ چھٹی سوچنے کی اسپیس مل جائے گی تو بہت دور کی باتیں دماغ میں آتی ہیں، جو مستقبل میں ہونے والی ہوتی ہیں۔ اگر سوچنے کی اسپیس نہ ملے تو پانچوں حواس مل کر خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ انسان ان پانچوں اسپیس کے بارے میں ادراک رکھتا ہے۔ اس حالت کو ’’فتح‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے اندر انسان کا بدن صرف ایک چھاؤں (سایہ) بن جاتا ہے اور وہ وقت اور فاصلہ کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس میں سوچنے کی اسپیس شامل نہیں۔ اگر سوچنے کی اسپیس شامل ہو جائے تو ’’فتح‘‘ میں کمزوری آجائے گی، جسم بھاری ہو جائے گا۔ مگر یہ پانچ اسپیس ملنے سے جو خیالات پیدا ہوں گے وہ سوچنا نہیں کہلائیں گے یہ تو صرف علم ہو گا جس میں انسان کا انفرادی ذہن شامل نہیں ہوتا۔ مگر یہ علم اسپیس کا ہوتا ہے۔ اس وقت جب انسان ’’فتح‘‘ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کی اپنی فکر، اس کا اپنا سوچنا سب یادداشت سے نکل جاتا ہے۔ وہ اسپیس کے علم سے سوچتا ہے یہ اسپیس کا علم اللہ کا نور ہے۔
سارے اولیاء اللہ کا قول ہے کہ ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا۔ اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پایا۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے۔ اسپیس کا علم، علم کی تجلی کو دیکھتا ہے جب اسپیس کا علم آنکھوں سے دکھ جائے کانوں میں سنائی دے تو تجلی نظر آتی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَما كانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ ما يَشاءُ
کسی کی طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر تین طریقوں سے وحی کے ذریعہ، رسول کے ذریعہ یا حجاب سے۔ یہ تینوں اسپیس ہیں۔ حجاب بھی اسپیس ہے۔
وحی اسے کہتے ہی کہ جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جائے اور پردے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آ جائے اور ایک آواز آتی ہے۔
فرشتہ کے ذریعہ یا رسول کے ذریعہ کے معنی یہ ہیں کہ فرشتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طرف سے بات کرتا ہے۔
حجاب کے معنی یہ کہ کوئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طرح بات کرتی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے، حجاب ہے۔
یہ وہ تین اسپیس ہیں جن کی تفصیل قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا طَور سے کی ہے۔ یہاں جو کچھ مزید کہنا ہے وہ یہ کہ ہر فرد کو یہ توفیق ملی ہے اور بشر سے مراد جو انسان آدمی کی شکل میں ہے وہ بشر ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں پردے کے پیچھے ہیں۔ پردے کے اوپر نہیں ہیں۔ جب تک پردہ اٹھتا نہیں ہے یہ تینوں طریقے بیدار نہیں ہوتے۔ یہ تینوں شکلیں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جب انسان پردہ کے پیچھے دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔
وحی کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ وحی صرف انبیاء پر آتی ہے. وہ خاص ہے. اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ میں نے مریم کی طرف وحی بھیجی، میں شہد کی مکھی کی طرف وحی بھیجتا ہوں، شہد کی مکھی نبی نہیں ہے۔ یہاں یہ بات قابل بحث ہے کہ حضرت مریم پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو اس کے ساتھ پھل، پھول، انگور وغیرہ آتے تھے جنہیں کھا کر وہ اپنی زندگی گزارتیں تھیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عام وحی میں کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ حضرت مریم نبی نہیں تھیں۔ یہ جملہ معترضہ تھا۔
اسپیس کی بات ہو رہی تھی۔ یہ سب چیزیں بھی اسپیس کہلائیں گی۔ انسان یا حیوانات یا جمادات یا نباتات، سب اسپیس میں ہی ابھرتے ہیں، اسپیس میں حرکت کرتے ہیں اور جو چلتے پھرتے جانور ہیں جن میں انسان شامل ہے وہ اسپیس میں سانس لیتے ہیں۔ یوں کہئے کہ اسپیس کے اندر جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بدن کو اسپیس سے چھڑا نہیں سکتے مگر ایک صورت ہے کہ وہ اسپیس کی دوسری سمت، ظاہری سمت سے باطنی سمت کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اس بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:
’’موتو قبل انت موت‘‘
اب ہمارے سامنے مرنے کے بعد کی سمت آ جاتی ہے یعنی انسان ظاہری شکل سے باطنی شکل میں چلا جاتا ہے جسے موت کہتے ہیں۔ اگر زندگی کے درمیان اس پر قابو پا لیا جائے تو اس پر وہ راز کھل جاتا ہے جو مرنے کے بعد کھلتا ہے یا مرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ اسپیس کی باطنی سمت میں برزخ بھی ہے، حشر بھی ہے، دوزخ بھی ہے، جنت بھی ہے اور اعراف بھی ہے۔ اسپیس کے باہر جو سمتیں ہیں وہ سب سمتیں عالم ناسوت کے پردے میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہم بولتے ہیں مگر مرنے کے بعد بول نہیں سکتے۔ تو یہ بولنا کہاں سے آتا ہے؟ یہ ایک الگ اسپیس ہے۔ ہم بہت ساری ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کا نام ہم زندگی رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر ہم انسان کو لاش کہتے ہیں۔ یہ سب اسپیس کے کرشمے ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 35 تا 43

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)